مینڈا عشق وی توں۔/۔پروفیسر رضوانہ انجم

You are currently viewing مینڈا عشق وی توں۔/۔پروفیسر رضوانہ انجم

مینڈا عشق وی توں۔/۔پروفیسر رضوانہ انجم

پروفیسر رضوانہ انجم

دنیا کی تمام بیٹیاں باپ سے محبت کرتی ہیں.۔۔۔ سگمنڈ فرائڈ بھی یہی کہتاہے کہ بیٹیوں کو باپ سے اور بیٹوں کو ماں سے محبت ہوتی ہے۔۔۔۔لیکن کچھ مجھ جیسی بھی ہوتی ہیں جو۔۔۔ صرف محبت نہیں کرتیں۔۔۔باپ سے عشق کرتی ہیں۔۔۔۔مجھے پاپا سے صرف محبت نہیں۔۔۔عشق تھا۔۔۔۔۔۔

میرے والد امان اللہ بظاہر تو بالکل عام سے انسان تھے لیکن وہ کتنے خاص تھے یہ میں جانتی ہوں یا پھر وہ لوگ جانتے ہیں جو انکے نزدیک رہے ہیں۔مجھے ان سے عشق اس لئیے نہیں تھا اور ہے۔۔۔ کہ وہ میرے والد تھے۔۔۔۔

مجھے انکی ذات اور انکی صفات سے محبت تھی۔ایک سچے اور اچھے انسان کی سبھی خوبیاں ان میں موجود تھیں اور اچھا انسان وہ ہوتا ہے جو کسی ایک کے لئیے نہیں سب کے لئیے اچھا اور بے غرض ہوتا ہے۔

میرے پاپا بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح پیدائشی یتیم تھے۔نو برس کی عمر میں والدہ کا بھی ٹی بی کے مرض میں انتقال ہوگیاجو اس زمانے میں کینسر کی طرح لا علاج مرض سمجھا جاتا تھا۔وہ اور انکی بڑی بہن تنہا رہ گئے۔اگرچہ انکے سر پر تایا اور چچا کا سایہ موجود تھا لیکن والدین کی کمی کا ملال ہمیشہ انکے حساس دل کو غمزدہ کرتا رہا۔جب بھی اپنی ماں کا ذکر کرتے تو یہ ضرور بتاتے کہ، 

 بیماری کی حالت میں انکے چچا انھیں اپنے ساتھ لے آئے جبکہ انکی ماں آبائی قصبہ “جیور” میں زندگی کے آخری ایام گزار رہی تھیں۔جس دن ان کی ماں کا انتقال ہوا اس سے ایک رات پہلے میرے والد بے حد بے چین تھے۔۔۔شاید ہمیشہ کی جدائی انکے دل پر دستک دے رہی تھی ۔اسی بیقراری میں رات کے کسی پہر نو برس کے امان اللہ گھر سے چپ چاپ بغیر کسی کو بتائے ماں سے ملنے نکل کھڑے ہوئے۔اندھیری رات میں دس میل طویل راستہ طے کر کے۔۔۔

جنگل اور ویرانے سے گزر کے اپنی لب مرگ ماں کے پاس جا پہنچے۔ماں نے سینے سے لگا کر پوچھا،

تم اگئے؟اچھے تو ہو؟۔۔۔۔اور ماں چلی گئیں۔

اس آخری انہونی ملاقات کا ذکر ہزاروں مرتبہ مجھ سے اور میری ماں سے کیا ہوگا لیکن انکا دل بھرتا ہی نہیں تھا۔

اپنی زندگی کے آخری دن بھی یہ ذکر بڑی محبت سے کیا کہ،

نجانے کونسی غیبی طاقت مجھے بنا ڈر اور خوف کے میری ماں تک پہنچا ائی؟؟

اور میں نے ہمیشہ کی طرح پیار سے کہا،

“پاپا۔۔۔حضرت خضر علیہ السلام ہونگے جنہوں نے ایک ننھے بچے کو اسکی ماں تک پہنچا دیا”

اور ہمیشہ ہی کی طرح پاپا خوش ہوگئے۔۔۔مسکرا دئیے۔۔۔۔

شاید اس لئیے بھی کہ کچھ گھنٹوں بعد وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئیے اپنی ماں سے ملنے عزرائیل علیہ السلام کے ہمراہ جانے والے تھے۔۔۔۔۔

۔بیس برس کی عمر میں اکلوتی بہن کا بھی انتقال ہوگیا اور پاپا بالکل اکیلے رہ گئے۔لیکن یہ غم و اندوہ اور تنہائی میرے بہادر باپ کو توڑ نہیں سکے۔۔۔وہ بے حد حساس اور زود رنج ضرور ہوگئے لیکن اس غم نے انھیں ایک درد مند،مہربان،مشفق اور سب انسانوں کے لئیے بے حد پر محبت اور کارآمد انسان بنا دیا۔

بقول خود ان کے۔۔

جہاں کے غم کو اپنا غم بنا کر

میں قطرہ تھا سمندر ہو گیا ہوں

اگرچے میرے پاپا کا تعلق ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تھا اور انکے والد کی زمین جائیداد بھی موجود تھی لیکن بہت کم عمری سے انھوں نے اپنے ذاتی اخراجات خود پورے کئیے۔ انکے چچا قاضی عطا اللہ نواب آف جے پور مکرم علی کے پرسنل سیکریٹری تھے۔پاپا انکے ساتھ رہے لیکن اس وضعداری سے کہ اپنے اخراجات کے لئیے کبھی چچا پر بوجھ نہیں بنے۔میرے پاپا ہمیشہ دینے والوں شامل رہے،کبھی لینے والے نہیں بنے۔اس بات پر انھیں ساری زندگی فخر رہا۔بڑے فخر سے مجھے بتایا کرتے تھے کہ،

“تمہارے باپ پر کسی کے احسان کا بوجھ نہیں ہے”.

اور یہی سبق ساری زندگی مجھے دیا کہ ،

“احسان اور ادھار سے ہمیشہ بچنا کہ یہ دونوں سر جھکا دیتے ہیں۔”

میرے پاپا کا ایک فخر یہ بھی تھا کہ ساری زندگی رزق حلال سے بیوی بچوں کی پرورش کی۔۔۔۔

اکثر کہتے کہ ،

“میرا دل مطمئن ہے کہ تمہاری پرورش میں حرام کا ایک روپیہ اور ایک لقمہ بھی شامل نہیں ہے۔”

شاید اسی لئیے میری نیت سیر ہے۔۔۔۔شاید اسی لئیے نہ کسی کے مال پر نظر رکھی اور نہ کسی کا احسان اور قرض اٹھایا۔۔۔۔۔دل اور دامن اس معاملے میں پاک و صاف ہیں۔۔۔اس کا اللہ گواہ ہے۔۔۔۔

پاپا کو جھوٹ بولنے اور جھوٹ بولنے والوں سے بے حد نفرت تھی۔۔۔اس حد تک نفرت کہ بڑے سے بڑے نقصان کو برداشت کرلیا لیکن غلط بیانی نہیں کی۔۔۔۔میری کوشش بھی یہی ہوتی ہے کہ میں ان کی طرح سچ پر ثابت قدم رہوں۔۔۔۔۔میں انکے لئیے کبھی خدا کے روبرو شرمندگی کا باعث نہ بنوں آمین ثم آمین۔۔۔۔۔

اور مجھے بھی جھوٹ بولنے والوں سے اتنی ہی نفرت ہے۔۔۔۔جتنی میرے پاپا کو تھی۔۔۔۔۔

میرے پاپا زندگی کے نشیب و فراز سے یوں نبرد آزما ہوئے جیسے ایک بہادر کپتان اپنے بحری جہاز سے بپھرے ہوئے سمندر کا سینہ چیرتا ہوا،طوفانوں کو شکست دیتا ہوا،باد مخالف سے لڑتا ہوا بالاخر اپنی منزل مقصود پا لیتا ہے۔ساحل پہ پہنچ جاتا ہے.

زندگی کی بھٹی نے انھیں خوب تپایا۔اپنوں اور پرایوں کی طوطا چشمیاں دیکھیں لیکن انکے اندر کا پر خلوص انسان کبھی خود غرض نہ بن سکا۔وہ زندگی میں دوستوں اور دشمنوں سبھی کے کام آئے کہ انکار کرنا انکی فطرت میں نہیں تھا۔۔۔۔لبیک لبیک ۔۔۔۔میں حاضر ہوں اور حاضر رہوں گا یہی اسلوب تا دم مرگ رہا۔۔۔۔۔وہ یاروں کے یار تھے۔۔۔۔کہا کرتے تھے کہ،

” میرے یار ہی میرے رشتے دار ہیں”۔

دوستوں کی دعوت کرکے،انھیں انکے بچوں اور بچوں کے بچوں کو پیسے اور تحائف دیکر بے حد خوش ہوتے تھے۔زندگی کے آخری چند دنوں میں بھی جب انکی اپنی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اپنے بیمار دوست فیاض انصاری مرحوم کی روز عیادت کرنے جاتے۔ان کے پاس بیٹھ کر باتیں کرکے انکا دل بہلاتے اور گھر آکر تھک کر سو جاتے۔میں ناراض ہوتی تو کہتے،

“بیمار انسان کا دل بچے جیسا ہوتا ہے منے۔۔۔میں جاتا ہوں تو وہ خوش ہو جاتے ہیں۔تو کیا دوست کو خوش کرنے نہ جاؤں بیٹے؟”

محترم عبدالسلام،عطا قریشی،فیاض انصاری اور عبدالکریم صاحب میرے پاپا کے جان وجگر یار تھے۔۔۔اب ان میں سے صرف عبدالکریم صاحب حیات ہیں۔۔۔۔انکے لہجے اور باتوں میں حیرت انگیز طور پر میرے پاپا کی مہک ہے۔۔۔۔دل چاہتا ہے انھیں کسی پڑیا میں باندھ کر سات تالوں میں چھپا کر رکھ لوں۔۔۔۔اللہ تا دیر سلامت رکھے انھیں۔۔۔۔ آمین ثم آمین یارب العالمین۔۔۔۔۔

پاپا کو میری ماں سے کس قدر محبت تھی اسکا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ امی کے انتقال کے تئیس برس بعد پاپا کا انتقال ہوا۔۔۔۔۔ان تئیس برسوں میں کوئی دن ایسا نہیں گزرا جسدن انھوں نے میری ماں کو دل سے یاد نہ کیا ہو

زندگی میں بھی وہ میری ماں کا سایہ بنے رہے اور موت کے بعد بھی انکی پرچھائیوں سے ،یادوں سے لپٹے رہے۔

زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں

میں تو مر کر بھی میری جان تجھے چاہوں گا

مہندی حسن کی یہ غزل پاپا کی زندگی کی تفسیر تھی اور مجھے اور انھیں بے حد پسند تھی۔

خصوصاً جب مہدی حسن مرحوم یہ شعر گاتے،

تو ملا ہے تو یہ احساس ہوا ہے مجھ کو

یہ میری عمر محبت کے لئیے تھوڑی ہے

اک ذرا سا غم دوراں کا بھی حق ہے جس پر

میں نے وہ سانس بھی تیرے لئیے رکھ چھوڑی ہے

تجھ پہ ہو جاؤں گا قربان تجھے چاہوں گا

میں تو مر کر بھی میری جان تجھے چاہوں گا

تو پاپا آنکھیں بند کر لیتے۔۔۔۔کیونکہ وہ آنکھیں جدائی کے کرب سے نمناک ہو جاتی تھیں۔۔۔۔بھیگ جاتی تھیں۔۔۔ اور وہ میرے سامنے اپنا ضبط کھونا نہیں چاہتے تھے۔

مجھے ہمیشہ اپنی ماں کی قسمت پر رشک آیا۔۔۔ایک عورت کی اس سے بڑی خوش نصیبی کیا ہوگی کہ وہ مر کر بھی کسی کی چاہت بنی رہے،کسی کی یادوں میں بسی رہے،کسی کے خون میں لہو کے ساتھ ساتھ بہتی رہے۔۔۔۔۔موت بھی اسکی محبت کو کم نہ کرسکے۔

میرے پاپا بہت اچھے شاعر تھے۔خدا نے انھیں بے حد خوبصورت مردانہ آواز بھی عطا کی تھی۔اپنی جوانی میں وہ مشاعروں میں ترنم سے کلام پڑھا کرتے تھے تو زنان خانے میں بیٹھی مشاعرہ سنتی خواتین کے دل پر انکی خوبصورت مردانہ آواز کی برق گرا کرتی تھی۔۔۔۔لیکن وہ تو میری شرمیلی اماں کی محبت کے اسیر تھے جو اتنی باحیا تھیں کہ کبھی نام لیکر انھیں مخاطب نہیں کرتی تھیں۔۔۔جب بھی ذکر کرتیں تو میرے حوالے سے رضوانہ کے پاپا کہہ کر۔۔۔کبھی خود فرمائش نہیں کی ان سے کہ،

” مجھے بھی تو ترنم سے اپنا کلام سنائیں نا۔”

کبھی بہت جی چاہتا تو مجھ سے کہتیں کہ،

“منے! پاپا سے کہو کچھ سنائیں”۔

اور مجھے تو انکا ریکارڈ لگانے کا موقع ہاتھ آجاتا۔۔۔۔

“امی۔۔۔توبہ کریں توبہ۔۔۔نکاح ٹوٹ جائے گا۔۔۔۔

 آپکے پاپا تھوڑی نا ہیں۔۔۔؟؟

اور میری ماں کا چہرہ شرم سے شفق رنگ ہوجاتا۔۔۔نظریں حیا سے جھک جاتیں۔۔۔۔تب مجھے آن پر اسقدر۔۔۔بیشمار پیار آتا کہ بتا نہیں سکتی۔۔۔۔۔۔۔

میری ماں کے بعد میرے پاپا نے گانا چھوڑ دیا ،گنگنانا چھوڑ دیا۔۔۔دل کھول کے ہنسنا چھوڑ دیا۔۔۔ درویشی اختیار کرلی،خاموش ہوگئے۔۔۔۔دنیا میں رہ کر بھی دنیا سے دور ہوگئے ۔۔۔۔۔

حتیٰ کہ ایکدن انھیں کو یاد کرتے ان سے جا ملے۔۔۔

میرا اور پاپا کا ساتھ بہت طویل رہا۔ماں کے بعد تیئس برس وہ میری ماں،باپ بھائی،بہںن،دوست،یار بیلی بنے رہے۔۔۔

ہمارے وجود بظاہر الگ تھے لیکن میری روح میرے باپ کی روح سے۔۔۔ دل انکے دل سے۔۔۔۔ اور احساس انکے احساس سے جڑے ہوئے تھے۔۔۔۔

مجھے اپنے باپ سے اس درجہ عشق تھا کہ میں راتوں کو اٹھ اٹھ کر انکے چہرے سے کمبل ہٹا کر دیکھتی تھی۔۔۔کہ۔۔

انھیں سانس آرہا ہے یا نہیں؟۔۔۔۔۔میں انکی محبت میں وہمی تو تھی ہی۔۔۔۔جھلی اور پاگل بھی تھی۔۔۔۔۔۔یہ پاگل پن اسوقت نکتۂ عروج پر تھا۔۔۔۔ جب میں نے انھیں واقعی آخری سانسیں لیتے ہوئے دیکھا۔۔۔۔جب انکا محبت سے دھڑکتا ہوا دل تھم گیا۔۔۔۔ اور میری آواز اور الیکڑک شاکس بھی اس بوڑھے،کمزور،غمزدہ دل کو دوبارہ دھڑکنے پر مجبور نہیں کرسکے۔۔۔۔

درد اتنا تھا کہ اس رات دل وحشی نے

ہر رگِ جاں سے الجھنا چاہا

ہر تن مو سے ٹپکنا چاہا

سارے دکھتے ہوئے ریشوں کی طنابیں کھل کر

سلسلہ وار پتہ دینے لگیں

رخصت فاصلۂ شوق کی تیاری کا

ایک پل آخری لمحہ تیری دلداری کا

درد اتنا تھا کہ اس سے بھی گزرنا چاہا

ہم نے چاہا بھی مگر دل نے نہ ٹھہرنا چاہا۔۔۔۔۔۔۔

ہم نے چاہا بھی مگر دل نے نہ ٹھہرنا چاہا


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.