سید علی گیلانی ، مرحوم والد صاحب اور رائے کا اختلاف/ شمس رحمان

You are currently viewing سید علی گیلانی ، مرحوم والد صاحب اور رائے کا اختلاف/ شمس رحمان

سید علی گیلانی ، مرحوم والد صاحب اور رائے کا اختلاف/ شمس رحمان

شمس رحمان

والد صاحب کی وفات کے بعدسے میں ذہنی طور پر ایک عجیب کیفیت سے دوچار ہوں۔ زندگی جیسے واپس بچپن میں چلی گئی ہے اور میں اس کو بار بار دیکھتا ہوں اور  سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ کبھی ڈر کر بھاگ جاتا ہوں ۔ توجہ ہٹانے کے لیے کیا کیا کچھ کرتا ہوں اور کبھی جیسے سکون سے یادوں کی آغوش میں سوجاتا ہوں اور کبھی لڑنے بھڑنے لگتا ہوں ۔ اس لیےجب سید علی گیلانی صاحب کی رحلت کی خبر پڑھی تو ان کے بارے میں بھی میں والد صاحب کے بغیر سوچ نہ سکا  اور نہ لکھ سکتا ہوں۔ مگر کچھ تبصرے و تاثرات پڑھ کر لکھے بغیر رہا بھی نہیں  جا رہا۔


صوفی محمد جان مرحوم و مغفور

جب مجھے معلوم بھی نہیں تھا کہ سیاسی نظریات کیا ہوتے ہیں تو  والد صاحب صوفی محمد جان مرحوم و مغفور کی طرف سے  فراہم کردہ لٹریچر کے  ذریعے میرا تعارف جماعت اسلامی کے نظریات سے ہونا شروع ہوگیا تھا. تب میں ہائی سکول  کے آخری سالوں میںتھا. اب سوچتا ہوں تونظر آتا ہے کہ اس عالمی اور آفاقی اسلامی نظریے کے اثرات کی ایک “سیڑ ” یا سٹریم (ندی)  چچا اسحاق کی عتیق بکڈپو  پر دوکاندار صوفی نثار کی بیزار نگاہوں کے احساس تلے  نسیم حجازی کے ناولوں کی شکل میں بھی بہنا شروع ہو چکی تھی۔

جن شخصیات کا اسلامی جماعت کے نظریات کے بلند قامت رہنماؤں کی شکل میں تعارف ہوا سید علی گیلانی کو ان میں ممتاز مقام حاصل تھا. دیگر میں مولانا مودودی، مولنا عبدالباری، پروفسیر غفور و خورشید اور میاں طفیل وغیرہ شامل تھے. کل سید علی گیلانی کی رحلت کے وقت والد صاحب کی وفات کو اٹھارہ دن ہو چکے ہیں. سکول کے اس عہد سے ان تمام بزرگوں اور مسلم کانفرنس کے سردار عبدالقیوم اور مسلم کانفرنس ہی کے مرکزی رہنما اور اپنے علاقے کالگڑھ کی ممتاز شخصیت راجہ محمد نجیب صاحب کا میرے دماغ میں مشترکہ طور پر ایک تقدس بھرا مقام تھا۔ اگرچہ مجھے جماعت اسلامی کے نظریات کی معمولی سی سمجھ تھی اور عملی طور پر نہ تو میں کوئی زیادہ اسلامی تھا اور نہ سیاسی لیکن 11 فروری 1984 تک میری سوچ و فکر اور ذہنیت ان ہی شخصیات کے احترام و تقدس اور کہنے کی حد تک پیروی سے بُنی ہوئی تھی۔

11

فروری 1984 کو  مقبول بٹ شہید کی پھانسی پر کراچی کے انٹر (اب پرل)  کانٹی نیٹل کے باہر  بھارت کے خلاف کراچی یونیورسٹی کے کشمیری طلبا کی طرف سے مظاہرے میں حادثاتی طور پر شامل ہونے پر پاکستانی پولیس کے ہاتھوں پٹائی اور ہتک کے بعد میرے دل و دماغ میں والد صاحب اور ان کے ان رہنماؤں کی تابعداری میں اپنائی ہوئی سوچوں پر جب اس نظریاتی دائرے اور ہالے سے باہر پروان چڑھنے والے سوالوں نے ہلہ بولا تو میرے اندر کا لاوا جیسے پھٹ پڑا۔ میں یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران جب بھی برطانیہ آتا تو اکثر والد صاحب سے ‘نظریاتی بحثوں ‘ میں الجھ جاتا اور میری سوچ و فکر کے نئے جہانوں ، سوشلزم و سیکولرازم اور نیشنلزم  کی مکمل طور پر کتابی سمجھ بوجھ کے ساتھ جماعت اسلامی کے نطریات پر سخت تنقید کرتا۔ والد صاحب اپنے دلائل دیتے لیکن یہ ضرورکہتے کہ علم جتنا بھی حاصل کرو لیکن اگر دین کے بغیر یا خلاف ہو تو فضول ہے۔

9

اگست 1988 کو میں جب مستقل برطانیہ آگیا تو بھی چند ماہ ڈربی میں والد صاحب سے بحثیں جاری رہیں۔ تاہم بعد ازاں میں اولڈہم منتقل ہو گیا اور والد صاحب واپس اپنے وطن کشمیر۔ کیونکہ تیس سالوں تک اپنے کئی کزنوں کے ساتھ مل کر برطانیہ کی مختلف ملوں اور سروسوں میں دن رات محنت کر کے وسیع تر خاندان کی غریبی نکالنے کی جدوجہد ( جس کی سمجھ مجھے چند سال بعد آئی)  کرتے کرتے دماغی طور پر  نڈھال ہو چکے تھے۔ تاہم چند سال کالگڑھ میں رہنے کے بعد وہ سنبھل گئے اور پھر ہر سال دو چار ماہ کے لیے انگلینڈ آتے۔ اب ہم دونوں میں ایک دوسرے کے ساتھ بحث نہ کرنے کا ایک خاموش سمجھوتہ ہو چکا تھا۔ برطانیہ میں والد صاحب کی عملی زندگی کے بارے میں ان کے جاننے والوں اور خاندان کے بزرگوں کے ذریعے جب میری آگاہی میں اضافہ ہوا تو میرے دل میں ان کے لیے پہلی بار ان کے خوف کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی جدوجہد کی وجہ سے ایک گہرا اور حقیقی احترام پیدا ہوا ۔ اور خوف کے منفی جذبے کی جگہ شاید  ایک اور منفی جذبے احساس جرم نے لے لی۔

بہرحال اب اگر ہماری بحث ہوتی بھی تو اس میں تلخی اور کشیدگی نہیں ہوتی تھی۔ اب والد صاحب اکثر جو سیاسی باتیں کرتے تھے وہ ان کی زندگی کے تجربات پر مبنی ہوتی تھیں کہ کس طرح لیڈر کارکنان اور عام عوام کے خلوص اور جذبات کو استعمال کرتے ہیں اور زندگی کے حقائق کیسے اکثر سیاسی نطریات کو بے معنی بنا دیتے ہیں۔ وہ اکثر جے کے ایل ایف اور جماعت اسلامی کا  تقابل  یوں کرتے کہ دونوں ہی کے نطریات اچھے ہیں۔ جماعت اسلامی کے ایک مثالی اسلامی  معاشرہ قائم کرنے کے لیے اور فرنٹ کے خود مختار کشمیر قائم کرنے کے لیے۔ لیکن عوام کے لیے دونوں قابل قبول نہیں ہیں۔ اس لیے نہ تو اسلامی معاشرہ قائم ہو گا اور نہ کشمیر خود مختار ہو گا۔

لیکن جماعت اسلامی اور  سید علی گیلانی کے تئیں ان کی وابستگی اور عقیدت مرتے دم تک قائم رہی۔ 14 اگست 2021 بروز ہفتہ دن کے ایک بجے کے قریب ستاسی سال کی عمر میں انتقال سے پہلے والد صاحب انتہائی مطمین تھے ۔ وہ کہا کرتے تھے کہ میں ہر رات کو اللہ کے پاس جانے کے لیے تیار ہو کر سوتا ہوں۔ نظریاتی طور پر  بہت دور نکل جانے کے باجود میں نے اور والد صاحب نے  باہمی احترام  کو قائم رکھنا سیکھ لیا تھا۔وہ اس کو عین اسلامی رواداری گردانتے تھے اور ہمیشہ پرامید رہتے تھے کہ میں اپنے چچا ڈاکٹر عبدالرحمان کی طرح آخر کار ” راہ راست”  پر آجاؤں گا۔میں اس کو کشمیریت اور سوشلزم کی عینک سے دیکھتا تھا کہ اختلاف رائے کے باوجود  باہمی احترام  کے اصولوں کے بغیر نہ تو آزادی کا کوئی مطلب ہے اور نہ  انقلاب کا چاہے وہ ترقی پسندی کے نام پر ہو یا اسلامی۔

فیس بک اور خاص طور سے وٹس ایپ گروپوں میں گیلانی صاحب سے سیاسی اختلافات کہ وجہ سے کچھ  نازیبا اور بددعایا کلمات پڑھ کر یہ تحریر لکھنے کا خیال آیا ۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ روش یک طرفہ ہے ۔  مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ گیلانی صاحب کے پیروکاروں اور متاثرین نے بھی 1987 کے بعد سے کئی مخالفین کی جانیں سیاسی اختلافات کی وجہ سے لیں اور آج تک وادی میں کتنے انمول پیر و جوان  نظریاتی  و سیاسی مخاصمت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ۔ اور جب تک مخلص کارکنان  نظریاتی تقدس کی پٹی باندھے لیڈروں کی سیاست و عمل کو سمجھ کر نہیں بلکہ ان کی عقیدت میں مرنے مارنے کی سیاست کے اسیر رہیں گے ایسا ہوتا رہے گا۔

میرے خیال میں بھارت اور پاکستان کے قبضے سے کشمیر کو آزاد کروانے کی خواہش و امنگ رکھنے والوں اور اس کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو گزشتہ تیس دہائیوں کے دوران ‘تاریک راہوں’ میں مارے جانے والے ‘ سخیوں’ سے کم از کم اتنا سبق تو سیکھ لینا چاہیے کہ ‘آزادی’ کی کسی بھی شکل کے لیے آپ لڑ رہے ہوں،اختلاف رائے کی آزادی کا احترام اگر نہیں کرتے تو آپ درحقیقت آزادی کی کسی بھی شکل کے لیے نہیں لڑ رہے ۔ آپ درحقیقت ایک ایسے جذبے کی تسکین کے لیے لڑ مر رہے ہیں جو اگر جیت جائے اور طاقت حاصل کر لے تو شاید ان قوتوں سے بھی زیادہ جابر اور ظالم ہو گا جن کے خلاف آپ عوام کوقربانیاں دینے پر اکساتے ہیں ۔ سیاسی آزادی مخلص جذبات، خلوص، ان گنت ، بے لوث قربانیوں اور آگ و خون کے دریا سے گذر کر، قابضوں کو وطن سے باہر دھکیل کر بھی نہیں ملتی اگر آپ کے سیاسی نظریات میں مختلف نقطہ ہائے نظر کو سمونے کی سکت ، ہمت، وقت اور گنجائش نہیں ہے۔ اللہ ہمیں اپنے معاشروں کے ٹھوس حقائق کو کشید کر اپنے سیاسی نظریات کو تشکیل دینے اور جلا بخشنے کی توفیق دے۔ اللہ میرے والد صاحب اور سید علی گیلانی صاحب کی مغفرت فرمائے اور ان کی حقیقی اور سیاسی اولاد کو  نظریاتی و سیاسی وسعت نظری سے نوازے۔ سیاسی حقائق کو سمجھنے اور ان کی روشنی میں  آزادی کے سفر پر آگے بڑھنے کی توفیق بخشے۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.