ہاشم قریشی

جب کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو اس کے بارے میں  اس واقعے کو دیکھنے والے ایک جیسی کہانی بیان نہیں کرتے ۔ بلکہ اپنی اپنی سوچ اور شعور کے مطابق لوگ کہانی بیان کرتے ہیں۔  پھر اگلے اس کو مزید اپنی سوچ کے مطابق بیان کرتے ہیں۔  

مجھے افسوس کے ساتھ یہ   بتانا پڑ رہا  ہے کہ آج تک کسی صحافی نے تحقیق کے ساتھ اس واقعے ( گنگا  جہاز کے اغوا)  کو نہ پرکھا ہے اور نہ ہی تمام ثبوتوں کو کھُل کر پبلک کے سامنے پیش کیا ؟

میرے چند سوالات  یہ ہیں؟  اگر یہ انڈیا کی سازش ہوتی تو ہم 30 جنوری سے لےکر 2 فروری تک 80 گھنٹوں تک کیوں اس پر بیٹھ جاتے ؟ کیونکہ اگر جہاز نہ جلایا جاتا تو سازش کامیاب ہی نہیں ہوتی ؟ (گنگا کو لاہور کے ایئرپورٹ پرجلا دیا گیا تھا)  کیا ہمیں 80 گھنٹوں تک جہاز سے نیچے نہیں اُتارا جاتا ؟

اگر خوف و ڈر میں پستول کے بارے میں پائلٹ اور سواریاں فیصلہ نہیں کرسکتے؟ کیونکہ وہ جہاز اغواء کرنے والوں سے پہلے یہ نہیں پوچھتے کہ ” بھائی پہلے بتاؤ پستول نقلی ہے یا اصلی ؟ تبھی میں اغواء ہوجاو گا ؟

پھر دنیا میں بینگن پر رومال ڈال کر گرنینڈ کی دھمکی دے کر جہاز اغواء ہوا ہے ؟ ایک لڑکی نے سگار کا بیلٹ بناکر کمر کے ساتھ باندھ کر اعلان کیا کہ میری کمر کے ساتھ بم باندھا ہوا ہے اور جہاز چِلی یا کسی اور ملک میں اغواء کیا؟

پھر ایک جاپانی یا کورین نے ہاتھ میں ایک بوتل پکڑے دھمکی دی کہ ” چلتی ٹرین میں دھمکی دی کہ میرے پاس بوتل میں نیٹرو گلیسرین بم ہے۔  اگر تم نے فلاں جگہ ٹرین نہ لی تو میں یہ پھینک کر ٹرین کو تباہ کرونگا “۔

 ٹرین اس کی مرضی کے مطابق جب لے جائی گئ تو اس سے جب بوتل مانگی گئ تو اس نے منہ سے بوتل لگا کر بوتل کا پانی پی لیا؟ وہ پانی تھا جناب؟

اس پر ایک کتاب بھی شایع ہوئی ہے ڈاکٹر باسط نے اس کتاب سے ساری مثالیں پیش کی تھی ؟

شام کو یا دن کو کسی کار والے یا جہاز کے پائلٹ کو تم لوہے کی نلی سے بھی ہینڈزاپ کہوگے تو وہ خوف کے مارے کبھی سوال نہیں کریگا۔  کہ اسلحہ اصلی ہے ہے یا نقلی ؟

آج بھی جن کو شک ہے وہ ایک بانسری لے لیں اور رات کو کسی کی کمر پر لگا کر جیب خالی کرنے کا حکم گرج دار آواز میں دیں؟  شر طیہ رقم مل جائے گی اور وہ کبھی نہیں کہےگا کہ کمر پر کیا رکھا ہے بس بندوق کی نالی کا احساس ہو ؟

بس آپ کے اندر کوئی کام کرنے کا دل و گردہ ہونا چاہئے ؟ اور اپنے نظریات سے وفاداری کی انتہا ہونی چاہئے؟

آج کے سوشل میڈیا کے دور میں کمپوٹر پر سوال کرنا اور “ایجنٹ اور غدار ” کہنا تو بہت آسان ہے مگر میدان میں وسائل کے بغیر جدوجہد کرنا اور بات ہے!

 لبریشن فرنٹ۔ حزب المجاہدین۔ لشکر اور جیش نے لاکھوں بندوقیں اور ڈرون وغیر ہ ہونے کے باوجود کونسا تیر مارا ؟

 90000ہزار سے زیادہ بندوقیں سیکورٹی فورسز کے حوالے کرلی؟

میں نے بار بار آج 50 سالوں سے شاہی قلعہ میں عدالتوں میں، کمیشنوں میں ،جیلوں میں سیمیناروں میں یہی کہا کہ یہ منصوبہ مقبول بٹ صاحب نے بنایا اور اُنھوں نے اسکو اسپیشل عدالت میں بھی بیان کیا؟

اگر یہ ہندوستان نے مظلوم بنگالیوں کو قتل و غارت سے بچانے کے لئے کیا ہوتا تو میں ضرور بڑے فخر کے ساتھ اس کا اقرار کرلیتا ؟   کیونکہ ایجنٹی کے الزامات تو پہلے سے ہی لگا چکے تھے ؟ سزا بھی دس سال گزار چکا تھا؟

 اب اقرار کرکے اور بنگالیوں اور ہندوستانیوں کا ہیرو بننے میں کونسی رکاوٹ تھی؟ اور بیس سال سے ضمانت پر کیوں ہوتا؟ یورپ کی شہریت ہونے کے باوجود یہاں کیوں رہتا ؟

کاش،  میرے پاس وکیلوں کو دینے کے لئے رقم ہوتی تو میں سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کرتا کہ ” آپکے کچھ لوگوں اور انٹلجنس کے ملازموں نے اپنی کتابوں میں مجھے ہندوستانی جہاز اغواء کرانے کا الزام لگایا ہے؟ ح کومت کو کہہ دو کہ میں نے اگر یہ کام کیا ہے تو میرے لڑکپن کی دس سالہ جیل اور ان پچاس سالوں کا مجھے معاوضہ دیا جائے؟

 اور قومی ہیرو دونوں ملک تسلیم کریں انڈیا بھی اور بنگلہ دیش بھی؟

کیا خیال ہے کوئی Financier فینانسر بننا چلتا ہے ؟ آدھی آدھی رقم پر ؟


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content