رائٹر :ساجدہ امیر
فاکہہ بالکونی میں کھڑی نیچے گلی سے ہر آتی جاتی شے کا بغور معائنہ کر رہی تھی۔ اس کے چہرے کے تاثرات بیان کر رہے تھے پھر سے اندر کوئی جنگ چل رہی ہے۔
” پھر درد شروع ہو گیا کیا۔” صنم نے پیچھے سے آواز دی، وہ ایسی ہی تھی جب بھی پریشان ہوتی اس کی پریشانی صاف ظاہر ہونے لگتی۔
” نہیں” فاکہہ نے نفی میں سر ہلایا۔
ماضی خوبصورت ہو تو حال میں جینا محال نہیں ہوتا نہ ہی مستقبل کا کوئی خوف ہوتا ہے۔ کچھ حقیقتیں ایسی ہوتی اگر ان سے سامنا نہ ہی ہوتا اچھا ہوتا ہے۔
” کیا ان لوگوں کو کوئی رنج، تکلیفیا پریشان لاحق نہیں ہوگی؛ کیا واقعی سب کچھ اتنا حسیں ہے۔؟”
فاکہہ نے گلی کے نکھڑے میں کھڑے ان جوان لڑکوں کو دیکھا جو ہاتھ میں گرم چائے کا کپ لیے ایک دوسرے سے گپیں ہانک رہے تھے۔
” کھانا لگ چکا ہے آ جاؤ سب۔” امی نے دور سے آواز دی ان کی آواز نے ایسا کہر برپا کہ جھٹ سے خیالات کا تسلسل ٹوٹا۔
” زندگی بہت خوب صورت ہے اور طویل بھی ہے۔بس ہمیں جینے کا طریقہ نہیں آتا جنہیں طریقہ نہیں آتا وہی کہتے ہیں زندگی تو مختصر ہے۔ جس دن ہم نے جینے کا طریقہ سیکھ لیا تب تمام تر پریشانیاں ختم ہو جائیں گی۔”
علی نے ہاتھ میں اٹھا رکھی کتاب کی چند سطر زور سے دھرائی۔ سیڑھیوں کے ساتھ چھوٹا کمرہ علی کا ہی تھا۔ جو فاکہہ اور صنم سے چھوٹا تھا لیکن تجربہ بہت رکھتا تھا۔
” ہاں! سچ تو کہا ہے مصنف نے ہمیں جینے کا طریقہ ہی نہیں آتا۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے یہی کہا زندگی مختصر ہے، وہی مختصر زندگی ہی مجھے چوبیس سالہ لڑکی بنا چکی ہے اب بھییہی کہوں کہ زندگی مختصر ہے تو میرے پاس شرم سے ڈوب مرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔۔” فاکہہ نے خود سے شکوہ کیا۔
کھانے سے فارغ ہو کر سب اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہوگئے۔ سامنے سب دھندلا سا محسوس ہونے لگا وہ اپنے حال کو چھوڑ کر ماضی میں پہنچ چکی تھی۔
” اٹھ بھی جاؤ صنم، دیر ہو رہی ہے۔” فاکہہ نے صنم کے چہرے پر سے کمبل کھینچا۔
” مجھے نہیں جانا میری آج ایک ہی کلاس ہوگی باقی لیکچر فری ہیں۔” صنم نے کمبل واپس تان لیا۔ فاکہہ منہ بناتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئی۔
” امی میں کالج جا رہی ہوں اللہ حافظ!” بغل میں پرس لیے فاکہہ نے اللہ کی امان لیتے ہوئے ماں کو آواز دی۔
دوپہر کب سہ پہر میں بدل گئی کوئی پتا نہیں۔ علی اسکول سے گھر آ چکا تھا۔ ان کے والد جو ایک وکیل تھے شام گئے تھے آفس میں رہتے نہ جانے کن کن لوگوں سے روز کا ٹاکرا ہوتا تھا؛ لیکن واپسی پر ہشاش بشاش نظر آتے۔ آج کل شہر کی ایک بگڑے رئیس زادے کے خلاف کیس لڑ رہے تھے جس نے اپنی ہی بیوی کو اپنی معشوقہ کے لئے قتل کر دیا تھا۔
” امی اب تک فاکہہ نہیں آئی دو بجے تو کالج کو چھٹی ہوتی ہے۔” ہاتھ میں سیب لیے صنم نے امی سے پوچھا جو لاون میں بیٹھے میتھی کی سبزی بنا رہیں تھیں۔
” میں بھی اس کا انتظار کر رہی ہوں پتا نہیں کہاں رہ گئی۔” امی نے سامنے دیوار پر لگی گھڑی پر نظر دوڑائی۔
دونوں فریقین خاموش ہوگئے، لیکن دل میں کچھ تھا جو چبھ رہا تھا۔ صنم نے سیب وہی ٹیبل کر رکھ دیا اور انگلیوں کے پوروں کو مسلنے لگ گئی۔
” تم بھی اس الجھن کا شکار ہو جو میں سوچ رہی ہوں۔” امی نے صنم کی حالت دیکھتے ہوئے ترچھی نگاہوں سے دیکھا۔
” ہاں! یقیناًیا شاید۔۔۔۔” صنم کی زبان لڑکھڑائی۔
” والدین کو دھوکا دینے والی اولاد کبھی خوش نہیں رہتی صنم! آج وہ اس صائم کی خاطر ہمیں دھوکا دے رہی کل وہ اسے دھوکا دے گا۔” امی غصے میں بولی اور سبزی کی ٹوکری لے کر کچن کی طرف رخ کیا۔
” فاکہہ! کچھ غلطیاں مرنے کے بعد بھی پیچھا نہیں چھوڑتیں اور تم نے ابھی جینا ہے میری بہن۔” صنم نے خود سے سرگوشی کی۔
ایک طرف اضطراب اور بے قراری، دوسری طرف رنگین پہلو اور واپسی کا کوئی اتا پتا نہیں۔
پورے گھر سوگ میں ڈوبا ہوا تھا۔ عشا ہونے کو تھی لیکن فاکہہ کا کچھ پتا نہ تھا۔ کالج انتظامیہ کے مطابق فاکہہ آج کالج آئی ہی نہیں اور وین والے کا کہنا تھا میں نے اسے کالج کے سامنے سڑک کے دوسرے کنارے چھوڑا تھا۔ ٹریفک زیادہ ہو جانے کی وجہ سے کالج گیٹ تک وین کا جانا ممکن نہ تھا۔
اسفندیار عثمانی کا شرم سے سر جھک گیا کہ آج برسوں پرانی کمائی گئی عزت اس کی دوشیزہ اپنی محبت کی بھینٹ چڑھا گئی۔ خاندان میں باتیں ہونے لگ گئیں۔ فاکہہ کو گئے ہوئے پانچ دن ہو چکے تھے۔ گھر میں خامشی نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ فاکہہ کے جانے کے بعد صنم پر پابندیاں عائد ہوگئیں۔ ازل سے یہی تو چلتا آ رہا ہے کرتا کوئی اور غلطی کا ازالہ کوئی اور بھگتا ہے۔ اسفندیار اس قدر بے بس ہوگئے تھے کہ اپنی 45 سالہ زندگی میں ایک بھی کیس نہیں ہوتے تھے۔ وہ جس کیس میں ہاتھ ڈالتے اس کا کاسا ہی پلٹ کر رکھ دیتے تھے؛ لیکن تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ عثمان صاحب پہلا کیس ہار گئے ان کی زندگی کی ساری سفید چادر پر یہ ایک کیس سیاہ دھبہ بن گیا۔ وہ اندر ہی اندر گھوٹ رہے تھے۔
” ابو کچھ کھا لیں کل سے آپ نے کچھ نہیں کھایا۔” بند کمرے میں کرسی پر بیٹھے عثمانی صاحب کی آنکھیں چھت پر گھومتے پنکھے کا تعاقب کرنے میں مصروف تھیں جب صنم ہاتھ میں کھانے کا ٹرے لے کر کمرے میں داخل ہوئی۔
” صنم! مجھے زہر لا دو تاکہ وہ کھا کر میں چین کی نیند سو سکوں۔” کھڑکی کے باہر سے چند آوازیں عثمانی صاحب کے کانوں میں گونجی۔
” میرا دل کرتا ہے میں ہوا کا گلا گھونٹ دوں یا پھر خدا کر میں بہرہ ہو جاؤں، مجھے اپنا آپ مزید گندا اور بدنما لگ رہا ہے۔ صنم! یہ روشنی کتنی بڑی ظالم شے ہر چیز کو مزید نمایا کرکے دکھاتی ہے۔”
عثمانی صاحب بولتے جا رہے تھے اور صنم کے آنسو حلق میں اٹکے ہوئے تھے۔ بیٹیوں کا ایک غلط قدم باپ کی سو سالہ کمائی عزت کو تاڑ تاڑ کر دیتا ہے۔
باپ کی آواز میں پنہان الم کا بحر محسوس کرکے صنم بولی، ” بابا! آپ کیسے بھول گئے ہیں عزت اور ذلت کا مالک رب العالمین ہے۔ وہ چاہے تو مخمل کے سوراخ میں ٹاٹ کا پوند لگا دے۔”
صنم کی اس بات پر عثمانی صاحب چونک اٹھے۔
سفید چادر پر سیاہ دھبہ لگ جائے تو سفید چادر کسی کو نظر نہیں آتی اور دکھائی دیتا ہے تو فقط کالا نشان، اولاد والدین کا غرور ہوتی ہے اور یہی زمین بوس بھی کر دیتے ہیں؛ اولاد جتنا بھی بے وفائی کر لے والدین پھر بھی ان کے لئے تڑپ اٹھتے ہیں۔ فاکہہ کی گمشدگی کو نو روز گزر چکے تھے۔ پولیس نے جگہ جگہ چھان بین کی لیکن کہیں سوراخ نہ ملا، تلاش کے دوران ہی معلوم ہوا کہ صائم آج سے چار ماہ قبل ہی ملک چھوڑ کے جا چکا ہے۔ یہ خبر عثمانی صاحب کے لئے مزید پریشانی کا باعث بنی، جہاں مسز صدیقی ہر وقت فاکہہ کو کوستی رہتی تھی اب وہاں دعائیں کے ورد شروع ہو گئے تھے۔ چند لمحوں میں سب کچھ بدل گیا۔
سورج کی روشنی ایک روشن دان سے کمرے میں راج کیے اندھیرے کو مات دے رہی تھیں۔ وہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا۔ اس کی حالت بتا رہی تھی کافی عرصے سے یہاں کوئی نہیں آیا۔ چاروں اطراف سے مکڑی کے جالے۔ دھول مٹی نے ہر جگہ اپنے پنجے گاڑھ رکھے تھے۔ دروازہ کھٹ سے کھولا، مسلسل اندھیرے میں رہنے کے بعد روشنی سے اس کی آنکھیں خائف ہوئیں۔ ایک نوجوان لڑکا، جو قدوقامت میں خوبصورت محسوس ہو رہا تھا۔ سفید کاٹن کا شلوار قمیص زیبِ تن کیے پیروں میں نیروزی جوتا، اور ماتھے پر بال بکھیرے ہوئے تھے۔ بڑی بڑی بادام کی سی آنکھیں اور ان آنکھوں میںچھپی وحشت صاف عیاں تھی۔ اپنی شکل وصورت سے ظلم کا پیکر لگ رہا تھا وہ انسان۔ کافی دیر آنکھیں ملنے کے بعد جب روشنی میں شکل واضح ہوئی تو اس کے تن بدن میں آگ کے شعلے پھوٹے، نفرت کا آتش فاکہہ کے روم روم میں سرائیت کر گیا۔ فاکہہ کو اس کا وجود پھانسی کا پھندا لگ رہا تھا۔ اس نے آنکھوں کی کھڑکیوں کے کواڑ اپنے لرزتے ہاتھوں سے بند کر دیے۔ لرزہ براندام ہوئی وہ لہرا گئی۔
” چلے جاؤ یہاں سے ۔۔۔ مجھ سے دور ہو جاؤ تم۔” خشک ہونٹوں سے ایک کپکپاتی آواز میں فریاد ہوئی۔ وہ کرب تھا، آواز تھییا سیل وآب۔۔۔۔ کچھ پتا نہیں، کپکپاہٹ کے مارے وہ دیوار کی چھاتی سے جا لگی اس کی آنکھیں ویسی ہی بند تھیں، لیکن ان سے گرم پانی کا چشمہ انڈئل رہا تھا۔ گرم آب رخسار پر سے ہوتا ہوا پھٹی قمیص کے ایک حصے میں جذبہ ہو گیا۔ بند کمرے میں ایک طرف رونے کی آواز اور دوسری طرف فقط قہقہے۔ روکنے کے باوجود غضنفر علی شاہ اس کی جانب بڑھ رہا تھا۔ بازوؤں پر سیاہ نشان تھے، گردن پر ایسے نشان گڑھے ہوئے جیسے بھوکے شیر نے پنجہ آزمائی کی اور مکمل تسکین حاصل کرنے کے بعد بے یار و مددگار چھوڑ دیا، وہی شلوار قمیص اب تک جسم پر موجود تھا جو پہن کر خدا کی امان لے کر گھر سے چلی تھی اور کالج کے سامنے ہی غضنفر علی شاہ کے بھوکے کتوں نے اسے اپنی لپٹ میں لے لیا۔ ایسا اس لئے کہ غضنفر علی شاہ کو اپنا کل واضح نظر آ رہا تھا کہ وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے بہت جلد دکھائی دے گا۔ اپنی بیوی کے قتل کے جرم میں اسے پھانسی ہو گی لیکن اس کی انا کو یہ گوارا نہ تھا ایک گناہ کو چھپانے کے لئے اس نے ایک بے گناہ معصوم نئے زمانے کی پری کو اپنی بے ہودہ ترامیم کا نشانہ بنایا اور اپنے منصوبے میں کامیاب ہو گیا۔
” میں تمہارے ساتھ کچھ نہیں کرتا، بس تمہیں واپس تمہارے گھر چھوڑنے کے لئے آیا ہوں۔” فاکہہ کی حالت دیکھ کر چند ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں گویا ہوا۔
اس کی آواز میں آج وحشت نہیں تھی، اس کا لب ولہجہ آج بدلا ہوا تھا۔
پچھلے دس روز سے وہ جس کربِ مسلسل اس کے لئے یہ جملے ناقابلِ یقین تھے۔ آنکھوں دیکھا حال بھلا کون لڑکی سی بھول سکتی ہے۔ آنکھوں کی کھڑکی کو تھوڑا سا وا کیا سب کچھ دھندلا دکھائی دے رہا تھا۔ وہ غضنفر جو پچھلے دس دن سے اس کی ذات کے ساتھ نفی کر رہا تھا اور اپنے پالتوں کتوں سے کروا رہا تھا وہ کیسے بھول سکتی تھی۔ اس کی عزت کی دھجیاں بکھیر دیں، سارے خواب تار تار کر دیے، ننھی سی کلی کو کچل دیا، خواب سارے بکھیر دیے۔ صورتحال ناقابلِ یقین سی ہو گئی۔ جس ظالم نے اس کال کوٹھری میں بند کرکے ظلم ڈھائے آج اس کی آواز میں معافی کی مہک جھلک رہی تھی۔ وہ خطاوار بِنا خطِ معافی کا خواست گار تھا۔ کانوں میں مثل صوتِ صور آواز گونجی۔
” چھوڑ دو مجھے۔۔۔ میں ایک شریف لڑکی ہوں۔۔۔ میری امی میرے ابو میرا انتظار کر رہے ہوں گے۔۔۔ مجھے جانے دو۔۔۔ میں ویسی لڑکی نہیں ہوں۔”
وہ پکار رہی تھی۔ گڑگڑا رہے تھی۔ فریاد کر رہی تھی لیکن تب اس پر رحم نہ آیا نہ ہی ضمیر نے جھنجھوڑا۔ ماضی کی ماضیات ذہن پر رقصاں تھیں۔
تب غضنفر کو مکافاتِ عمل نہ سوچا اسے تو اس وقت معلوم ہوا جب اس کی بہن کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آیا۔ غضنفر کو تب فاکہہ کی تکلیف محسوس ہوئی جب ڈاکٹر نے ریپ کیس کی رپورٹ بنا کر اس کے سامنے پیش کی۔
روح لرز گئی۔۔۔ جسم کانپ گیا۔۔ منظر مادرائےِ ادراک ہوا۔ آنکھوں سے ہاتھ اٹھا کر اس
نے کانوں پر رکھ دیے وہ اپنی بہن کی تکلیف دہ چیخیں نہیں سن سکتا تھا۔ بھائیوں کی غلاظت کا ازالہ تو ازل سے بہنیں ہی بھگتی آئییا پھر ننھی کلیاں جو بیٹی کا روپ دھار کر آتی ہیں۔
٭٭٭٭
رات کے گھنیرے پیڑوں پر الو کی آواز آ رہی تھی۔ سب لوگ خوابوں کی دنیا میں جا چکے تھے۔ تب دروازے پر دستک ہوئی۔ مسز عثمانی تو ہر وقت تاک لگائے بیٹھی رہتی تھی نہ جانے کب فاکہہ آ جائے۔ دروازہ کھولا تو سمجھو ساری دعائیں ایک ساتھ عرش پر ہمہ وقت پہنچی اور کن فرمایا گیا۔ لیکن دوسری طرف بیٹی کی حالت دیکھ کر ماں کا دل حلق کو آ گیا۔ ساکت بت بنی سامنے ایک چادر میں خود کو چھپائے کھڑی تھی۔ لب خاموش تھے نہ جانے کون چھوڑ گیا شاید وہی ہوگا جو اپنے گناہوں کی سزا اپنی بہن کی صورت میں بھگت رہا تھا۔
زور سے گلاس گرا اور ماضی کییادوں سے رابطہ منقطع ہوا۔ فاکہہ اپنے حال میں آ چکی تھی۔ وہ دس دن آج بھی قیامت ڈھا رہے تھے۔
اپنے والدین سے دور رہی، ملنے کے بعد باپ کے لب تو خشک ہو گئے بس وہ نہ چاہتے ہوئے بھی بیٹی کا سامنا نہیں کر پا رہا تھا۔
” تم میری پری ہو۔۔۔ آنکھوں کا نور ہو۔۔۔ تم میرا ساتھ دو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔۔ سب ختم ہو جائے گا۔۔”
یہ کہتے کہتے وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیے۔ لیکن لفظ ” پری ” پر وہ حیران ہوئی اور بولی: ” میں
اب پری نہیں رہی ۔۔۔ نہ ہی پاکیزہ رہی۔”
ایک سال بیت گیا تھا لیکن وقت کا یہ مسلہ تھا وہ ماضی بھولنے نہیں دیتا۔ اور غضنفر سلاخوں کے پیچھے اپنے تمام گناہوں کی سزا کاٹ رہا تھا، لیکن کچھ گناہوں کا کفارہ ساری زندگی ادا نہیں ہوتا۔ بس ایک لمحے کی بات ہوتی ہے انسان کا سارا سفر خاک میں مل جاتا اور وہ ماضی کے سمندر میں غوطہ زن ہونے لگتا ہے۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.