ندی کنارے کا دکھ تحریر: مظہر اقبال مظہر

You are currently viewing ندی کنارے کا دکھ  تحریر: مظہر اقبال مظہر

ندی کنارے کا دکھ تحریر: مظہر اقبال مظہر

تحریر : مظہر اقبال مظہر

آسمان پر سفید بادلوں کی ٹکڑیاں آنکھ مچولی کھیلتے ہوئے کبھی سورج کو چکمہ دے پائی ہیں؟ مگر شاید یہ ان کی سرشت میں شامل ہے کہ جب بھی انہوں نے اگلی منزلوں کی راہ لینی ہو تو کسی کو خاطر میں نہیں لاتیں ۔ جدھر چاہیں ادھر کا رخ کر لیتی ہیں۔ یا اٹکھیلیوں پر اتر آتی ہیں ۔شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب اتراتی پھرتی ہیں۔ اور جب کوئی ان کی سبک خرامیوں پر متوجہ نہ ہو تو انہیں غضبناک ہو کر ہیئت بدلتے دیر نہیں لگتی۔ یہ آناً فاناً کسی سرمئی بادل کو شکایت کر دیں گی اور پھر کوئی دیکھے کہ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے؟

میں بادلوں کی ان سفید ٹکڑیوں کے چنچل پن پر نجانے کب تک غور کرتا رہتا کہ ہنسوں کی وہ جوڑی میرے پہلو میں آکر یوُں خاموشی سے بیٹھی کہ مجھے یہ معلوم ہی نہیں ہو سکا وہ کس جانب سے آئی تھی۔ ان کا آنے کا انداز بتا رہا تھا کہ دونوں کے درمیان کچھ تو ہے جو باتیں کر رہا ہے اور انہیں بولنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہو رہی ۔ وہ دونوں بس چپ چاپ ہی اپنے اپنے دل کی دھڑکنوں کو باتیں کرتا محسوس کر رہے تھے۔دھڑکنیں بھی باتیں کرتی ہیں ، مگر وہ باتیں جو صرف دھڑکنے والا دل سمجھتا ہے۔

میں ندی کا وہ بے بس کنارہ ہوں جو زندگی کی ساری امیدیں ، توانائیاں اور مہارتیں لگا کر بھی اپنے ہی ہم ذات سامنے والے کنارے تک کبھی نہ پہنچ پایا۔ یہاں تک کہ میں نے اپنی زندگی کی ساری آسائشیں اور محبتیں بھی قربان کر کے دیکھ لیں ، میں کبھی اس دوسرے کنارے سے نہ مل پایا۔ تپتے موسموں کی شدت میں اپنے حصے کا سارا رزق ، مجھ تک پہنچنے والاپانی کا آخری قطرہ بھی آسمان کو دان کر بیٹھا اس امید پر کہ میرا وجود مٹ کر شاید دوسرے کنارے تک پہنچ پائے، مگر آسمان نے تو اس وقت میرے وجود کی ہی نفی کر دی جب میں سوختہ جاں تھا۔ میں مٹ کر بھی اس تک نہ پہنچ پایا جس میں مجھے اپنا آپ دکھتا ہے ۔ یہ کیسی محبت تھی جو میرے وجود کو کھا گئی مگر میری قربانی کو تسلیم کرنے سے یوں انکار کرتی رہی کہ میں مٹ کر بھی دوسرے کنارے سے بغلگیر کبھی نہ ہو سکا۔ محبت میں اس تک نہ پہنچ پانے کا دکھ کوئی مجھ سے زیادہ کیا جانے گا؟ میں اس دامِ الفت سے کبھی نکل ہی نہ پایا اور سچ تو یہ ہے کہ اس سے نکلنے کی آشا بھی نہیں۔ بقول شاعر

زندگی شاید اسی کا نام ہے

دوریاں مجبوریاں تنہائیاں

میں نے ہجر کے دکھ سہے ہیں، قربت میں دور ہوتی منزلوں کی خاموش چاپ محسوس کی ہے۔ تجربے کے جس پھانسی گھاٹ پہ میں ہر روز اترا ہوں وہاں قدموں کی آہٹ ہی مجھے بتا دیتی ہے کہ چل کر آنے والا کس ارادے سے آیا ہے۔ جن کے قدموں کی آہٹ گہری ہو وہ اپنے دل کی دھڑکنوں سے بے خبر ہی ہوتے ہیں۔ آج پہلی بار کوئی قدموں کی آہٹ کے بغیر آیا تھا اور وہ بھی اکیلا نہیں۔ ساتھ دوسرا دھڑکتا دل بھی لایا تھا۔ میں ان کے دل کی دھڑکنوں کو شمار کر ہی رہا تھا کہ آواز آئی “تم جانتی ہو اس لمحے کا انتظار ہم نے کتنا کیا ہے؟ “

یہ الفاظ میرے کانوں میں امرت رت جیسے تھے۔

کیا کوئی محبت میں اتنا قریب بھی ہو سکتا ہے؟ یہ خیال ہی میرے لئے حیات آفریں تھا۔ میرا دل چاہا جواب میں صرف ایک لفظ آئے “خاموش”۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ ان کے دل کی دھڑکنوں کی باتوں کے درمیان کوئی اور آواز حائل ہو۔

وہ لمحہ کتنا جاں فزا تھا جب دوسری جانب سے وہی ایک لفظ نکلا “خاموش”۔

اور پھر طویل خاموشی کا ایک لمبا وقفہ۔ مجھے خیال آیا کہ محبت پہلو بدلتی ہے تو یہ دونوں اب تک ایک ہی پہلو پہ کیوں ٹِک گئے ہیں۔ دوسرے ہی لمحے دونوں اسی خاموشی سے پانی میں اترے جس خاموشی سے مجھ تک پہنچے تھے۔ مجھے یوں لگا میری زندگی بھر کی عبادتوں کے قبول ہونے کا وقت آگیا ہے۔ کاش یہ اس سے آگے بڑھنے سے پہلے کچھ نہ بولیں۔ دونوں پانی میں اترے تو یخ بستہ ہوا کا ایک جھونکا میرے قریب سے سرگوشی کرتا ہوا گزرا۔ “انہیں تنہا چھوڑ دو”۔ مجھے شرمندگی سی ہونے لگی۔ میں اپنے تئیں لاتعلق سا ہو گیا۔ سرد ہوا کا جھونکا ہنسوں کے قریب سے گزرا تو وہ سمٹ کر ایک دوسرے کے اور قریب ہوگئے۔ مجھے یوں لگا میں ندی کے دوسرے کنارے سے بغلگیر ہوں۔

دعاؤں کی اگر کوئی خاموش زباں ہوتی تو میں اس زباں سے یہی مانگتا۔ “کاش، کوئی دوسرا یہاں نہ آئے۔ کم از کم جب تک ان دو پیار کرنے والوں کی مِلن کی پیاس بجھ نہیں جاتی۔ مگر میری دعاؤں میں اتنا اثر ہوتا تو کب تک میری دھڑکن ندی کے دوسرے کنارے تک پہنچ چکی ہوتی۔ نجانے دوسرے کنارے پر ایک بدذات پرندہ کہاں سے آن ٹپکا۔ اس پر نگاہ پڑتے ہی ہنسوں کی جوڑی پانی سے پیچھے ہٹی اور اسی خاموشی سے پیچھے ہٹتی چلی گئی۔ نہ کو ئی آواز نہ چاپ۔ ہاں ان کے دل دھڑک رہے تھے، تبھی تو ان کے قدم ایک تال پر تھے۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.