افسانہ : حال محمد شاہد محمود
محمد شاہد محمود
کڑاکے دار موسمِ سرما کا آغاز ہو چکا ہے۔ سرد موسم میں نرم گرم کمبلوں یا رضائیوں سے نکل کر ناشتے کی تیاری ، دل گردے کا کام ہے۔ سونے پہ سہاگہ پاکستان میں صبح سویرے سوئی ناردرن گیس کی بندش ہے۔
پاکستان میں صبح کے سات بجے ہیں۔ تمام سننے والوں کو ارسلان کامران کا سلام پہنچے ، صبح بخیر کہتے ہوئے دعا گو ہوں آپ کا ہر دن خوش گوار دن ثابت ہو ، بعض گھرانوں میں ناشتہ تیاری کے مراحل میں ہوگا اور کچھ گھروں میں ناشتہ تناول کیا جا چکا ہوگا۔ جبکہ چند گھروں کے مردِ مجاہد ، ناشتے کی تڑپ میں ، گیس سلینڈر کی نوزل اور گیس سلینڈر کی پائپ سے نبرد آزمائی کرتے نظر آ رہے ہوں گے۔ بعض گھروں میں اہل خانہ ، مٹی کے تیل کا چولہا دیا سلائی دکھا کر جلا رہے ہوں گے یا پانی کے چھینٹوں سے بجھا رہے ہوں گے۔
جن علاقوں میں گیس پائپ لائن منصوبے ہر اگلے الیکشن میں بطور بڑا ہتھیار استعمال کرنے کی غرض سے التواء میں ڈال دئے جاتے ہیں۔ ایسے گاؤں اور علاقوں کے باسیوں نے حسبِ معمول لکڑی ، لکڑی کا برادہ ، اوپلے یا کوئلے کا ایندھن استعمال کر کے چین کی بانسری بجا دی ہو گی۔ ایف ایم ریڈیو ہم آہنگ ، پروگرام غزل رنگ میں خوش آمدید۔ غزل رنگ محفل صبح نو بجے تک سجی رہے گی ، اس دوران آپ سے براہ راست گفتگو شاملِ محفل رہے گی۔ ہمارا نمبر ہے صفر چار دو ایک ایک ایک ایک صفر صفر صفر…
تو آئیے ٹھٹھرتے جاڑے کا لطف اٹھاتے ہیں۔ کافی ، چائے ، قہوہ یا دودھ پتی پیتے ہوئے اختر شیرانی کی خوبصورت غزل ، نیرہ نور کی خوبصورت آواز میں سنتے ہیں۔
“اے عشق ہمیں برباد نہ کر…”
سارنگی کی مدھم دھن اور طبلے کی دھیمی تان ، پس منظر میں موسیقی ، مثلِ ادب برائے ادب اور فن برائے فن ، ارسلان کے لب و لہجہ اور دلکش ادائی میں رومانیت کی آمیزش کر رہی تھی۔ انٹرنیٹ پر ریڈیو پروگرام سنتے ہوئے علیشہ نے ہاتھ بڑھا کر تکئے کے نیچے سے موبائل فون نکالا سکرین پر انگوٹھا رکھ کر کھولا اور ڈائل پیڈ پر صفر صفر نو دو چار لکھ کر رک گئی۔ لمحہ بھر سوچا پھر موبائل فون تپائی پر رکھ دیا۔
“حضور ، جناب ، عالی مقام ، عالی جاہ کیا کر رہے ہو یار ؟ سالہا سال سے اچھا خاصا پروگرام نشر کرتے آ رہے ہو۔ مگر اب چینل بند کرانے پر تلے نظر آتے ہو۔ تمہیں ہو کیا گیا ہے ؟ بھائی تو کرنٹ افیئرز پر پروگرام نشر نہیں کر رہا۔ پچھلے دنوں بھی تم نے سرکاری اداروں کے نام لے کر جان پر بنا دی تھی اور آج الیکشن ، سوئی نادرن گیس ، گیس پائپ لائن منصوبے ، بڑا ہتھیار… یہ سب کیا ہے ؟ کل سے ، پہلے مجھے بتا اور پھر بول۔”
پروگرام پروڈیوسر ابتدائی کلمات سن کر سٹوڈیو میں داخل ہوا ، دائیں طرف بیٹھے پروگرام اسسٹنٹ کی جانب سرسری نظر دوڑائی اور ارسلان کے سامنے سینے پر ہاتھ باندھے کھڑا ، روہانسا مخاطب ہوا۔
ارسلان نے سر اٹھا کر ایک نظر اسے دیکھا پھر نظر جھکا کر سامنے اسکرین دیکھی ، غزل چھپن سیکنڈز چل چکی تھی ، تین منٹ اکتیس سیکنڈز ابھی باقی تھے۔ سوچا کافی بنائی جا سکتی ہے۔
“تمہیں پتا ہے ؟ اختر شیرانی اردو کا پہلا رومانی شاعر تھا ، جس نے اپنی شاعری میں عورت سے خطاب کیا ہے۔” ارسلان نے اٹھ کھڑے ہوتے سنی ان سنی کر دی اور کافی میکر کی طرف چل دیا۔ اس کے جاتے ہی پروگرام پروڈیوسر نے ارسلان کا نوٹ پیڈ اٹھا لیا۔ ایک آدھ منٹ صفحہ گردانی کی ، ایک ورق نوٹ پیڈ سے اکھاڑ کر پھاڑ دیا ، دونوں ہاتھوں کی مٹھی بنا کر کاغذی گیند سی بنائی ، دری کی ٹوکری میں اچھال دی ، لمحہ بھر رک کر میز کا طائرانہ جائزہ لیا اور سر جھکا کر دائیں بائیں جھٹکتا ہوا سٹوڈیو سے نکل گیا۔
بحث و تمحیص سے بچتے بچاتے ، پروگرام شیڈول کر کے ارسلان ایف ایم ریڈیو ہم آہنگ کی عمارت سے نکل آیا۔ صبح کے ساڑھے نو بجے تھے ، چھائی دھند کی دبیز تہ چھٹتی نظر نہیں آ رہی تھی۔ وہ چمڑے کی جیکٹ پہنے جیبوں میں ہاتھ دئے تیز قدم اٹھاتا اپنے فلیٹ کی سمت بڑھے جا رہا تھا۔ گرد و نواح کے مناظر پر دھند نے قبضہ جما رکھا تھا۔ ایف ایم ریڈیو کی مستقل جاب اس کے اخراجات پورے نہ کر پاتی تھی۔ اوڑھنا بچھونا بہتر بنانے کی خاطر کتابوں کی پروف ریڈنگ مددگار ثابت ہوتی تھی۔ پروف ریڈنگ کے دوران کسی افسانے میں نہاں کئی افسانے ظاہر ہونے پر افسانہ لکھنے بیٹھ جاتا تھا۔ اس کے پروگرام غزل رنگ کے اوقات ، موسم اور وقت کے حساب سے بدلتے رہتے تھے۔ اپنی سہولت کے لئے اس نے ایف ایم ریڈیو ہم آہنگ کے قریب ہی ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ ناشتہ وہ اسٹوڈیو میں کر چکا تھا اور آج کتابت کا کام بھی نہ تھا۔ وہ خود کو ہر پل مصروف رکھنا ضروری سمجھتا تھا۔ جب اسے فراغت میسر آتی چہار سو پھن پھیلائے بیتے دنوں کی یادیں ڈسنے لگتیں۔ مصروفیت کے دوران بیتے دنوں کی یادیں خاموش گرد و نواح میں موجود رہتیں۔ فرصت کا فائدہ اٹھا کر خامشی چنگھاڑنے لگتی اور بلائیں جشن منانے لگتیں۔ تنہائی کبھی اس کی محبوبہ ہوا کرتی تھی۔ تنہائی کی رفاقت میں اور موسیقی کی سنگت میں ، کتابیں پڑھنا اور افسانے لکھنا اس کے پسندیدہ مشاغل تھے۔ جب تنہائی اور ارسلان کے درمیاں کوئی حائل ہوا ، تنہائی ٹوٹ گئی۔ یوں تنہائی سے دیرینہ رفاقت ، رقابت میں بدل گئی۔
گھر جا کر کیا کروں گا ؟ اس نے سوچا اور چلتے چلتے قریبی پارک کی جانب مڑ گیا۔ پارک میں داخل ہو کر بنچ پر بیٹھنا چاہا۔ نمی کے باعث بنچ بھیگا ہوا تھا۔ پارک کے بیچوں بیچ بنی کنٹین تک پہنچ کر آواز لگائی”چاچا کپڑا چاہیے ، بیٹھنے کے لئے بنچ خشک کرنا ہے۔” کنٹین والا اسے جانتا تھا۔
“اندر آ کر بیٹھ جاؤ بیٹا۔ سردی اور دھند میں کہاں بیٹھو گے؟” جواب ملا۔
“نہیں چاچا مجھے دھند میں بیٹھنا ہے۔ اچھا لگتا ہے۔” ارسلان نے جواب دیا اور کپڑا دوبارہ طلب کیا۔
“یہ لو ، ان سے بنچ خشک نہ کرنا۔ بچھونا کر کے بیٹھ جانا اور دوسرا پشتی پر پھیلا لینا۔ چائے پیو گے ؟” کنٹین والے نے ترپال کے دو ٹکڑے تھما کر پوچھا۔
“واپسی پر پیوں گا۔” ارسلان نے جواب دیا اور ترپال کے ٹکڑے تھامے بنچ پر بیٹھنے چلا آیا۔ بنچ پر بیٹھ کر جیکٹ کی زپ آدھی کھولی اور اندرونی جیب سے موبائل فون نکال کر زپ دوبارہ چڑھا دی۔ پاسورڈ لکھ کر موبائل فون کھولا پھر گوگل سرچ میں جا کر کچھ لکھا۔ دو سے تین سیکنڈز کے بیچ موبائل فون سکرین پر کچھ لکھا نظر آنے لگا۔ جسے پڑھ کر ارسلان کی بے چینی بڑھنے لگی۔
ایک مطالعہ کے مطابق جس میں ایک سو پچپن خواتین و حضرات شامل تھے۔ ان سب کا مشاہدہ کیا گیا۔ یہ سب پچھلے چھ مہینوں میں بریک اپ سے گزرے تھے۔ پتہ چلا اکہتر فیصد افراد ، گیارہ ہفتوں میں یا تقریباً تین ماہ تک بہتر محسوس کرتے ہیں۔
پانچ ماہ سے زائد بیت گئے ہیں۔ یعنی میں انتیس فیصد میں شمار ہوتا ہوں ! انتیس فیصد پر کیا گزرتی ہے ؟ یہ کسی بھی سرچ انجن میں تلاش کرنے پر اسے نہ مل سکا۔ یادوں نے گھیرا تنگ کر دیا۔ ہم اچھے دوست ہیں۔ تم مجھے خوش رکھ سکتے ہو۔ تمہارا پسندیدہ رنگ لائی ہوں ، پہن کر دکھاؤں گی۔ تم پہلے اور آخری شخص ہو جس پر میں نے اعتماد کیا ہے۔ پہلی بار اتنا ہنسی ہوں۔ تمہیں مرزا غالب کا وہ مصرعہ یاد ہے ؟ میرے ہوتے کوئی دوسری عورت تم سے بے تکلف کیوں ہو ؟ میرے اعتماد کو ٹھیس مت پہنچانا۔ ادبی دنیا میں ہمارا جوڑا یاد رکھا جائے گا۔ ہماری پرائیوٹ سپیس میں کوئی تیسرا کبھی نہ آئے گا ، بچے بھی نہیں۔ میں شاعرہ ہوں ، خواب لکھتی ہوں اور تم ان خوابوں کی تعبیر ہو۔ ہماری محبت لازوال ہے۔ کبھی آواز دے کر دیکھنا۔ کیا ہم دوبارہ اچھے دوست نہیں بن سکتے ؟ میں چاہتی ہوں تم شادی کر لو ، گھر بسا لو ، میں تمہارے لائق نہیں ہوں۔ کبھی آواز دے کر دیکھنا… کبھی آواز دے کر دیکھنا… کھلی آنکھوں سے یادیں دیکھتے ارسلان نے آنکھیں موند لیں ، دندھلی فضا گہرا سانس لے کر پھیپھڑوں میں بھری پھر پوری قوت سے چلا کر ایک نام پکارا۔ آنکھیں کھول کر متلاشی نگاہوں سے دائیں بائیں آگے پیچھے دیکھا ، دھند کا راج تھا۔ ٹھنڈ بڑھتی جا رہی تھی۔ ترپال کے گیلے ٹکڑے کونوں سے پکڑ کر ، چائے پینے کی غرض سے کنٹین کی سمت چل دیا۔
کسل مندی اور عدم یکسوئی ، علیشہ کی لاپرواہی اور غیر ذمہ داری کا باعث بنیں۔ جو بعد میں نوکری سے نکالے جانے کا عذر بن گئیں۔ وہ گزشتہ دو ہفتوں سے مزاج میں گرانی اور جسم میں نقاہت محسوس کر رہی تھی۔ گھر میں تنہائی کا دور دورہ تھا۔ ابلاپا اکلاپا کم کرنے کے لئے افسانے اور شاعری پڑھنا ، ایف ایم ریڈیو سننا اس کے معمولاتِ زندگی بن چکے تھے۔ آج وہ بنی سنوری نظر آ رہی تھی۔ لیپ ٹاپ پر ایف ایم ریڈیو ہم آہنگ ٹون کر رکھا تھا۔ وقت دیکھا ، پروگرام غزل رنگ شروع ہونے میں آدھا گھنٹہ باقی تھا۔ میں نے ایسا پہلے کیوں نہ سوچا ؟ خیالات میں کھوئی سی زور لگا کر اٹھی ، کمرے کی دیوار میں نصب قد آور آئینے میں اپنا جائزہ لیا۔ “یہ نامناسب ہے۔” وہ بڑبڑائی۔ الماری کھول کر ہینگرز دائیں سے بائیں سرکاتی چلی گئی۔ ہلکا رنگ ، ہاں چلے گا ، لیکن نہیں یہ بھی ویسٹرن طرز کا ہے اور کافی… نہیں یہ بھی نہیں۔ ہاں یہ ، یہ صحیح ہے پر یہ… نہیں یہ بھی نہیں۔ مل گیا یہ بالکل ٹھیک ہے۔ اس کے ساتھ چوڑی دار پاجامہ کہاں گیا ؟ تین چار درازیں کھنگالنے پر اور الماری کے آدھے کپڑے کمرے میں بچھے قالین پر ڈھیر کرنے کے بعد بالآخر مطلوبہ چوڑی دار پاجامہ مل گیا۔ پاجامہ تو ایسے ہی ٹھیک تھا ، مگر قمیض کے شکن پریشان کن تھے۔ قمیض استری کرنے کمرے سے نکل گئی۔ تھوڑی دیر بعد سفید چوڑی دار پاجامہ اور مرون پشواس نما قمیض پہن کر کمرے میں داخل ہوئی۔ بال دوبارہ کنگھی کئے پھر ہئر برش سے بالوں کو نئی ترتیب دی۔ ملتانی کھسہ وہ پہلے ہی پہن چکی تھی۔ شینل فائیو کے دو پف گردن پر چھڑک کر قد آدم آئینے کے سامنے دوبارہ جا کھڑی ہوئی۔ دوپٹہ دائیں کندھے پر رکھ کر ناپ تول کر اندازے سے پشت کی طرف کھسکا دیا ، سامنے سے اضافی دوپٹہ آڑا رکھ کر بائیں بازو پر ٹکا لیا۔ آئینہ دیکھ کر اپنی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا “کیا میں فطرس نہیں ہوں ؟”
“علی الصبح مزے کی نیند ، یہ وقت خواب خرگوش میں بھرپور لوٹ مار کا ہوتا ہے۔ ایسے میں چڑیا کی چہچاہٹ سن کر لگتا ہے کہ چڑیا کو کتے کی زبان لگ گئی ہے۔ سہانے سپنے کا ٹوٹنا مزاج پر گراں گزرتا ہے…” ارسلان نے پیرا گراف جان بوجھ کر ادھورا چھوڑ دیا ، نوٹ پیڈ سے نظر اٹھائی ، معصوم سی شکل بنا کر پروگرام پروڈیوسر کا چہرہ تکنے لگا۔ جو پہلے ہی اسے کھا جانے والی نظروں سے گھور رہا تھا۔
“اب یہ کیا بکواس ہے ؟”
پروگرام پروڈیوسر نے غصہ ضبط کر کے جواب طلب نظروں سے سوال کیا۔
“یار جب آن ائیر ہونے سے پہلے ، رٹا لگا کر سبق سنانا پڑے گا تب ایسا ہی ہوگا۔ منتخب نقاط پر فی البدیہ پروگرام کرنا جانتا ہوں۔ یہ سب مجھ سے نہ ہو پائے گا۔” ارسلان نے حتمی جواب دے دیا۔
“مطلب تو نہیں سدھرے گا ؟”
پروگرام پروڈیوسر نے پھر جواب طلب نظروں سے سوال کیا۔
“ایسا میں نے کب کہا ہے ؟ دو بار جو ہوا اب نہ ہو ، مکمل احتیاط برتوں گا۔”
ارسلان کو اب نوکری خطرے میں نظر آ رہی تھی۔
“چلو چھوڑو ، دفع کرو جو ہوا سو ہوا۔ سات منٹ رہتے ہیں ، تیاری پکڑ لو۔”
پروگرام پروڈیوسر نے سکون کا سانس لیتے ہوئے خوش دلی کا مظاہرہ کیا اور دانتوں کی نمائش کی۔
ارسلان سٹوڈیو میں داخل ہوا ، بائیں طرف پروگرام اسسٹنٹ مستعد بیٹھا نظر آیا۔ ہاتھ ہلا کر اسے صبح بخیر السلام علیکم کہا۔ تھوڑی ہی دیر بعد پروگرام اسسٹنٹ نے سرخ بتی جلا دی اور اشارۃً دونوں انگوٹھے دکھائے۔
“گزرے دور میں راجاؤں کو بھیروں ٹاٹھ الاپ کر بیداد کیا جاتا تھا۔ علی الصبح پرندوں کی چہچاہٹ سے بیدار ہونا کچھ ایسا ہی خوشگوار احساس ہے۔ میں ارسلان کامران تمام سننے والوں کی خدمت میں سلام پیش کرتا ہوں۔ صبح بخیر ، دعا گو ہوں آپ کی ہر صبح ، صبحِ نوید ثابت ہو۔ پاکستان میں صبح کے سات بجے ہیں…”
ارسلان غزل چلا کر کافی بنانے کی غرض سے اٹھ کھڑا ہوا ، ٹیلی فون کی گھنٹی بجی تو ٹھٹھک کر رک گیا۔ پروگرام اسسٹنٹ کی جانب دیکھا ، وہ ہنستا ہوا معافی کے انداز میں ہاتھ جوڑ رہا تھا۔ ٹیلی فون لائن پروگرام شروع ہونے کے پانچ منٹ بعد چلانا طے تھا۔ ارسلان نے ہنسی کا جواب مسکراہٹ سے دیا اور بیٹھ گیا۔ ہیڈ فون چڑھا کر مائک سیدھا کیا۔
“السلام علیکم صبح بخیر ، غزل رنگ میں خوش آمدید۔” ارسلان پہلی کال سنتے گویا ہوا۔
“و علیکم السلام ، کیسے ہیں آپ ؟” کھنکتی نسوانی آواز میں جواب ملا۔
“میں ہمیشہ کی طرح ہشاش بشاش ، خوش باش ، آپ کیسی ہیں ؟” ارسلان نے کہتے ہوئے سامنے اسکرین کی جانب دیکھا پہلی غزل ختم ہونے میں تقریباً چار منٹ باقی تھے۔
“میں بس ٹھیک ہوں۔” سنجیدہ لہجے میں مختصر جواب ملا لیکن سانس قدرِ پھولی ہوئی تھی۔
“آپ کو کس نام سے مخاطب کیا جائے ؟ اور آپ کہاں سے مخاطب ہیں ؟” ارسلان نے وقت بچانے کی خاطر دو سوالات ایک ساتھ داغ دئے۔
“مجھے علیشہ کہتے ہیں۔ یوں تو میں ماضی ، حال اور مستقبل میں بیک وقت موجود ہوں۔ سردست آپ کے مستقبل میں ہوں۔” علیشہ سلیقے سے ٹانگ پر ٹانگ جمائے کرسی پر اہتمام سے بیٹھی ، سامنے میز پر رکھا لیپ ٹاپ دیکھتے ہوئے اس سے ہم کلام تھی۔ ایئر پوڈز کی بدولت اس کے دونوں ہاتھ آزاد تھے۔ وہ بات کرتے کرتے کبھی قمیض کا پلو سیدھا کرنے لگتی تو کبھی چہرے پہ آئی بالوں کی لٹ پکڑ کر کان کے پیچھے نرمی سے دبا دیتی۔
“بہت خوب تو آپ ٹائم ٹریولر ہیں۔ کس صدی سے مخاطب ہیں ؟” ارسلان کے لئے یہ جواب غیر متوقع نہ تھا۔ پہلے بھی اس طرح کی کالز آ جایا کرتی تھیں۔
“میں ٹائم ٹریولر نہیں ہوں۔” علیشہ نے مسکراتے ہوئے گال کھجائی۔
ارسلان نے ایک نظر پروگرام اسسٹنٹ کی طرف دیکھا ، آنکھیں چار ہونے پر اس نے شانے اچکا کر لاعلمی کا اظہار کیا۔
ارسلان نے دیکھا غزل ختم ہونے میں تھوڑی ہی دیر بچی ہے۔ اس نے سارنگی اور طبلہ ، پسندیدہ موسیقی کی آواز بڑھا کر غزل کی سطح پر کی اور اسے دہرائی پر لگا کر غزل کے بعد قطار میں لگا دیا۔
“علیشہ اچھا تو آپ مستقبل سے مخاطب ہیں۔ حال میں جینا چاہئے۔ مستقل کس نے دیکھا ہے ؟” ارسلان نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
“چلیں پھر میں ماضی میں آ جاتی ہوں جو آپ کا حال ہے۔” علیشہ نے پہیلی نما جواب دیا۔
“جی ضرور بصد شوق شوق مند۔ کیا سننا پسند کریں گی ؟” ارسلان نے بات کو طول دینا نامناسب سمجھا۔
“فیض صاحب کا کلام سنا دیں۔ ٹینا ثانی کی آواز میں ہے۔ گر مجھے اس کا یقیں ہو مرے ہمدم مرے دوست۔” علیشہ نے لیپ ٹاپ کے ساتھ ٹکٹکی کا کھیل جاری رکھتے ہوئے کُہنیاں میز پر ٹکا دیں ، ہاتھوں کا پیالہ بنایا ، پیالے میں ٹھوڑی رکھ کر رخسار انگلیوں میں قید کر لئے۔
“علیشہ کال کرنے کے لئے شکریہ۔ فنی خرابی کے باعث گفتگو براہ راست نشر نہ ہو پائی۔ آپ کی پسند پروگرام میں شامل کی جائی گی ، ہمارے ساتھ رہئے گا۔ اپنا خیال رکھئے گا۔” ارسلان نے جوابی کلمات سننے کے لیے لحظہ بھر خاموشی اختیار کی۔ جواب نہ ملنے پر پروگرام اسسٹنٹ کو کال کاٹنے کا اشارہ دے دیا۔
پینل کی دوسری سکرین دیکھی پروگرام اسسٹنٹ غزل ڈھونڈ کر الگ کر چکا تھا۔ ارسلان نے چند سیکنڈز موسیقی یوں ہی چلنے دی پھر موسیقی مدھم کی اور مائک سنبھال لیا۔
“آئیے سنتے ہیں ہماری پہلی کالر علیشہ کی فرمائش پر غزل رنگ کی دوسری غزل۔ فیض احمد فیض کا دلکش کلام ٹینا ثانی کی مسحور کن آواز میں۔”
علیشہ رابطہ منقطع کرنے کے لئے مناسب الفاظ سوچ کر کہنے ہی والی تھی۔ موبائل فون تھرتھرانے لگا۔ موبائل فون سکرین دیکھ کر اس کا خوشگوار موڈ ، اب پہلے جیسا نظر نہیں آ رہا تھا۔ انٹرنیٹ کے ذریعے کی گئی کال اس نے منقطع کر دی۔ ایئر پوڈز کانوں سے نکالے ، موبائل فون کان سے لگا کر کہا “ہیلو۔”
“تمہاری طبیعت اب کیسی ہے ؟” مردانہ آواز نے سوال کیا۔
“آپ کو اس سے مطلب ؟ اور میرا احساس کرنا آپ نے کب شروع کیا ؟ کس نے کہا میری طبیعت خراب ہے ؟ میں ٹھیک ہوں۔” علیشہ نے ایک ہی سانس میں مگر بیزاری سے جواب دیا۔
“احساس نہ ہوتا تو رات سوا ایک بجے کال کر رہا ہوتا ؟ بتانے والے بتا دیتے ہیں۔ تمہارا موبائل فون اس وقت بند ہوتا یے۔ اس لئے تمہارے دفتر فون کیا تھا۔ کچھ چاہئے ہو بتا دینا۔” کال کرنے والا جلدی میں تھا۔
“جو چاہئے کئی بار بتا چکی ہوں۔ آپ دنیا کو تماشا دکھانا چاہتے ہیں تو یوں ہی سہی۔ عدالت سے تو طلاق مل ہی جائے گی۔” علیشہ کا موڈ خراب ہو چکا تھا۔
“تمہیں آخر یہاں آنے میں مسئلہ کیا ہے ؟ کیوں ضد پہ اڑی ہو ؟ میرا نہیں تو اپنا ہی خیال کر لو۔” بارہا ادا کئے گئے جملے دہرائے گئے۔
“جب یہی میں نے کہا تھا آپ نے خیال کیا تھا ؟ آپ تو آج بھی حکم دے رہے ہیں۔ میں نے منتیں کی تھیں۔ مگر آپ کے لئے تو پیسہ ہی سب کچھ ہے اور رہے گا۔” علیشہ کا غصہ شدید تھا۔
“یہ جگہ ہم جیسوں کی جنت ہے اور محفوظ پناہ گاہ ہے۔ بس سلیقہ آنا چاہیے۔ تم اب ضد چھوڑ دو ، بس بہت ہو گیا اب آ جاؤ۔” اب کہنے کا انداز منت سماجت جیسا تھا۔
“یہ ہم سے کیا مراد ہے ؟ وہ جنت اور پناہ گاہ آپ کے لئے ہوگی۔ میں اپنا خیال رکھ سکتی ہوں۔ اگلی بار فیصلہ کن کال کیجئے گا۔ رکھتی ہوں۔” علیشہ نے رابطہ منقطع کرنا چاہا۔
“سنو رکو ٹھہرو بات تو سن لو ، دو ہزار پاؤنڈز تمہارے اکاؤنٹ میں بھیج رہا ہوں۔ مزید ضرورت ہو تو بتا دینا۔” ایک ہی سانس میں جلدی جلدی کہا گیا۔ اسے پتا تھا ایک کال کے فوراً بعد ، دوسری کال علیشہ نہیں سنے گی۔
“آپ کیسے بھیج سکتے ہیں ؟ نا تو آپ یہاں آ سکتے ہیں اور نا ہی یہاں کچھ بھیج سکتے ہیں۔ آپ تو یہاں آتے ہی دھر لئے جائیں گے۔ مجھے کیوں بے گھر کرنا چاہتے ہیں ؟ میں نہیں آ رہی تو اب یہ ہتھکنڈے آزمائیں گے ؟” علیشہ اب پریشان نظر آ رہی تھی۔
“میں بھلا کیسے بھیج سکتا ہوں ؟ قوانین کا تمہیں ، مجھ سے بہتر پتا ہے۔ کسی کے ذریعے بھجوا رہا ہوں۔” دھیمے لہجے میں جواب ملا۔
علیشہ نے جواب دئے بنا کال کاٹ دی۔ لیپ ٹاپ بند کر کے جب اٹھنا چاہا ، ہل بھی نہ پائی۔ بیٹھی بیٹھی سن ہو گئی تھی۔ ٹانگ پر چڑھائی ٹانگ بمشکل اتاری ، اب وہ سنجیدگی سے میڈیکل چیک اپ کرانے کا سوچ رہی تھی۔
ارسلان سٹوڈیو میں بیٹھا پروگرام اسسٹنٹ سے باتیں کر رہا تھا۔ “یہ تیسری کال تھی۔ ہر بار نئے اور عجیب و غریب نمبر سے کال آتی ہے ! کسی نوعیت کی انٹرنیٹ کالنک سروس ہے۔ ایسی کال آنے پر تم کنٹرول روم سے ، نشریات چند سیکنڈز ڈیلے کر سکتے ہو ؟”
“نہیں میں نہیں کر سکتا۔” پروگرام اسسٹنٹ نے نفی میں سر ہلایا۔
تدبر سے کام لینا سعئی رائگاں ٹھہرا۔ اب پروگرام اسسٹنٹ ہی چارہ ساز تھا۔ “اچھا ، ایک کام کرنا اور بات اپنے تک رکھنا۔ اگر دوبارہ کال آئی ، اس بار کال لائیو مت کرنا۔” ارسلان نے مزید ہدایات دیں تو پروگرام اسسٹنٹ نے آنکھیں بند کر کے خاموشی سے تائید میں سر ہلا دیا۔
علیشہ نے وقت دیکھا دوپہر کے بارہ بجے تھے۔ موبائل فون اٹھایا اور ارسلان کو کال کی۔ ارسلان کی طرف سے دس پندرہ سیکنڈ بعد کال اٹھا لی گئی۔ “پرندوں کی چہچاہٹ کہیں مس نا کر دیں۔ صبح کے چھ بج رہے ہیں سوچا جگا دوں۔”
“آپ کی چہچہاہٹ پرندوں کی چہچاہٹ سے کہیں زیادہ دل کش ہے۔ چہچہا کر بیداد کرنے کے لئے شکریہ۔” ارسلان نے خواب ناک آواز میں جواب دیا۔
“اچھا رکھتی ہوں۔ آپ تیار ہو جائیں۔ پرندے سرِ شام بھی چہچہاتے ہیں۔ کال کروں گی مل کر چہچہائیں گے۔ کل میں آپ کا پسندیدہ رنگ لائی تھی۔ پہن کر دکھاؤں گی۔ شام میں ملتے ہیں۔” علیشہ نے کال منقطع کر دی۔
ارسلان آدھا گھنٹہ مزید سونا چاہتا تھا۔ لیکن نیند بھک سے اڑ گئی تھی۔ کیا یہ رپیٹ ٹیلی کاسٹ ہے ؟ یا یہ ، وہ دوسری ہے ؟ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے ، پہلی بھلا دیا کرتی ہے۔ لیکن یہ بجائے بھلانے کے یادہانی کراتی ہے ؟ کہیں ایسا تو نہیں سبھی ایک سی ہوتی ہیں ؟ کہتی ہے “اگر طلاق یافتہ عورت آپ کی زندگی میں آئے آپ اس سے شادی کر لیں گے ؟” کیا علیشہ طلاق یافتہ ہے ؟ اگر ہے تو اس میں برائی کیا ہے ؟ کیا وہ مجھ سے کچھ چھپا رہی ہے ؟ اگر چھپا رہی ہے تو کیوں چھپا رہی ہے ؟ اس سے پہلے خیالات یادوں میں ضم ہوتے ، ارسلان نے پہلے سے تھامے موبائل فون کے ذریعے رابطہ کیا۔ اگلے ہی پل علیشہ نے کال کاٹ دی اور جھٹ سے خود کال کی۔ “نہانے جا رہی ہوں ، ایسے میں ویڈیو کال مضرِ صحت ہے۔” وہ ہنس رہی تھی۔ ارسلان مسکریا اور بنا تامل مدعا برداری سے کام لیا۔
“علیشہ کیا آپ طلاق یافتہ ہیں ؟”
“میں طلاق یافتہ نہیں ہوں۔ کیوں پوچھا ؟” علیشہ نے جواب دے کر نچلا ہونٹ دانتوں میں ، آدھا دبا لیا۔
“کچھ نہیں بس یوں ہی… چہچہاہٹ سننے کا بہانہ چاہیے تھا۔” ارسلان نے بات گول کر دی۔
“کوئی بہانہ تراشنے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ ہمہ وقت حاضر ہوں۔ بس میرے چہچہاتے ، دوسرے پرندوں کی چہچاہٹ ناگوار گزر سکتی ہے۔ جو بچا ہے ، کہہ دوں گی۔ کچھ نہیں چھپاؤں گی۔” علیشہ نے شام کا وقت طے کیا اور نہانے چلی گئی۔ ارسلان خیالات کا یادوں میں ضم ہونا نہ روک سکا۔
متعدد طبی معائنوں اور ریپورٹس کے بعد آج علیشہ کو حتمی میڈیکل ریپورٹ بذریعہ ای میل موصول ہوئی تھی۔ پریشانی کے عالم میں ڈاکٹر سے رجوع کرنے اٹھی ، ڈیڑھ پونے دو گھنٹے میں ڈاکٹر کے سامنے موجود تھی۔
“ٹریٹمنٹ کے ذریعے اسے طویل کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ ٹریٹمنٹ کے دوران معجزے بھی رونما ہو جاتے ہیں۔ دیگر سہولیات تو مفت فراہم کی جائیں گی۔ لیکن انجکشنز کا بندوست آپ اپنے اخراجات سے کریں گی۔” ڈاکٹر نے پندرہ منٹ تفصیلی گفتگو کے بعد کہا۔
علیشہ گھر واپس آ گئی۔
اگر میں مر گئی ، تو ؟ یہ تو مجھے کریمیٹر میں رکھ کر جلا دیں گے۔ میری راکھ تک رائیگاں جائے گی ؟ یہ بھی ہو سکتا ہے میڈیکل سٹوڈنٹس مجھے ننگا کر کے مجھ پر ہاتھ سیدھا کریں۔ مجھے چیر پھاڑ کر تجربات بھی کئے جا سکتے ہیں ، لاوارث جو ہوں گی۔ کیا میری قبر بنے گی ؟ میرے لئے دعا کون کرے گا ؟
علیشہ نے لیپ ٹاپ اٹھایا پلنگ سے اتر کر قالین پر بیٹھ گئی۔ لیپ ٹاپ چلا کر ای میل ان باکس میں گئی۔ میڈیکل ریپورٹس ایک ای میل ایڈریس پر فارورڈ کر دیں۔ قالین پر بیٹھی پلنگ سے ٹیک لگائی ، آنکھیں بند کر لیں۔ آنکھ کب لگی اسے پتا نہ چلا۔ تین گھنٹوں بعد جب آنکھ کھلی ، گردن اکڑ چکی تھی۔ قالین پر قریب ہی رکھا موبائل فون اٹھا لیا۔ موبائل فون سکرین روشن نظر آنے لگی۔ نوٹیفکیشنز میں دو نمبرز سے مسڈ کالز نظر آئیں۔
علیشہ نے پہلے نمبر پر کال کی ، گھنٹی بجتے ہی کال اٹھا لی گئی۔ دونوں جانب سکوت طاری تھا۔ چند لمحے دبے پاؤں یوں ہی گزر گئے۔ علیشہ نے لب بستگی توڑی۔
“آ رہی ہوں سنبھال لیجئے گا ، جو یہاں ہے وہ سب بھی۔” اتنا کہہ کر خاموش ہو گئی۔
چند لمحات اور ، خاموشی کی نذر ہو گئے۔
“سنبھال لوں گا جلدی آؤ۔” مختصر سا جواب سن کر علیشہ نے رابطہ منقطع کر دیا۔
اب وہ دوسرے نمبر پر کال کر رہی تھی۔ دوسرے نمبر پر گھنٹی بجنے سے پہلے ہی کال سنی گئی۔ کچھ کہا سنا جاتا اس سے پہلے علیشہ بولنے لگی۔
“آپ کے ماضی میں جا رہی ہوں۔ مجھے دعاؤں میں یاد رکھئے گا ، درخواست ہے۔ مستقبل سے ماضی میں جانا میرا حال ہے۔ زیست ، ہر حال میں ہے۔ خدا حافظ۔”
_______
____
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.