بشریٰ حزیں

خاموشی کے زہر میں بجھی گھر کی فضاء چیخ چیخ کے بتا رہی تھی کہ مکین ناراض ہیں ۔

زین اور روحی ایک گھر میں رہتے ہوٸے بھی ایک قانونی و شرعی رشتے میں بندھے دو اجنبی تھے جن کے درمیان واجبی سی بات چیت ہوتی تھی ۔

” بھوک لگی ہے “۔؟ 

” نہیں ، ابھی نہیں “۔

” چائے پیئں گے “۔؟

” پی لوں گا “۔؟

” آٹا ختم ہو گیا ہے “۔

” چائے کا سامان لیتے آنا “۔

بس ایسے ہی گنتی کے چند جملوں کا تبادلہ ہوتا اور بس ۔ روحی کبھی کبھی اس لگی بندھی روٹین سے ہٹ کے کچھ کہتی بھی تو زین کا انداز سنی ان سنی والا ہوتا ۔ کچھ دن یکطرفہ گفتگو کا شوق پورا کر کے زین کی بے حس خاموشی سے مایوس ہو کے وہ لب سی لیتی ۔ 

ناراضگی ۔۔۔۔۔۔

اسے ناراضگی کا نام دینا بھی زیادتی ہو گا

کیونکہ ناراضگی تو اپنوں سے ہوتی ہے جبکہ یہاں اپائیت کا احساس تو کیا شائبہ تک نہ تھا ۔ ناراضگی نما سے ردٍعمل کے طور پہ وہ بالکل خاموش ہو جاتی ۔ مقابل کی بلاء سے بھلے وہ ساری عمر نہ بولتی اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا ۔ ہاں اس ناراضگی والے دورانٸیے میں یوں لگتا تھا جیسے وہ دو سے تین ہوگئے ہوں ۔ 

ایک زین

دوسری روحی

تیسری خاموشی

دیوارگیر کلاک کی سوئیوں کی ٹک ٹک ، چوبیس میں سے بارہ گھنٹے چلتا رہنے والا ٹی وی ، دروازے پہ بجنے والی اطلاعی گھنٹی ، باورچی خانے کے ایگزاسٹ فین کے بیرونی جانب گھونسلہ بنانے والی فاختہ  کے چہچہے اور گھر کی شمالی دیوار سے ملحق گراٶنڈ میں کھیلتے بچوں کا شور نہ ہوتا تو اس گھر میں ناراضگی کے نام پہ طاری خاموشی کسی شہرٍ خموشاں سے کم نہ تھی ۔ 

شادی کے بعد جلد ہی دونوں کے مزاج اور پسند و ناپسند کا فرق واضح ہو کے سامنے آ گیا تھا لیکن دنیاداری اور اپنے اپنے خاندان کے سامنے بھرم بنائے رکھا ، دونوں میں اگر کوٸی قدرٍ مشترک تھی تو فقط یہ عادت کہ ناراضگی میں کوئی بھی دوسرے پہ چختا چلاتا تھا نہ کبھی ہاتھ اٹھایا تھا ۔ 

روحی کبھی کبھی اچھا موڈ دیکھ کے یہی کہتی تھی کہ زین مجھ سے بات کیا کرو ۔ 

میرا جی چاہتا ہے کہ ہم بنا کسی موضوع کے بلاتکان ایک دوسرے کے ساتھ دنیا جہان کی باتیں کریں ، کتنے دن میں ہی بول بول کے تھک جاتی ہوں ، خاموش ہو جاتی ہوں تو تم خاموشی کا غبار اور گہرا کر کے خود پہ تان لیتے ہو ، نہ مجھے مناتے ہو نہ کبھی میرے ناز اٹھاتے ہو ۔ 

زین خاموشی سے ایک کان سے سن کے دوسرے کان سے نکال دیتا ۔ 

زندگی اسی طرح بیتے جا رہی تھی ۔ 

وہ آفس سے گھر آتا تو روحی کو نظرانداز کر کے لباس تبدیل کرتا ، کھانا کھایا جاتا ، مل کے چائے  پی جاتی اور اس کے بعد ایک بیڈ پہ درمیان میں گاٶ تکیہ رکھ کے دونوں اپنے اپنے موبائل  میں پناہ گزیں ہو جاتے ۔ 

روحی اپنے نام کی طرح سراپا روح جبکہ زین فلسفہٍ وجود کو ماننے والا اپنی ذات کے زنداں کا اسیر صرف بھوک اور پیاس کی حد تک اس رشتے کو نبھا رہا تھا جبکہ روحی کا دل و دماغ اس عجیب و غریب رشتے کے بے بنیاد قلعے کے بوجھ تلے چٹختا تھا ، پل پل سلگتا ہوا ذہن دن رات خودکلامی کے زہر میں بجھتا جا رہا تھا ۔

کہنے کو دنیا کا مضبوط رشتہ لیکن دیکھو تو ریل کی دو پٹریاں جو ساتھ تو ہوتی ہیں پاس نہیں ۔ جیسے دریا کے دو کنارے ، ایک ساتھ ہو کر بھی الگ الگ ۔

آفس میں دوستوں اور ساتھی سٹاف کے ساتھ خوش گپیاں ہانکنے کے بعد وہ گھر آتا تو بھول جاتا کہ اس چاردیواری میں اس کے نام پہ وقف ایک جیتا جاگتا وجود بھی کسی کے ساتھ ہنسنے بولنے کو ترستا ہو گا ۔ 

وہ سوچتی ہی رہ جاتی کہ آج اگر موڈ اچھا ہوا تو زین کے ساتھ ڈھیروں باتیں کرے گی لیکن ”  اے بسا آرزو کہ خاک شدے “ کے مصداق اس کی خوش فہمی ہی رہتی کہ وہ اس کے ساتھ بات کرے گا ۔ 

موبائیل میں سوشل میڈیا پہ دوستوں کی بھیجی ہوٸی ویڈیوز بآوازٍ بلند سنتا تو وہ اپنے موباٸل کے ساتھ ہینڈزفری لگا لیتی ۔ 

گھر ایک نہیں دو لوگ مل کر بناتے ہیں لیکن یہ کیسا گھر تھا جس کا ایک مکین اسے مکان سمجھ کے رہ رہا تھا ۔ پہلی تاریخ آ گئی ہے ، کرایہ دینا ہے ، کرایہ دے دیا ، بجلی کا بل آ گیا ہے ، گیس کا بل ادا کر دیا ہے ، یہ معمولات تو کسی ہوٹل یا ہاسٹل میں رہنے والے بھی نبھاتے ہیں البتہ گھر نام ہے ان ذمہ داریوں سے سبک دوشی کے بعد مسکراہٹوں کی ادائگی کا ، خاموشی کے پیچھے وجہ جاننے کا ، کسی کا سردرد ہو تو پیار بھرے ہاتھوں سے دبانے کا ، ایک کو نیند نہ آئے تو مل کر جاگنے کا ، ایک دوسرے کی پسند و ناپسند کو اپنانے کا ، لیکن زین ان باتوں سے مبرا تھا ۔ اس کی ذات میں سبھی رنگ تھے لیکن روحی کےلئے نہیں ۔ 

کتنی عجیب سی بات تھی کہ وہ تو اپنے شوہر کےلیے سات رنگوں کی دھنک بن کے جی رہی تھی جبکہ شوہر اس کے پاس آتے ہی رنگین سے بلیک اینڈ وائٹ ہو جاتا تھا ۔ 

کچھ دنوں سے وہ پرندوں اور ہواٶں سے باتیں کرنے لگی تھی ۔ کبھی کبھی نیند میں بھی ہڑبڑا کے اٹھ جاتی ۔ ساتھ ہی دا ئیں پہلو پہ لیٹا ہوا اس کا جیون ساتھی جاگتے ہوئے بھی سوتا بن جاتا ۔ 

گھر کا سناٹا اس کے وجود میں گھر کرتا جارہا تھا لیکن ساتھی کو پرواہ تھی نہ احساس ۔ 

” زین ! 

میرا دم گھٹتا ہے اس خاموشی سے ، میرے ساتھ بات کیا کرو ، جب تم نہیں بولتے تو میرے اندر کوٸی زہر گھلنے لگتا ہے ، ہمیشہ میں ہی بات کرتی ہوں تم ہوں ہاں سے نہیں نکلتے ، اپنے دوستوں کے ساتھ تو طویل فون کالز پہ کھل کے بولتے ہو ، میرے ساتھ کیوں نہیں بولتے “۔؟

کبھی کبھی وہ اعتراف کرتا کہ ہاں تم ٹھیک کہتی ہو ، میرا رویہ ایسا نہیں ہونا چائیے ۔ لیکن یہ اعتراف زبانی جمع و خرچ ہی رہتا ۔ روزمرہ کے معمولاتٍ زندگی اسی لگی لپٹی روش سے بندھے رہے چلتے رہے ۔ 

کچھ دن سے وہ بہت زیادہ حساس ہو رہی تھی ۔ زین کو پتا ہوتا تھا کہ پہلو بدل کے لیٹی ہوئی وہ سو رہی ہے یا رو رہی ہے لیکن ۔۔۔۔۔ کبھی اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا نہ کبھی اس کے آنسو پونچھے ۔ 

پچھلے پانچ روز سے ان کے درمیان خاموش جنگ جاری تھی ۔ 

صبح اس کے آفس جانے کا وقت ہو چکا تھا لیکن روحی ابھی تک  سو رہی تھی ۔ گزشتہ شب سر درد اور نیند کی گولی ایک ساتھ کھا کے سوئی تو صبح آنکھ نہیں کھلی ۔ 

ایسا بھی نہیں کہ زین کوئی غیر رومانوی مزاج کا روکھا پھیکا بندہ تھا ، بلا کا رومانٹک تھا لیکن روحی کے ساتھ نہیں ۔ آفس سے کال کر کے کبھی پیار سے حال پوچھا نہ یہ کہ کیا کر رہی تھی ؟ آج بھی ایسا ہی ہوا تھا ۔ صبح گھر سے آتے ہوئے  مل کر نہ آنے کا کوٸی ملال تھا نہ اس بات کی فکر کہ وہ کیسی ہو گی ؟ سردرد ٹھیک ہوا ہو گا یا نہیں ؟ 

شام تک آفس میں وقت گزارنے کی بجاٸے ایک دوست کی کال آئی تو وہ جلدی آف کر کے اس دوست کے ساتھ ایک تیسرے دوست کے زیرٍ تعمیر بنگلے پر چلا گیا جہاں کچھ اور لوگ بھی اکٹھے ہوئے بیٹھے تھے ۔ گپ شپ اور چاٸے کا دور دیر تک چلا ۔ اس کے بعد اجازت لے کے وہ وہاں سے گھر کی جانب روانہ ہو گیا ۔ 

آفس کی نسبت یہاں سے گھر کا فاصلہ دوگنا تھا ۔ آدھے راستے کی ڈراٸیو کے بعد  ایک پرانی فرینڈ کی کال آ گگئی جو دوسرے شہر سے کسی جاب کے لئے انٹرویو دینے آٸی تھی ۔ 

” کہاں سے بول رہی ہو “۔؟

” تمھارے شہر سے بول رہی ہوں یار ، آج رات آخری ٹرین سے واپسی ہے ، ملنا چاہو تو گیسٹ ہاٶس سے مجھے پک کر لو “۔

زین نے یہ سنا تو اڑتا ہوا گیسٹ ہاٶس پہنچ گیا جہاں اس کی درجنوں فرینڈز میں سے سب سے زیادہ شوخ اور دل پھینک حسینہ اس کی منتظر تھی ۔ 

ان کے درمیان محبت کا کوئی سین نہیں تھا ، یہ تو وہ تعلق تھا جو نٸے دور کے بے منزل مسافروں کی طرح انھیں بھی ملا دیتا تھا ورنہ وہ بخوبی جانتا تھا کہ ایک عدد  شوہر کے ہوتے ہوٸے بھی اس تتلی کے ایک ہی وقت میں  کتنے اور کس کس کے ساتھ معاشقے چل رہے ہیں ۔ اس وقت بھی جب اسے کوئی اور ” دوست “ فارغ نہ ملا تو زین کو بلا لیا تھا ۔ 

زین وہاں پہنچا تو وہ پہلے سے فریش ہو کر کھلے گلے اور کھلی زلفوں کے ساتھ اس کی منتظر تھی ۔ 

” کہاں چلیں “۔

” تمھارا شہر ہے ، سڑکوں کے سفر پہ کسی طرف لے چلو ، لانگ ڈراٸیو کے دوران گپ لگاٸیں گے ، اس کے بعد ڈنر ، پھر کہیں کافی پٸیں گے تب تک میری ٹرین کا ٹاٸم ہو جائے گا ، مجھے سٹیشن ڈراپ کر کے اپنی زوجہ کے پاس چلے جانا “۔

” زوجہ ؟ ہاہاہا ۔۔۔۔“۔

 کھل کے قہقہہ لگا کے اس نے کچھ دیر تو زوجہ کی دقیانوسی سوچ ، سطحی رومانیت پسندی اور مشرقی طور طریقوں پہ فاتحہ پڑھی اور پھر ” مٹی پاٶ“۔ کہہ کے موضوع بدل دیا۔

ایک خوابناک ماحول اور سموکی فضاء والے ریسٹورنٹ میں کھانا کھا رہے تھے کہ موباٸل پہ پڑوس والے قریشی صاحب کی کال آ گٸی ۔ 

زین سمجھ گیا کہ وہ اپنی فاٸل کے لٸے کال کر رہے ہوں گے جو زین کے آفس میں بینک لون کی منظوری کے لئے رکھی تھی ۔ 

” اٹینڈ کر لو کال “۔

”نہیں یار ، ضروری نہیں ہے ، بعد میں بات کر لوں گا “ ۔ 

مینا کی میٹھی اور شوخ باتوں میں کوٸی مخل نہ ہو یہ سوچ کر اس نے موبائل کو سائلنٹ کر دیا۔

ایک رنگین اور یادگار شام گزارنے کے بعد اسے سٹیشن پہ ڈراپ کر کے زین گھر کی جانب روانہ ہوا ۔

موبائل کو سائلنٹ موڈ سے ہٹا یا تو مسڈ کالز کی جیسے برسات ہو چکی تھی۔

اس نے کال بیک کرنا چاہی تو کوئی بھی اس کی کال اٹینڈ نہیں کر رہا تھا ۔ 

ایک انجانی سی تشویش میں گھرا ہوا گھر کے قریب پہنچا تو ویاں کا منظر ہی بدلا ہوا تھا ۔ 

گھر کے دائیں جانب وسیع لان میں قنات لگی تھی ، سامنے گاڑیوں کی دورویہ لمبی قطار تھی ۔ گھر کا گیٹ چوپٹ کھلا ہوا تھا جس میں سے اندرونی کمروں کے کھلے دروازے اورآتے جاتے لوگوں کا ہجوم زبانٍ حال سے بتا رہا تھا کہ دستٍ اجل یہاں سے کسی کو لے جا چکا ہے ۔

عورتوں کی آہ و بکا اور چیخ و پکار نے ایک بار تو اس کے ذہن و دل پہ گہرا وار کیا لیکن دوسرے لمحے جسے سب آوازیں ساکت ہو گئیں ۔

” خاموشی 

اس قدر خاموشی 

میرا دم گھٹ رہا ہے 

کوئی بولتا کیوں نہیں “۔؟

وہ چیخ رہا تھا 

اپنے آپ سے پوچھ رہا تھا

لوگوں کو جھنجھوڑ رہا تھا 

کسی سیانے بزرگ نے کہا کہ اسے میت کے پاس لے جاٶ تاکہ ہوش میں آئے، اس وقت یہ ہوش میں نہیں ہے ۔

اسے روحی کی میت کے پاس لے جایا گیا 

 بات نہ کرنے کا شکوہ کرنے والی 

چُپ کی زبان سے گلہ کرنے والی

اس کا سج سنور کے انتظار کرنے والی 

اپنے سارے رنگ اور سپنے ساتھ لئے

خاموشی کا کفن اوڑھ کے 

اس کی دنیا سے بہت دور جا چکی تھی

اسے ساری آزادیوں کا اختیار سونپ کے 


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content