تحریر : محمد شاہد محمود۔

ناکام عشق کا تا حیات روگ بعد از حیات بھی رہے گا ؟ خالی پیٹ یہ گمان غلط ثابت ہو رہا ہے۔ بد گمانیاں خالی ذہن کی پیداوار ہوتی ہیں اور خوش گمانیاں بھرے پیٹ کی پیداوار ہوتی ہیں۔ خالی پیٹ نے مجھے نئے فلسفہء خودی سے روشناس کرا دیا ہے۔ میں دنیا بدلنے نکلا تھا۔ میں دنیا تو نہ بدل سکا البتہ دنیا نے مجھے کہیں کا چھوڑا۔ شاعروں ، افسانہ نگاروں اور مفکروں نے مجھے ایسی دنیا دکھائی جس کا وجود ہی نہ تھا ، یہ محض سراب تھا۔ یہ سراب دکھانے والے ادباء بھی کیا اسی سراب کی بھینٹ چڑھے جی رہے ہیں ؟ یا کہ اس سراب سے گزر کر نئی دریافت شدہ دنیا میں جی رہے ہیں ؟ ایک ایسی دنیا ،  جو شاعروں ، افسانہ نگاروں اور مفکروں نے اپنے لئے خود تخلیق کی ہے ؟ انہیں خیالات میں کھویا سمت کا تعین کئے بغیر چلا رہا تھا۔ جب بھوک سے نڈھال ہونے لگا فٹ پاتھ کے کنارے بیٹھ گیا۔ آنکھوں کے سامنے مناظر شاید خوش نما تھے ، لیکن دھندلے نظر آ رہے تھے۔ یہ شاید کسی پارک کے سامنے بنا فٹ پاتھ تھا۔ سوشل میڈیا پر مجھے فالو کرنے والے ہزاروں لوگ اسی شہر میں تھے۔ لیکن… صبح کا ملگجا سماں اور سناٹا ، ایسے میں قدموں کی چاپ سنائی دی تو آہٹ کی سمت نظریں دوڑانے سے پہلے ہتھیلیوں سے آنکھیں ملیں۔ میری جانب چلتے ہوئے آگے بڑھنے والا صبح کی سیر کے اہتمام میں کوئی خوش پوش دکھائی دیا۔ میرے قریب سے گزرتے وقت مجھے نظر انداز کر کے آگے بڑھ گیا۔ میں نے ہمت کر کے آواز دی۔ “سنئے”۔ فاصلہ کم ہونے کے باوجود اس نے سنی ان سنی کر دی۔ میں نے دوبارہ آواز بلند کی “سنئے”۔ اس بار وہ رک گیا۔ چند سیکنڈز یوں ہی کھڑا رہا کہ جیسے کچھ سوچ رہا ہو ، پھر پلٹ کر میری جانب دیکھا۔

“کیا ہے ؟” اس نے قریب آنے کی زحمت گوارا نہ کی۔

“مجھے بھوک لگی ہے۔ دو روز سے بھوکا ہوں”۔
میں نے جواب دے کر پر امید نظروں سے اسے دیکھا۔

“کیا کرتے ہو ؟” اس نے وہیں کھڑے کھڑے ایک اور سوال داغ دیا۔

“ادیب ہوں”۔ میں نے مختصر سا جواب دیا۔

اب وہ میری جانب بڑھنے لگا۔ پاس آ کر میرا تنقیدی جائزہ لیا پھر کہا “ادیب تو نہیں لگتے اور شکل سے غریب بھی نہیں لگتے”۔

“کئی افسانے لکھ چکا ہوں جو اخباروں اور رسالوں میں شائع ہوئے ہیں۔ شعر بھی کہتا ہوں”۔ میں نے خشک ہونٹوں پر خشک زبان پھیر کر کہا۔

“کیا تمہارے اشعار بھی کبھی شائع ہوئے ہیں ؟” اس نے تجسّس سے پوچھا۔

“نہیں ، شعر شائع کرانے کا کبھی خیال ہی نہیں آیا۔ مجھے بھوک لگی ہے”۔ میں نے جواب دے کر بھوک کا رونا رویا۔

“میں بھی شاعر ہوں۔ اکبر زعفران کا نام سنا ہے ؟”
وہ مسکرایا اور گردن اکڑا کر بولا۔

“ارے سر آپ ؟ آپ تو بہت بڑے شاعر ہیں معذرت چاہتا ہوں پہچان نہ پایا ، بھوک نے بے حال کر رکھا ہے”۔ میں بھوک دبا کر زبردستی مسکرایا۔

“چل اپنا کوئی سا بھی کلام سنا”۔ اکبر زعفران نے جیب سے موبائل فون نکالا۔

“آج خوشی منانے کا دن ہے” میں نے اپنی لکھی پسندیدہ نظم سنانا شروع کی ، اکبر زعفران نظم سننے کے دوران اپنے موبائل فون پر کچھ لکھتا رہا۔

“سر کیسی لگی میری نظم ؟” میں نے سوالیہ نظروں سےاکبر زعفران کی طرف دیکھا۔

“تقطیع میں روانی نہیں ہے۔ عروض کی ع بھی چھو کر گزری ہے۔ دیکھو میاں ابھی سیکھو”۔ یہ کہہ کر اکبر زعفران آگے بڑھ گیا۔

“سر مجھے بھوکا چھوڑ کر آپ آگے بڑھ رہے ہیں ؟” میں نے پیچھے سے آواز لگائی۔ اتنے میں اکبر زعفران کا موبائل فون بجنے لگا۔

“ہاں کیوں کہ مجھے آگے بڑھنا ہے۔ تم بھوکے ہو اسی لئے آگے نہیں بڑھ سکتے…
ہاں ہیلو ، ہاں ہاں تقریب میں نئے کلام کے ساتھ حاضری ہو گی حضور ، بس چیک کاٹ کر سنھبال رکھئیے میرے آقا…”۔ اکبر زعفران مجھے نظر انداز کر کے موبائل فون کان سے لگائے آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا۔

“تم کون ہو اور یہاں پارک کے سامنے بیٹھے کیا کر رہے ہو ؟ ایک نو وارد کو اچانک دیکھ کر میں گھبرا گیا۔

“میں بھوکا ادیب ہوں۔ مجھے بھوک لگی ہے”۔ میں نے جواب دیا۔

“تم بھوکے تو ہو ہی لیکن احمق بھی ہو۔ اگر ادیب ہو تو جذباتی سا جملہ گتے پر لکھ کر اپنے سامنے رکھو۔ میں نے یورپ اور امریکہ میں اردو ادب کی خدمت میں بڑے بڑے پروگرام کرائے ہیں۔ وہاں بھوکے ایسا ہی کرتے ہیں”۔ نو وارد بھی آگے بڑھ گیا۔

“سر میری بات تو سن لیں”۔ میں نے التجا کی۔

“تم مجھے آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتے۔ میرا وقت تمہاری بھوک سے کہیں زیادہ اہم ہے”۔ نو وارد نے پلٹ کر جواب دیا اور دوبارہ آگے بڑھنے کی غرض سے واپس مڑا۔

“سر صرف بات ہی تو ہے۔ خدا را سن لیں”۔ میں نے دوبارہ روکنے کی کوشش کی۔

وہ پلٹ آیا جیب سے موبائل فون نکالا اور کال ملا کر کسی سے کہا “میں نے فٹ پاتھ پر بیٹھے کسی بھوکے ادیب کی بات سننی ہے۔ ٹیم کے ساتھ فورآ پہنچو اور ہاں اکبر زعفران کے ہوٹل کے کمرے میں ، ناشتے میں کیپوچینو اور کروسینٹ۔ ایک کارنیٹو ، یسپریسو یا کیپوچینو کے ساتھ ، تازہ گلاب رکھنے کا کہہ دینا ، میں اپنی لوکیشن تمہیں بھیج رہا ہوں”۔
“شکریہ سر میں کہنا چاہتا ہوں میں بھوکا ہوں…”۔ اس سے پہلے میں کھانے کا ذکر کرتا نو وارد نے مجھے ٹوک دیا۔
“بہت جلدی ہے ؟ تم سے صبر نہیں ہوتا ؟ یہی مسئلہ ہے تم چھوٹے لوگوں کا۔ رکو ابھی…” نو وارد اتنا کہہ کر ٹہلنے لگا۔
تھوڑی دیر میں دو ڈی ایس این جی وینز تیزی سے آ کر قریب ہی رک گئیں۔ کیمرے ، مائیک اور لائیٹس آناً فاناً سیٹ ہو گئے۔ آن کی آن میری بات سنی جانے لگی۔
“ہمارے ملک کا قیمتی سرمایہ فٹ پاتھ پر بھوکا بیٹھا ہے۔ ہمارا کام ایسے با صلاحیت قیمتی موتی چننا ہے ، جنہیں نظر انداز کر دیا جاتا ہے”۔
نو وارد اور گاڑیاں مجھے وہیں بھوکا بیٹھا چھوڑ کر آگے بڑھ گئیں۔ بھوک کے مارے مجھ پر غشی طاری ہو رہی تھی۔ میں نیم بے ہوش صرف سن سکتا تھا۔ کافی دیر بعد کچھ لوگوں نے مجھے وہاں سے اٹھا کر کسی بنچ پر لٹا دیا۔ وہ لوگ آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ ایک آواز سنائی دی کہ “آج ہمارے ملک کا عظیم ادیب چل بسا ہے”۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ کس کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ میں تو بڑا ادیب نہیں ہوں اور نہ ہی میں ابھی مرا ہوں۔ دوسری آواز سنائی دی کہ “اکبر زعفران نے اس صدمے کے موقع پر اپنی نئی نظم ‘آج خوشی منانے کا دن ہے’ سنا دی ، حد ہے یار…”
یہ سن کر میں بتا نہیں سکتا تھا کہ یہ میری نظم ہے۔ اگر بتا بھی دیتا تو کیا کوئی میری بات پر یقین کرتا ؟ مجھے لکھنے سے عشق ہے۔ لیکن لکھنے سے پیٹ نہیں بھرتا۔ ناکام عشق کا تا حیات روگ بعد از حیات بھی رہے گا ؟ خالی پیٹ نے مجھے نئے فلسفہء خودی سے روشناس کرا دیا تھا۔
مجھے علاج معالجہ دوا کی ضرورت نہ تھی۔ مجھے روٹی کی ضرورت تھی۔ پتا نہیں میں بچ پاؤں گا یا نہیں ، اگر بچ گیا تو ؟
غریب کو شکل سے بھی غریب نظر آنا چاہیے۔ اگر بچ گیا تو چہرے پر دھول مٹی مل لوں گا ، غریب ادیب نظر آنے کی کوشش کروں گا۔ شاید ملک کا وہ ادارہ مجھے اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر لکھنے پر مامور کر دے… ! یہی نیا فلسفہء خودی ہے۔
مکمل  بےہوشی میں جانے سے پہلے مجھے کچھ اور آوازیں سنائی دیں۔
پہلی آواز سنائی دی کہ “ہاں یہی ہے جس کی خبر آج بار بار دکھائی جا رہی ہے”۔
دوسری آواز سنائی دی کہ “ہاں لگ تو وہی رہا ہے”۔
دوسری آواز لاکھوں آوازوں میں واضح طور پہچان سکتا تھا۔ میں اس آواز کا فین ہوں۔ یہ اواز انسان دوست کی آواز تھی۔ امید کی رمق ، جینے خواہش اور لکھنے کا جنون از سرِ نو سر اٹھانے لگا۔ یہ اس دوسری آواز کا جادو تھا جو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔
پہلی آواز ، “اب کرنا کیا ہے ؟”
دوسری آواز ، “یہ مڈل کلاس لوگ ہمیشہ ہمیں سیڑھی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آج ہم اسے سیڑھی بنائیں گے ، ایڈیٹ کئے بغیر اوریجنل مکمل ریکارڈنگ پانچ لاکھ میں خریدی ہے۔ لڑکوں کو بلاؤ اسے اٹھا کر سڑک کے بیچوں بیچ رکھیں۔ چلو آگے بڑھو ، ہمیں آگے بڑھنا ہے”۔
_______


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content