تابندہ شاہد
چھٹی تراویح کا سلام پھیرتے ہی وہ سب سے پچھلی صف میں چلی گئی۔ اگلی تراویح کے لئے جماعت کھڑی ہو چکی تھی۔ اس کے لئے قیام کرنا دوبھر ہو گیا۔ وہ دوزانو بیٹھ کر تلاوت سننے لگی۔ نیند کے جھونکے بری طرح ستا رہے تھے۔ دماغ میں کھچڑی پک رہی تھی۔ وہ تلاوت کی طرف متوجہ ہونے کی پوری کوشش کرتی۔۔۔ عربی کا کوئی کوئی لفظ مانوس بھی لگتا اور پھر اسے معلوم ہی نہ ہوتا کہ کب ذہنی رو بہک گئی۔ اسی کشمکش میں دو رکعتیں مکمل ہوئیں۔ اِدھر حافظ صاحب نے سلام پھیرا اُدھر وہ خاموشی سے اٹھ گئی۔ دونوں بچے ساتھ والے کمرے میں کھیل رہے تھے۔۔۔۔ 6 سالہ ثاقب اور 4 سالہ زینب۔۔۔۔۔ اس نے دونوں کو لیا اور گھر آ گئی۔
” کوئی بات نہیں، آٹھ تراویح تو پڑھ لیں نا ۔۔” اس نے خود تسلی دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منیزہ آٹھ سال پہلے بیاہ کر اس محلے میں آئی تھی۔ گھر میں دونوں میاں بیوی کے علاوہ بوڑھی ساس تھیں۔ چند مہینے گزرے کہ رمضان المبارک کی آمد آمد ہوئی۔ محلے میں ایک بچے نے قرآن پاک حفظ کیا تھا۔ اس کی والدہ نے اپنے گھر میں خواتین کے لئے باجماعت تراویح کا اہتمام کیا۔ ڈرائنگ روم میں مرد حضرات اور لاؤنج میں خواتین کی جماعت تھی۔ ایک کمرے میں چھوٹے بچوں کے لیے بھی انتظام تھا۔
حافظ بچے کی والدہ نے گھر گھر جا کر دعوت دی۔ خواتین کی اچھی خاصی تعداد اکھٹی ہو گئی۔ منیزہ شادی سے پہلے بھی باجماعت تراویح ادا کرتی تھی۔ وہ بہت خوش ہوئی۔ ساس ضعیف تھی۔۔۔ خود جانا ممکن نہیں تھا۔۔ بہو کو شرکت کی اجازت دے دی۔ منیزہ کا شوہر بھی مسجد میں باجماعت تراویح ادا کرتا تھا۔ اس سال رمضان المبارک بہترین انداز سے اختتام پذیر ہوا۔
چار پانچ سال تک رمضان المبارک کے روزے، نمازیں، تراویح وغیرہ بہت آرام سے گزرے۔ اسی دوران دو بچے بھی پیدا ہوئے۔ لیکن پچھلے تین چار سالوں سے وہ بے آرام تھی ۔۔۔۔ اور آج ۔۔۔۔۔۔۔۔
آج تو ۔۔۔ ابھی دوسرے روزے کی تراویح تھی۔ پہلے دن کی تراویح کیسے ادا ہوئی!! یہ وہی جان سکتی تھی یا اس کا اللّٰہ !!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر پہنچ کر اس نے بچوں کے کپڑے بدلے اور سونے کے لئے لٹا دیا۔ ابھی منیزہ کا شوہر گھر نہیں آیا تھا کہ دروازے کی گھنٹی بجی۔ دروازے پر پڑوسن خالہ تھیں۔
” تم خیریت سے تو ہو؟ آج جلدی آ گئی!!” خالہ نے فکر مندی سے پوچھا۔
” جی خالہ! ٹھیک ہوں! بس نیند کا غلبہ تھا تو آٹھ رکعات پڑھ کر آ گئی تھی۔” منیزہ نے ہاتھ کا اشارہ کیا، ” اندر آئیں خالہ!”
” ارے نہیں! بس تمہارا حال پوچھنا تھا اور ایک پیغام ہے” خالہ وہیں کھڑے ہوئے بولی۔
“جی خالہ! بتائیں”
” حافظ کی امی نے سب خواتین کو کل ظہر کے بعد 2 بجے اپنے گھر درس پر بلایا ہے اور مجھے کہا کہ تمہیں بھی ضرور بتا دوں۔ “
” ٹھیک ہے خالہ! ان شآء اللّٰہ میں 2 بجے تک تیار ہو جاؤں گی . خالہ! درس کے لئے کون آ رہا ہے؟”
” حافظ کی خالہ دو دن کے لئے آئی ہوئی ہیں، عالمہ فاضلہ ہے، وہی درس دیں گی۔ ہم سے ملی بھی تھی۔ اچھا میں چلتی ہوں .” خالہ علیک سلیک کر کے رخصت ہو گئیں۔
منیزہ اور خالہ دو بجے درس پر پہنچ گئے۔ خواتین کی ایک قابلِ ذکر تعداد موجود تھی ۔ منیزہ آگے بڑھ کر حافظ کی خالہ سے ملی۔ وہ ایک ملنسار اور ہنس مکھ خاتون تھیں۔ تھوڑی دیر میں حافظ کی خالہ نے سب کو متوجہ کیا اور درس کا آغاز کر دیا۔ تعوذ، تسمیہ اور درود شریف کے بعد کہنے لگیں:
” الحمد للّٰہ! رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ ہے۔ اسی مہینے کے حوالے سے۔۔۔ میں آپ کے سامنے سورۃ البقرہ کی چند آیات کا ترجمہ کروں گی اور پھر ہم مزید بات کریں گے۔” وہ ایک لمحہ رکی اور خواتین پر طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے مسکرائیں :
” آپ فکر نہ کریں، قرآن مجید کھولنے کی ضرورت نہیں، میں لفظ لفظ ترجمہ کروں گی تو آپ بآسانی سمجھ جائیں گی۔”
یہ کہتے ہوئے انہوں نے قرآن پاک کا لفظی ترجمہ شروع کیا۔ کچھ ہی دیر میں، رمضان، روزوں کی فرضیت اور اس سے متعلقہ احکام کی آیات اور ان کا ترجمہ مکمل ہو گیا۔
” الحمد للّٰہ! جتنا قرآن ابھی پڑھا ہے، اس کے تمام احکام واضح ہیں اور ہم ان پر عمل بھی کرتے ہیں۔ اس لئے ہم ان کی فقہی بحث میں نہیں جائیں گے۔۔۔۔۔ ویسے ہمارا آج کا مرکزی نکتہ رمضان المبارک اور روزہ ہی ہے مگر ہم اسے ایک دوسرے پہلو سے دیکھیں گے۔ “
سب خواتین ہوشیار ہو گئیں۔ منیزہ بھی دلچسپی سے سن رہی تھی۔
” اچھا ایک بات بتائیں!” مسکراہٹ تو گویا ان کے ہونٹوں سے چپکی ہوئی تھی۔
” آپ کو معلوم ہے نا کہ رمضان المبارک میں اعمال کا اجر بہت بڑھ جاتا۔۔۔۔۔۔ اچھا بتائیں فرض عمل کا اجر کتنا بڑھتا ہے؟”
” ستر گنا ” ایک خاتون کی آواز آئی۔
” شاباش، ما شآء اللّٰہ! اسی لئے خواتین اپنی زکوٰۃ اسی مہینے میں نکالتی ہیں۔۔۔۔۔۔ اور نفل کا اجر ؟”
” دو گنا ” ” دس گنا” منمناتی آوازیں ابھریں اور خالہ مسلسل مسکراتے ہوئے نفی میں سر ہلائے جا رہی تھی۔ سب چپ ہوئیں تو خالہ ہنسی:
” جناب! ایک نفل کا اجر۔۔۔۔۔ ایک فرض کے برابر ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ اسی لئے لوگ رمضان میں عمرہ کرتے ہیں “
خواتین میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں، منیزہ بھی حیران تھی۔
” آگے بڑھنے سے پہلے ایک مرتبہ اور دوہرا لیں۔۔۔۔ ایک فرض کا اجر ستر گنا اور ایک نفل کا اجر ایک فرض کے برابر۔۔۔۔ اسے یاد رکھنا ہے۔” خالہ رکیں، سب خواتین ہمہ تن گوش تھیں۔۔
” چلیں! سب سے پہلے فرائض اور نوافل کو گن لیں۔ پہلے فرائض گنوائیں! “
” روزہ ” ایک آواز۔۔۔
” نماز ” دوسری آواز۔۔۔۔
” قرآن مجید کی تلاوت” تیسری آواز۔۔۔۔
” ایک منٹ! روزہ، نماز فرض ہے لیکن تلاوت قرآن اس طرح فرض نہیں ہے۔۔۔۔ یہ صرف نماز میں فرض ہے خصوصاً نماز فجر میں طویل قرات پسندیدہ ہے۔۔۔۔۔ جی! مزید ؟ ” سب خواتین سوچ میں پڑ گئیں۔۔۔
” جی! بتائیں!” خالہ کی آنکھیں چمکیں اور بے آواز ہنسی کے ساتھ بولیں :
” رمضان کے اور فرائض ہیں۔۔۔۔۔۔ سحری اور افطاری کا اہتمام کرنا۔۔۔۔”
پہلے سب حیران ہوئیں پھر حسبِ دستور تبصرے شروع کر دیے۔ حافظ کی خالہ کچھ دیر مسکراتے ہوئے خواتین کا رد عمل دیکھتی رہیں پھر سب کو متوجہ کیا:
” رمضان کے چار بڑے فرائض ہیں ( انگلیوں پر گنواتے ہوئے) روزہ، نماز، سحری اور افطاری۔۔۔ اور۔۔۔۔ تمام گھریلو امور بشمول کسی کے ضعیف ساس، سسر یا والدین ہوں۔۔۔۔ یہ بھی فرض ہے اور۔۔۔۔۔۔ بچے تو ہیں ہی فرض۔۔۔۔۔۔ ان کے علاوہ باقی تمام اعمال نفل ہیں۔۔۔۔ تلاوت قرآن سے نماز تراویح تک ۔۔۔۔۔۔ اور فرض کا اجر ستر گنا اور نفل کا اجر ایک فرض کے برابر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
یہ سن کر منیزہ محفل میں موجود ہونے کے باوجود غیر حاضر ہو گئی۔۔۔۔۔ ‘ سحری افطاری فرض۔۔۔ تراویح نفل۔۔۔۔۔۔ سحری افطاری ستر گنا اور تراویح نماز بس ایک فرض۔۔۔۔ ‘
اس کے ذہن میں کل کا دن فلم کی طرح چلنے لگا۔۔۔
سحری کے بعد نماز اور تلاوت قرآن سے فارغ ہو کر بمشکل گھنٹہ ڈیڑھ سوئی ہو گی کہ دونوں بچے معمول کے مطابق اٹھ بیٹھے۔ بیٹا اپنی ضروریات سے خود فارغ ہو جاتا تھا مگر بیٹی کو مدد کی ضرورت ہوتی۔۔۔۔۔ ساس بھی اٹھ گئی تھی۔۔۔۔۔۔ ناشتہ کروا کر فارغ ہوئی
تو ماسی آ گئی۔۔۔۔۔۔ ساڑھے آٹھ بجے بیٹے کی آن لائن کلاس۔۔۔۔
ماسی۔۔ بیٹی۔۔ کلاس میں مدد۔۔ ساس کی دیکھ بھال۔۔ فون۔۔۔
بارہ بجے کلاس مکمل۔۔۔ ماسی فارغ۔۔۔ بچے کھیل میں مگن۔۔۔ دوپہر کے لئے رات کا سالن گرم۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو بجے ساس اور بچے کھانا کھا کر سونے کے لئے بستر پر گئے تو اسے بھی لیٹنا نصیب ہوا۔۔۔ ڈنگ ڈونگ ۔۔ ڈنگ ڈونگ۔۔۔۔ ابھی دس منٹ گزرے تو دروازے کی گھنٹی۔۔۔۔ اوہ!! نماز۔۔۔۔۔ ابھی پڑھنی ہے۔۔
پھر افطاری۔۔ کھانے کی تیاری ۔۔ بچوں کی کِل کل ۔۔ شوہر کی فرمائش۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ اس پر روزہ اور تھکاوٹ۔۔
مزاج تو برہم ہونا ہی تھا۔
افطاری، نماز اور کھانے کے بعد سمیٹا سمیٹی، بچوں کی تیاری ۔۔ اپنی تیاری، ۔۔۔۔۔۔۔ میاں گئے مسجد۔۔۔۔ خود بچوں کے ساتھ تراویح کے لئے۔۔۔۔۔۔
تو پھر جو تراویح پڑھتے ہوئے حال ہوا تھا وہ تو ہونا ہی تھا۔۔۔
” اب بتائیں آپ کی ایک جان ۔۔۔ کہاں کہاں کھپائیں گی؟ ” منیزہ کے کانوں میں آواز آئی۔۔۔۔۔۔ ‘ہیں! ان کو کیسے پتا چلا ‘ اسے حیرانی ہوئی۔۔۔
” آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں” حافظ کی خالہ کسی خاتون سے مخاطب تھیں۔ :
” یہ مسائل عموماً گھروں میں پائے جاتے ہیں،”
‘ اچھا ! اور گھروں میں بھی میرے جیسے مسائل ہیں’ منیزہ نے سوچا۔
” پھر اس کا حل؟” ایک خاتون نے پوچھا اور باقی سب نے تائید کی۔
“جی ! بالکل! حل ہے! ” خالہ نے اطمینان سے کہا: ” سادہ سا فارمولا ہے۔ آپ فرائض اور نوافل الگ الگ کر چکے ہیں۔ اب دن بھر کے کاموں میں اگر نفل اور فرض ایک وقت میں آ جائیں تو بتائیں آپ کس کا انتخاب کریں گی؟ “
” فرض کا” تمام خواتین بشمول منیزہ نے یک زبان کہا۔
حافظ کی خالہ نے کچھ دیر خواتین کے شکوک و شبہات مثالیں دے کر دور کیے۔ پھر خالہ نے دعا کی اور مجلس برخاست ہو گئی۔
اب منیزہ بہت خوش ہے۔ اس آگہی نے اس کے لئے عصر سے رات سونے تک کا وقت آسان کر دیا۔
اختتام۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.