از قلم : عصمت اسامہ ۔

“رومی ! رومی ! تمہاری چادر استری کردی ہے ،یاد سے لے لینا ! “

دادی جان نجانے کب سے پکار رہی تھیں۔

“جی ٹھیک ہے ،میں لیتی ہوں “۔ رومی نے جواب دیا اور اپنی فائلز کی ترتیب درست کرتے ہوۓ دادی جان کے کمرے کی طرف چل دی۔

“دادی جان ،آج کالج وین نہیں آۓ گی ،ڈرائیور بیمار ہے تو میں اوبر منگوالیتی ہوں”۔ رومی نے کہا۔

“ارے رکو ، میں تمہارے چچا سے کہتی ہوں ،وہ چھوڑ دیں گے ،بلا ضرورت کسی اجنبی کے ساتھ اوبر پر جانے سے تو بہتر ہے” ۔دادی جان نے جواب دیا اور اس کے چچا کو فون کرنے لگیں جن کا گھر یہاں سے قریب ہی تھا۔

رومانہ عرف رومی اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی ،ابھی دس سال کی تھی جب اس کے والدین ایک حادثے میں وفات پا گئے تو اس کی دادی جان اسے اپنے گھر لے آئیں،اب وہ ہی اسے پال رہی تھیں۔  ۔حال ہی میں اس نے فرسٹ ائیر میں داخلہ لیا تھا تب سے دادی جان نے اسے چادر اوڑھا دی تھی بلکہ ہر بار باہر جانے کے وقت خود پریس کرکے دیتی تھیں ،کبھی کبھار رومی کو چادر لینے میں تردد ہوتا وہ صرف یونیفارم کے ساتھ والے دوپٹے میں جانے کا ارادہ کرتی  مگر دادی جان کے اصرار پر چادر لے لیا کرتی۔ جب دروازے پر دودھ والے سے دودھ پکڑنا ہوتا تو دادی کہتیں ،رومی چادر لے لو ،جب بازار جانا ہوتا وہ کہتیں چادر لے لو ۔ رومی کو لگتا کہ دادی کو چادر سے محبت ہے۔ وہ کچھ بننا چاہتی تھی۔ اس کے بہت سے خواب تھے ۔وہ تعلیم حاصل کرکے کسی مقام پر پہنچنا چاہتی تھی۔

وہ ایک ابر آلود دن تھا ، سیاہ بادل چھا رہے تھے،صبح تو وین ڈرائیور  نے اسے کالج چھوڑ دیا تھا لیکن نجانے کیا ہوا کہ کالج سے چھٹی کے وقت باہر نکلی تو دور دور تک وین ڈرائیور کا نام و نشان نہیں تھا۔کچھ دیر انتظار کے بعد وہ بس سٹاپ پر کھڑی ہوگئی۔ چند منٹ بعد اس کے دائیں بائیں دو لڑکے آکے کھڑے ہوگئے۔ آندھی کے جھکڑ چلنا شروع ہوگئے تو اس نے اپنی پھڑپھڑاتی ہوئی چادر کو زور سے پکڑ لیا۔آج تو یہ چادر بہت بڑی نعمت لگ رہی تھی۔

“کہاں جانا ہے ،میں چھوڑ آؤں ؟ “

ایک لفنگے نے  کہا تو وہ ڈر  گئی اور پیدل ہی چلنا شروع کردیا ،بونداباندی شروع ہو چکی تھی۔ وہ تیز تیز چل رہی تھی ،اس نے مڑ کے دیکھا تو اوسان خطا ہوگئے وہ دونوں لفنگے اس کے پیچھے ہی آرہے تھے ۔وہ سروس روڈ پر جارہی تھی جہاں ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی ۔ وہ جتنا تیز چل رہی تھی ،وہ دونوں بھی اتنا ہی تیز چل رہے تھے،رومانہ دل ہی دل میں خدا کو پکار رہی تھی  ۔ اتنے میں اس کے پاس چچا جان کی گاڑی آکے رکی ،وہ جلدی سے گاڑی میں بیٹھ گئی۔

“میں کب سے ڈھونڈ رہا تھی بیٹی ، آفس سے واپسی پر یوں ہی تمہارا خیال آیا تو سوچا کہ گھر چھوڑ دوں”

چچا نے کہا۔

” بہت شکریہ چچا جان ” وہ بس اتنا ہی کہہ سکی۔

گھر آکے اس نے دادی جان کو ساری بات بتائی ،وہ رو رہی تھی ۔

” دادی ،لوگ اپنے بیٹوں کی تربیت کیوں نہیں کرتے ؟ ہم لڑکیاں پڑھنے کے لئے گھر سے نکلیں تو یہ لوگ اپنی حرکتوں سے جینا محال کردیتے ہیں “۔

 وہ دادی جان کو دکھ سنا رہی تھی ۔

“بس بیٹا ، میڈیا نے دماغ خراب کردئیے ہیں ، اس ڈرائیور  کی تو چھٹی کرواتے ہیں,حد ہوگئی ہے غیر ذمہ داری  کی ،میں تمہارے چچا سے کہتی ہوں آئندہ تمہیں پک اینڈ ڈراپ کردیا کریں گے ” دادی جان نے تسلی دی۔ اتنے میں ڈور بیل سنائی دی ۔اس نے دروازہ کھولا تو اس کی پرانی سہیلی عینی کھڑی تھی۔ وہ اسے ڈرائنگ روم میں لے آئی اور باتیں کرنے لگی ۔ چند روز بعد عینی کی باجی کی شادی تھی اور وہ چاہتی تھی کہ رومی شادی کی تیاریوں میں کچھ ہاتھ بٹادے۔ رومی نے دادی سے مشورہ کیا تو دادی جان نے کہا کہ ضرور ہم اکٹھے چلیں گے ۔ ویک اینڈ پر وہ دونوں عینی کے گھر چلی گئیں ،ان کے گھر کچھ رشتے دار بھی آۓ ہوۓ تھے ۔ دادی جان کی باتوں کی رونق، ان کا تجربہ  اور رومی کی پھرتی سے بہت سے کام جلدی جلدی نمٹ گئے۔دادی جان نے عینی کی امی سے شادی ہال میں ویٹرز کی جگہ لیڈیز ویٹرسز کی بات کرلی تھی تاکہ شادی کے موقع پر بے پردگی سے بچا جاسکے۔ شادی کا ہنگامہ ختم ہوا تو رومی کی پھپھو رہنے کے لئے گھر آگئیں۔ وہ امید سے تھیں ۔

” رومی تم اندر جاؤ، تمہارے پھوپھا بھی ساتھ ہیں ،میں ان کے لئے چاۓ بھی خود ہی لے جاؤں گی” دادی نے اسے پھوپھا کے سامنے آنے سے روک دیا ،اسے عجیب تو لگا مگر وہ اندر اپنے کمرے میں چلی گئ۔   رومی دیکھ رہی تھی کہ دادی جان پھپھو کا بہت خیال رکھ رہی تھیں۔ چند روز میں ڈلیوری متوقع تھی۔ ایک روز رومی کی آنکھ دادی جان کی آواز سے کھلی ،وہ اپنی کسی رشتے دار سے فون پر بات کر رہی تھیں۔

” ہاں تین دن کے بعد آپریشن کی  تاریخ دی ہے لیڈی ڈاکٹر نے مگر تمہیں ساتھ لے جاؤں گی ،رومی نہیں جاۓ گی ،اسے کالج جانا ہوتا ہے ۔ ایک کام کرو ، سنا ہے کہ اس ہاسپٹل میں انستھیزیا کے لئے مرد ڈاکٹر کو لیبر روم میں بلایا جاتا ہے ۔ دیکھو ،میری بچی نے ساری عمر پردہ کیا ہے ،اب یہ تو غیر مناسب ہوگا نا۔ کسی لیڈی ڈاکٹر کا پتہ کرواؤ جو انستھیزیا دے سکے ،تمہاری اتنی واقفیت ہے ۔ مجھے نہیں پتہ ،  ڈھونڈو ، تلاش کرو ! دادی نے حکم سنایا اور فون رکھ دیا ۔۔۔۔رومی  نے دیکھا کہ پھپھو ،دادی جان سے لاڈ سے کہہ رہی تھیں

” امی جی ، آپ گریٹ ہیں ،میرے سارے مسئلے ہی حل کردئیے آپ نے ” ۔

” گریٹ تو وہ رب ہے جس نے ہر مسئلے کا حل دین اسلام میں رکھا ہوا ہے ” ۔دادی جان سفید دوپٹہ ٹھیک کرتے ہوۓ مسکرائیں تو گویا کمرے میں نور ہی نور  پھیل گیا ۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content