تحریر: ڈاکٹر میمونہ حمزہ

شادی کی تیاریاں زور وشور سے ہو رہی تھیں جب سعد کی کال نے رنگ میں بھنگ ڈال دی۔ اس نے سیاچن سے بڑی مشکل سے کال کی تھی اور حرا کی خیریت دریافت کرنے کے بعد بڑی وضاحت کے ساتھ کہا
چاچی، شادی دھوم دھام سے ہو گی مگر ایک شرط ہے میری
وہ کیا؟ آسیہ بیگم نے گھبرا کر پوچھا۔
۔ شادی پر بھارتی گانے ہوں گے نہ رقص ، نہ ہی فضول رسمیں
اس کا لہجہ مضبوط اور پرعزم تھا۔

چاچی اسے زمانے کی اونچ نیچ اور خاندان بھر کی شادیوں کی مثالوں سے سمجھانا چاہتی تھیں مگر رابطہ بار بار منقطع ہو جاتا۔
سعد اپنا پیغام پہنچا کر مطمئن ہو گیا تھا، جب کہ سسرال میں ایک بھونچال آچکا تھا۔ حرا کے بہن بھائی اور سہیلیاں ناک بھوں چڑھا رہے تھے۔
“اب ہم بور”پاکستانی” گانے گائیں گے؟” حرا سے چھوٹی صفا نے چڑ کر کہا۔
“کیا ہو گیا ہے سعد کو؟ وہ اتنا دقیانوسی تو نہ تھا۔” آفاق بھائی بھی بہن کی محبت میں بول اٹھے۔
“حب الوطنی کا ہیضہ ہو گیا ہے اسے “۔ اس کے تایا زاد نے گرہ لگائی۔
سارے بچوں کے لٹکے ہوئے چہرے دیکھ کر آسیہ بیگم نے سعد کے بڑوں کو بیچ میں ڈالنا چاہا۔ وہ اگلے دن ہی سمدھیانے پہنچ گئیں۔ انہیں قوی امید تھی کہ بھائی صاحب بیٹے کو سمجھائیں گے اور یوں بچپن میں بڑی چاہت سے کیا گیا نکاح پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔
بھائی صاحب ہی کیا سارے گھر کے دباؤ پر بھی سعد ٹس سے مس نہ ہوا تھا۔ اس کا اصرار تھا کہ اپنی تہذیب اور ثقافت کے مطابق ہی شادی ہو گی۔
سیل فون پر حرا کا نام جگمگایا، اور سیاچن کی ہوا سے بھی سرد آواز سنائی دی
“مجھے آزادی چاہیے تم سے ۔”
٭٭٭


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content