افسانچہ : برسات کے آنسو۔ از قلم : سیدہ رابعہ ہاشمی

 

از قلم : سیدہ رابعہ ہاشمی۔ احمد پور شرقیہ ،بھاولپور
ساون کی برسات نے اپنی   جل تھل سے سارا شہر دھو ڈالا تھاـ
درختوں کے پتے نکھر کر ہر طرف ہریالی کے دلکش مناظر بکھرے تھے ـ
پنکھ پکھیرو اپنے گھونسلوں میں ڈیرا ڈالے تھے ـ اپنے پروں میں بچوں کو چھپائے سہمے ہوئے تھے ،کہ کہیں ساون کی برسات انکا چھوٹا سا آشیاں اپنے ساتھ بہا نہ لے جائے ـ
ثمرین اپنے کمرے کی کھڑکی سے لان کا منظر  اداسی سے دیکھ رہی تھی ـ
دل ہی دل میں خود سے غافل ،اپنے محبوب شوہر سے شکوہ کرنے لگی ـ
شاویز شاہ تم نے تو کہا تھا ، اب کے  بعد ہر ساون تم میرے ساتھ دیکھو گے

شادی کے بعد کا پہلا ساون ہی مجھے اداس کر دے گا ،سوچا نہیں تھاـ
دل کی گہرائیوں سے ہوک سی اٹھی
ثمرین اپنے کمرے سے نکل کر برآمدے میں آکر ٹہلنے لگی ـ
وہ دونوں چچا زاد کزن تھے ، ساتھ کھیلتے ہوئے نجانے کب ایک دوسرے کی چاہت میں ڈوبنے ابھرنے لگے ـ

یاداشت کے پنوں پر کتنی سارے حسین پل جھلملانے لگے ـ “وہ آنسوؤں کو پینے لگی ” شادی کے کچھ دنوں بعد نجانے کیوں ، شاویز  کوکمانے کا چسکہ سا پڑ گیا
تنہائی میں اکثر کہتا ؛ثمرین میں تمھیں ہر آسائش دینا چاہتا ہوں ـ
اس نے سوالیہ انداز میں ؟شاویز کو دیکھتے ہوئے کہا ،
تمھیں کب ایسا لگا مجھے ہائی فائی لائف سٹائل چاہیے ـ
شاویز شاہ ‘جذباتی ہوکے بولا میں چاہتا ہوں ،کہ تمھیں ہر سکھ دوں ـ
ثمرین کی آنکھیں پانیوں سے ڈبڈبا گئی ـ
کہ اس کا شریک سفر اس کے لیے اتنا اچھا سوچتا ہے ـ
آج دو ماہ سے اوپر ہوگئے تھے ،اسے ملک سے باہر گئے ہوئے ـ

Leave a Reply