افسانہ: دو کپ کافی / انعم طاہر

انعم طاہر (2)
انعم طاہر (2)
انعم طاہر (2)

افسانہ: دو کپ کافی / انعم طاہر

تحریر: انعم طاہر
محبت ایک پودے کی مانند ہے جو کبھی تناور درخت بن جاتی ہے کبھی سوکھ کر پاؤں کے نیچے روندی جاتی ہے۔ پانی بھی محبت ہے، روشنی بھی محبت ہے، اور ہوا بھی محبت ہے اور پودے کا مقدر یہی محبتیں ڈیسائیڈ کرتی ہیں۔
محبت آتش دان کے پاس بیٹھی کھڑکی سے باہر کا منظر دیکھ رہی تھی۔ درخت کی تنہا شاخیں، اور شاخوں کے بیچو بیچ دکھائی دیتا آسمان جس پہ کالے بادل بہت دیر سے منڈلا رہے تھے، گویا بارش ہونے والی تھی۔
محبت نے گہری سانس لی۔ اسکی نظر کچن کی طرف لگی ہوئی تھی۔ ایک گھنٹہ پہلے میکال کچن میں گیا تھا۔ اسکا اپنا خیال تھا کہ آج وہ اپنے ہاتھ سے ذبردست سی کافی بنائے گا اور وہ اور محبت دونوں گرما گرم کافی انجوائے کریں گے۔ روز تو محبت ہی کافی بنایا کرتی تھی۔ میکال کو اسکے ہاتھ کی کافی پسند بھی بہت تھی۔ جب وہ گرما گرم کافی کا مگ اسکے ہاتھ میں تھماتی تو وہ بے ساختہ کہہ اٹھتا ‘گرما گرم کافی کی بات ہی کچھ اور ہے۔’
آج جانے اسے کیا سوجھی تھی کہ وہ خود کافی بنانے کچن میں چلا گیا۔ کچھ دیر گزری تو محبت کو کچن سے میکال کی باتوں کی آواز آنا شروع ہوئی، اس نے غور کیا تو میکال اپنے جگری یار فارس سے فون پہ بات کررہا تھا۔ محبت نے کچن میں جانے کے بجائے یہی بیٹھ کر میکال اور کافی کے انتظار کا فیصلہ کیا۔ اگرچہ میکال بہت اونچی آواز میں بات کررہا تھا لیکن محبت کا دھیان اس سے ہٹ کر ماضی کی طرف چلا گیا تھا۔ میکال کو کافی دے کر محبت بھی اپنا مگ تھامے اسکے برابر بیٹھ جایا کرتی تھی۔ وہ سوچتی تھی کہ کافی کے مگ پہ وہ میکال سے اپنے دل کی بہت سی باتیں کرسکتی ہے۔ لیکن حقیقت کچھ مختلف تھی۔ اسکی باتوں کے جواب میں میکال صرف ہوں ہاں ہی کرتا تھا۔ دراصل اسکی مصروفیات کچھ ذیادہ تھیں، کبھی اسے کوئی ضروی کال آجاتی تو کبھی کوئی میسج۔ کبھی ٹی-وی پہ سیاسی صورتحال اسکی توجہ حاصل کر لیتی تو کبھی میچ کی آخری ساٹھ بالیں۔ میکال کی عدم دلچسپی دیکھ کر اسکے اندر حسرتیں پلنے لگی تھیں، کبھی تو میکال محبت سے کوئی بات کرتا۔
وہ میکال کو کوشش کے باوجود یہ نہیں سمجھا سکی تھی کہ وہ اندر ہی اندر اکیلے پن کا شکار تھی۔ محبت کے لیے میکال ایک شخص نہیں تھا، بلکہ اسکے لیے پوری دنیا تھا۔ اسکا ہنسنا، رونا، سونا ، جاگنا، کھانا، پینا، اٹھنا بیھٹنا یہاں تک کے سانس لینا بھی میکال کی توجہ کا محتاج تھا۔ اسکا محبت کو نام لیکر پکارنا بھی محبت کو سرشار کردیتا تھا۔ جس دن وہ محبت سے دو چار باتیں کرلیتا، محبت کا دل گنگنانے لگتا، آنکھیں چمکنے لگتیں۔
محبت ! یار سوری کال آگئی تھی فارس کی۔
میکال نے لاؤنج میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔ محبت اپنے خیال سے چونکی تو اس نے میکال کو ہاتھ میں مگ اُٹھائے اپنی طرف آتے دیکھا۔ پھر اس نے مگ محبت کی طرف بڑھایا اور خود ٹی وی کا ریموٹ اٹھا کر صوفے پہ ڈھے گیا۔
‘تم نہیں پیو گے کافی ؟’ محبت نے کافی کا مگ میکال سے لیکر سامنے میز پہ رکھتے ہوئے تعجب سے پوچھا۔
‘یار بتا رہا ہوں ناں فارس کی کال آگئی تو یاد ہی نہیں رہا، باتوں باتوں میں وہیں  کھڑے ہو کے ہی کافی پی لی۔’ فارس کے لہجے میں وہی مخصوص لاپرواہی تھی۔ وہ کسی بات کو بھی ذیادہ سریس نہیں لیا کرتا تھا۔ اس وقت بھی وہ کندھے اچکا کر بولا تو محبت کے چہرے پر مایوسی ابھری۔ وہ کب سے آتش دان کے پاس بیٹھے اس گھڑی کو سوچ کر خوش تھی جب وہ میکال کے ہاتھ کی کافی اسکے ساتھ بیٹھ کر پیتی۔ اس نے شکوہ کناں نظروں سے میکال کی طرف دیکھا لیکن میکال ہرگز اسکی طرف متوجہ نہیں تھا۔ شاید ٹی وی پہ اسکی پسند کا ٹاک شو ری ٹیلی کاسٹ ہوا تھا سو اسکی آنکھیں اور کان وہیں جڑے تھے۔
محبت نے اس رویے کو میکال کی عادت جان کر اگنور کرنا ہی مناسب سمجھا تھا۔ وہ خود کو بہلانے کے لیے سوچنے لگی کہ چلو جو بھی تھا کم از کم میکال اس کے لیے گرما گرم کافی تو لیکر آیا تھا۔
پھر محبت نے کافی کا مگ اٹھایا اور مگ پہ میکال کے لمس کو محسوس کرنے لگی۔ کچھ دیر پہلے یہ مگ میکال کے ہاتھ میں تھا، وہ سوچتی رہی۔ اب اس نے مگ اپنے لبوں کے ساتھ لگایا اور کافی کا گھونٹ بھرا۔ گھونٹ بھرتے ہی اس نے کافی باہر کی طرف تھوکنے کے لیے منہ سے فوارہ نکالا تھا۔
کیا ہوا ؟ میکال ایک دم متوجہ ہوا اور چونک گیا۔ محبت کے منہ سے کافی فوارے کی صورت باہر نکلی تھی اور پھر ایک دم سے محبت کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب اُمڈ آیا تھا۔ میکال کو تشویش ہوئی۔ وہ اسکے قریب آکر اس سے رونے کی وجہ پوچھنے لگا۔
‘کچھ نہیں، منہ جل گیا ‘۔ اس نے میکال کی طرف دیکھنے سے گریز کیا اور اپنی جگہ سے کھڑی ہوگئی۔ ‘میں منہ دھو لوں’ کہتے ہوئے لاونج سے نکل گئی۔ میکال نے نہ سمجھنے والے انداز میں محبت کو جاتے دیکھا پھر میز پہ پڑے کافی کے مگ کو دیکھنے لگا۔ اس نے خود کافی کا گھونٹ لیا تو اسے پشیمانی نے گھیر لیا، کافی ٹھنڈی ٹھار تھی۔ اب وہ مزید حیران ہوا، سوچنے لگا کہ ‘آخر ٹھنڈی کافی سے محبت جلی تو کیسے جلی ؟


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.