از قلم : محمد شاہد محمود۔
مجھے مارنے والے
اکثر اپنی خواہشوں کے بھنور میں
منوں مٹی تلے
بے نام و نشاں ہو گئے
تکمیلِ از سر نو میں فنا کے حلقوم پر
زندگی کی تیغ و دو دھاری تلوار کے درمیان
آج بھی رقص بسمل میں مصروف
صدائے زندگی ہوں
میں اک جہاں ، اک جان سے گزر کر
بیش بہا جہان بساتی زندگی سے نبرد آزما ہوں
میں ازل تا ابد
ابد تا ازل
آدم کی پسلی سے پیدا
آج بھی مثلِ حوا ہوں
آدم میری پسلیوں و پستانوں سے زندگی کی رمق پا کر میری کوکھ سے جنم لیتا ہے
میں تخلیق کار ، انجامِ حقیقت و آبروئے انجام ہوں
بچپن , کھلونے , گلیاں
سکھی , سہیلیاں
دلارے موسم
خزاں رت کی خشک ہوا
زندگی کے رنگ , امنگ
سب مجھ سے ہیں
سب مجھ میں ہیں
میں مثلِ حوا ہر کہانی کی بنیاد بھی ہوں
اور مرکزی خیال بھی
کہانی مجھے لکھتی ہے
اور میں قلم کو کہانی دیتی
سیاہ و سفید روشنائی عطا کرتی
زندگی کی معراج پر
سدرۃ المنتہیٰ ہوں
میں مثلِ حوا
آج کے آدم کی مکمل تخلیق کار
اک ماں
جو اپنے بچوں کو وقت کی عطا کردہ
کہانیاں سناتی ہے
میں اپنے بچوں کو کہانیاں سناتی ہوں
میں ان کہانیوں کی سرگزشت میں انہیں بیتے دن ، حال و مستقبل کا ہر عکس
واضح دکھا سکتی ہوں
میں ابد کے سنہرے حروف کی ازلی داستان ہوں
_______
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.