روزینہ فیصل ۔ لاہور
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کا مشہور واقعہ ہے کہ وہ علم حاصل کرنے گئے اور کافی عرصہ بعد عالم بن کر واپس لوٹے۔ واپس آنے پر والدہ ملیں اور پوچھا ” کیا سیکھ کر آئے ہو”؟
امام شافعی نے جواب دیا : ” علم اور ادب ”
اس پر والدہ خفا ہوئیں اور بولیں
کچھ نہیں سیکھا ، واپس لوٹ جاؤ.
وہ بہت حیران ہوئے اور افسردہ بھی۔ لیکن ماں کا کہا ٹال بھی کیسے سکتے تھے۔ بوجھل قدموں کے ساتھ واپس اپنی درسگاہ چلے گئے۔سارا قصہ اپنے استاد کے گوش گزار کیا۔
اس پر استاد محترم مسکرائے اور کہنے لگے
” پہلے ادب کہنا تھا، علم بعد میں۔ کیونکہ ادب کے بغیر علم بے معنی ہے۔”
امام شافعی کے اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت مائیں بھی کس قدر عظیم ہوا کرتی تھیں جو یہ جانتی تھیں کہ ادب و اخلاق علم سے بڑھ کر ہے۔
ابنِ ابوالقیّم کہتے ہیں
” مذہب بہترین اخلاق کا نام ہے”۔
اسلام صرف اور صرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے اچھے اخلاق کی وجہ سے پھیلا۔
موجودہ دور کے علوم پر ایک نظر دوڑائیے ۔
کیا آپکو ادب و اخلاق دکھائی دیتا ہے ؟
تعلیمی ادارے اب علم بیچنے اور ڈگریاں بانٹنے کی فیکٹریاں بن چکے ہیں۔ صحیح معنوں میں جسے مکتب کہہ سکیں جہاں ادب و علم سکھایا جاتا ہو، وہ شاید اب ایک بھی نہیں۔
قرآن پاک میں ہے کہ
” تم میں سے بہترین وہ ہے، جس کے اعمال بہترین ہیں۔”
لیکن آج کل زیادہ پڑھ لکھ جانے والے دوسروں کو خود سے کمتر سمجھنے لگتے ہیں۔ علم آداب کے ساتھ نرمی و عاجزی سکھاتا ہے۔ جبکہ اب معاملہ برعکس ہے۔ علم کے ساتھ لوگوں میں تکبر آ جاتا ہے۔ حالانکہ قرآن پاک سمیت اللہ تعالی نے تمام آسمانی کتب میں نرمی کا حکم دیا ہے۔
اللہ تعالی نے فرمایا
“جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا، اللہ بھی اس پر رحم نہیں کرتا۔”
مگر المیہ یہ ہے کہ بعض لوگ دین کے بس انہی احکامات پہ ایمان لاتے ہیں جو انکے مزاج اور پسند کے مطابق ہوں۔ اور ان آیات کو لوگ اپنے رویے کی دلیل کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ حالانکہ دین کو اپنے مزاج کے مطابق بنانے کی بجائے، اپنے مزاج کو دین کے مطابق بنانے کا نام ہی ایمان لانا ہے۔
اصل طاقتیں دو ہی ہیں۔ ” علم اور اخلاق “
باقی مادی قوتیں عارضی ہیں۔
اور اخلاقیات پڑھائی نہیں جاتی بلکہ سکھائی جاتی ہیں۔
علم پڑھایا جاتا ہے اور حقیقی علم وہ ہے جو آپکو مقصد حیات سے جوڑے، چاہے وہ فقہ و حدیث کا علم ہو یا چاہے سائنس کا۔”
علم برائے علم نہیں ہوتا، علم برائے مقصد ہوتا ہے اور وہ مقصد خود کو پہچاننا اور دوسروں کو فائدہ پہنچانا ہے۔”
کوئی بھی علم دینی یا دنیاوی نہیں ہوتا، بلکہ انسان دینی یا دنیاوی ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ دینی علوم حاصل کرنے والا شخص دنیا کی رنگینیوں میں کھو جائے، اور عین ممکن ہے کہ دنیاوی علم حاصل کرنے والا شخص مکمل دین میں ڈھل جائے ۔ ساری بات دل کی ہے، نیت کی ہے اور علم کی لگن کی ہے۔
علم میں بنی اسرائیل دیگر قوموں سے آگے تھے لیکن اخلاق کے معاملے میں وہ لوگ انتہائی پست تھے۔ اللہ تعالی نے قرآن پاک میں ایسے تعلیم یافتاؤں کو گدھے سے تشبیہ دی جس پر کتابوں کا بوجھ لاد دیا جائے مگر وہ اس سے فائدہ نہ اٹھائے۔
علم کے ساتھ ادب سکھانا ایک استاد کی ذمہ داری ہے۔ استاد کا رویہ اور مزاج اسکے شاگردوں میں منتقل ہوتا ہے۔لہذا استاد کو اخلاق کے اعلی درجہ پر قائم ہونا چاہئے ۔
” ایک اچھے استاد کی بہترین نشانی علم کے ساتھ اس کا بہترین اخلاق بھی ہے۔”
اخلاق کو کامل بنانے میں نماز بھی بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ نماز کا سب سے پہلا مقصد اللہ تعالی کی عبادت اور شکر بجا لانا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ نماز صابر بناتی ہے، نظم و ضبط اور وقت کی پابندی سکھاتی ہے۔ اور باجماعت نماز لوگوں سے ملنا جلنا سکھاتی ہے۔
آجکل کے اس نفسا نفسی کے دور میں اخلاقیات پر یعنی ادب پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اُسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل پیرا ہونے کی صورت ہے۔ کیونکہ “
انسان اچھے ہیں تو دنیا اچھی ہے ورنہ دنیا ویسی ہی ہے جیسے انسان۔ پھر چاہے علم حاصل کر کر کے ڈگریوں کے ڈھیر لگاتے جائیں، ادب نہیں تو علم بے معنی ہے۔ ڈگریاں کاغذ کا ایک ٹکڑا ہیں اور کچھ نہیں۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.