ہوتی نہیں ہر بات کِسی بات سے مشروط
وہ عِشق ہی کیا ہو جو کِسی ذات سے مشروط
قربت ہے تو کیونکر ابھی حالات سے مشروط
کیا دِن کا اجالا ہے گئی رات سے مشروط
موقوف تواضح پہ محبّت نہیں ہوتی
ہو گی نہ ملاقات مدارات سے مشروط
ہم ایسے تو فاقوں سے ہی مر جاتے ابھی تک
ہوتا جو یہاں رزق عبادات سے مشروط
محفوظ نہ دیکھے کہیں ذی روح زمیں پر
ہے زیست ابھی ارض و سماوات سے مشروط
صد حیف جو دنیا ہے یہ الفت سے تہی دست
ہو گا نہ کبھی پیار مفادات سے مشروط
کیا خاک رویّہ ہے اکابر سے یہ تیرا
ہوں گی نہ دعائیں تِری اوقات سے مشروط
حاصِل ہوئی از خود جو اسے دولتِ تخئیل
اِنسان کی عظمت ہے خیالات سے مشروط
ارفع ہیں وہی لوگ جو کرتے ہیں مشقّت
یارو ابھی دن رات ہیں حرکات سے مشروط
دیکھی وہ جو تبخیر حرارت کا نتیجہ
برسات بھی از خود ہے بخارات سے مشروط
انسان کو عظمت کبھی حاصل ہی نہ ہوتی
ہوتی یہ اگر کشف و کرامات سے مشروط
جینے ہی کی خاطر ہوئی ہر ایک تگ و دو
ہر چند یہ کوشش ہوئی خدشات سے مشروط
بےکل یہ مصائب ہیں جو خود اس کی عنایت
کیونکر ہیں عنایات بھی صدمات سے مشروط
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.