غزل انتخاب ” جان تغزل”، مبصر : ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم

You are currently viewing غزل انتخاب ” جان تغزل”، مبصر : ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم

غزل انتخاب ” جان تغزل”، مبصر : ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم

مبصر ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم

اہتمام :قلم قافلہ کھاریاں(پاکستان)، سن اشاعت:دسمبر 2022ء ، صفحات :132، قیمت: دعابرائے حیات، بعد از وفات

 دوہزار تیئس  نے آنکھ کھولی تو میری آنکھوں کے سامنے گل بخشالوی کا شاہکار انتخاب ” جانِ تغزل” موجودہے۔132صفحات پر 170شاعروں کا گلستاں بہار دکھا رہا ہے۔ اس گلستاں میں دنیائے اَدب کے نامور اہلِ سخن کا کلام عطر بیز ہے۔ یہ کارنامہ ا س کاروانِ اَدب کا ہے جو ایک متحمل انسان ہیں۔ ا ن کے مزاج میں نجانے کون سا لطف اور ذائقہ موجود ہے جو دنیا بھر کے اہلِ سخن کے لیے باعثِ کشش ہے۔ اَدبی صحرا نوردی گل بخشالوی کا خاصا ہے۔ وہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی میں ایک مدت سے کام کر رہے ہیں۔ ا ن کی زبان اور جذبے ایک دوسرے کے ساتھ بغل گیر رہتے ہیں اور وہ دوستوں کے ساتھ جھومتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔

 غزل کی اساس تغزل ہے ، شاعری کی معراج غزل ہے۔ گل بخشالوی اپنی ذات میں جانِ تغزل ہیں۔ دکھ وہ مظہر ہے جورشتوں کی بنیاد قائم رکھتاہے۔ گل بخشالوی جدید و قدیم رنگوں میں شعری سانچے تخلیق کرتے ہیں۔ وہ تنہا محوِ پرواز رہنے کے بجائے دوستوں کوشاعری کے پَروں پر بیٹھا کر دنیائے اَدب کی سیر کرواتے ہیں۔ ا نھوں نے خود کو علم و اَدب کی آبیاری کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ کورونا اور ڈینگی ایسے مضر ماحول میں بھی وہ کسی نقطے پر ایک لمحے آرام کے لیے نہیں رکے۔ا ن کے ہاں زندگی گمان نہیں بل کہ حقیقت ہے۔ وہ لفظوں کی ہجرت پر یقین رکھتے ہیں۔ خیال آفرینی ا ±ن کا ایک ایسا وصف ہے جس نے شاعروں ، ادبیوں کے قبیلے کو ایک سائبان تلے لا کھڑا کیا ہے۔ اہلِ قلم سے مستقل رابطہ ، ا ن کی تخلیقات سے جان کاری ، دوستوں سے یاداللہ اور سچائی کی تلاش گل بخشالوی کی زندگی کا مقصد ہے۔ ا ن کا فلسفہ ء حیات میرے مرشد ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒکی طرح مقصدیت کا فروغ ہے۔ ا نھوں نے تخلیق کاروں کو ایک لڑی میں پرونے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا ہے۔ ا ن کی ذات ہفت آئینے رکھتی ہے جن میں دوستوں کی خوبیاں نظر آتی ہیں۔ وہ نئی جہات اور منفرد تخلیقی شہ پاروں کو یکجا کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ محبت ا ن کی شخصیت کا طرہ ءامتیاز ہے۔ عجز و انکساری ا ن کی کامیابی کا اہم جزو ہے۔ وہ دوستوں کے دل میں جھانکتے ہیں اور ا ±ن کی تخلیقات کو قرطاس و قلم کے ذریعے دوستوں تک پہنچاتے ہیں۔ نفسانفسی کے اس دور میں ایسے لوگوں کا وجود بڑا غنیمت ہے جو اپنی ذات سے بالا تر ہو کر دوسروں کے کام آتے ہیں۔ ا ن کا تازہ کارنامہ ” جانِ تغزل” اِسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس نے غزل کو توانائی اور رعنائی عطا کی ہے۔

 “جانِ تغزل “2022ء گل بخشالوی کی ایسی تالیف ہے جس میں پاکستان کے علاوہ بھارت، امریکہ، برطانیہ، ملائیشیا، قطر، آزاد کشمیر، فرانس، جرمنی، سویڈن اور جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے تقریباً 170شعرا و شاعرات کا کلام ان کے رابطہ فون نمبر اور ان کے جائے قیا م کے ساتھ بہار دکھا رہا ہے۔ رنگا رنگ کے غزلیاتی پھولوں نے ایک گلستاں سجا دیا ہے جس کی خوشبو خطہ ءختن کی طرح پر کشش ہے۔ایبٹ آباد کے بابائے اَدب سلطان سکون کی پر سکون شخصیت اور کراچی کے فیروز ناطق خسرو کی سرپرستی نے قلم کافلہ کی اس کاوش کو مہمیز لگائی ہے۔ گل بخشالوی تصنیف و تالیف کے لیے کسی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے سے مالی اعانت حاصل نہیں کرتے بلکہ گھر پھونک تماشہ دیکھنے کے عادی ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں ایسے بے لوث کام پر انھیں اہلِ اَدب کی طرف سے تمغہ ءامتیاز ملنا چاہیے۔ گل بخشالوی ادب میں ہمہ جہت خوبیوں کے حامل ہیں۔ ان کی شخصیت اور فکر و فن کے حوالے سے رسائل و جرائد میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ تمام شاعروں اور ادیبوں نے ان کی ادب کے لیے کی گئی خدمات کو خوب سراہا ہے۔ گل بخشالوی نے مزدور کی عظمت سے لے کر شاعروں اور ادیبوں کی فنی صلاحیتوں کے بارے میں گل صنوبرکی طرح لفظ معطر کیے ہیں۔ اصولِ فطرت ہے کہ جو شخص دوسروں کی خوبیوں کا اعتراف کرتا ہے اس کی صلاحیتوں کا بھی اعتراف کیا جاتا ہے۔ گل بخشالوی اپنی ذات میں ایک تحریک کا درجہ رکھتے ہیں۔انھوں نے اپنے بارے میں “تعارفی خاکہ ” میں لکھا ہے کہ

” میں 30مئی 1952 ءکو پیدا ہوا ، والدین نے میری شناخت کے لیے میرا نام سبحان الدین رکھا اور گلشن ادب میں آج میری پہچان گل بخشالوی ہے گورنمنٹ ہائی سکول نوشہرہ میں آٹھویں جماعت تک باقاعدہ تعلیم حاصل کی میرے والد محترم اسرار الدین ( مرحوم ) ، اے سی سینٹر نوشہرہ کے چونگی نمبر ۲ میں عبدالحکیم خان کے مال گودام میں ملازم تھے غربت کو میں نے سنا نہیں بل کہ انتہائی قریب سے دیکھا ہے۔

 انیس سو پینسٹھ میں پاک فوج کی دادِ شجاعت پر میرا دل دھڑکنے لگا میں تعلیم ادھوری چھوڑ کر1966ء میں وطن عزیز کا سپاہی بن گیا لیکن شعور کی پرواز کچھ اور تھی ذہن نے پاک فوج میں مزدور سپاہی اور افسر بادشاہ کے فرق کو تسلیم نہیں کیا۔ جون 1968 ء میں پاکستان کے وزیر خارجہ ذوالفقارعلی بھٹو نے ایوبی مارشل لاء کے خلاف تحریک جمہوریت کے علم بلند کر دیا تو مارشل لاء او رجمہوریت میں فرق کے احساس نے میرے شعور و فکر کو جھنجھوڑا میرے وجود میں لفظ کے رِدم میں کہنے کا جذبہ مچلنے لگا میں اس وقت کھاریاں چھا ونی میں پاکستان فوج کا سپاہی تھا سخت پابندیوں کے باوجو د میں کھاریاں شہر میں جی ٹی روڈ پر کاروان ِ جمہوریت کے قائد ذوالفقارعلی بھٹو کے تاریخی استقبال کو دیکھنے چلا آیا۔۔۔ 1971ء کی جنگ سے پہلے پاک فوج کو میں نے خیر باد کہہ دیا اور واہ فیکٹری میں ملازمت اختیار کر لی واہ فیکٹری کے ہفت روزہ واہ کاریگر کے ایک شمار ے میں استاد دامن کی ایک نظم شائع ہوئی تھی میں نے اس نظم کے جواب میں ایک مزاحیہ نظم کہی جو بغیر کسی سے اصلاح لیے ہفت روزہ کو دے دی اور وہ شائع ہوگئی یہ میری اردو کی پہلی نظم تھی واہ فیکٹری میں ملازمت کے دوران پرائیویٹ طور پر میٹرک کا امتحان پہلی پوزیشن میں پاس کیا تو حوصلہ ملا اورایف کا پرائیویٹ امتحان دیا لیکن انگریزی میں تین نمبر کم ہونے کی وجہ سے فیل کر دیا گیا حالاں کہ دوسرے تمام مضامین میں پہلی پوزیشن میں پاس تھا چونکہ انگریزی نہ تو میری مادری زبان تھی نہ قومی اس لیے پاس نہ کر سکا اور میری خواہش کے باوجود میری تعلیم انگریزی کی وجہ سے ادھوری رہ گئی۔۶۷۹۱ ء میں واہ فیکٹری میںملازمت چھوڑ کر کھاریاں چلاآیا اور جوروکے بھائی گل محمد ساجن کے ساجن ہوٹل کا انتظام سنبھال لیا۔ 1982 ء میں والد صاحب کے ساتھ حج کی سعادت سے سرفراز ہوا اور1983 ء میں کھاریاں شہر کی کھاری بستی میںپہلی ادبی تنظیم “بزم گل ” تشکیل دی جو بعد میں قلم قافلہ بن گئی اس طرح اردو ادب سے میرا باقاعدہ رشتہ قائم ہوگیا۔”

  یہ وہ حقائق ہیں جو گل بخشالوی نے خود اپنے تعارفی خاکہ میں لکھے ہیں کہ انھوں نے کس طرح محنت اور لگن کے ساتھ اردو ادب کی خدمت کی ہے۔ انھوں نے ملازمت چھوڑ کر کھاریاں میں ساجن ہوٹل کا انتظام و انصرام سنبھال لیا اور پھر اسی میں محنت کرتے رہے۔ تاہم انھوں نے ادب سے اپنا رشتہ استوار کرنے کے لیے سخت محنت کرتے رہے۔ گل بخشالوی نے ادب میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں کہ ان کی شخصیت کو دیکھ کر رشک آتاہے کہ گل بخشالوی نے اپنی زندگی کے ایک طویل عرصہ ادب کے صرف کر دیا ہے اور اللہ پاک نے انھیں عزت و احترام کی وہ منزلیں عطا کر دی ہیں ان کے فن اور ادبی خدمات پر تین تحقیقی مقالہ جات بھی لکھے جا چکے ہیں ، ان پر اہل قلم نہ صر ف مضامین لکھ رہے ہیں بل کہ ان کے فکر و فن پر نہایت شاندار کتاب کی اشاعت بھی ہو گئی ہے۔ عامر عثمان عادل نے ایک بڑے ادیب اور شاعر گل بخشالوی پر مختلف اہل قلم اور ناقدین کی آراء کو ایک کتاب ” اعتراف ” میں اکٹھا کر کے بہت بڑی علمی وا دبی خدمت انجام دی ہے۔ گل بخشالوی نے کھاریاں میں ادبی تقریبات اور کل پاکستان مشاعروں کا سلسلہ شروع کیااس ضمن میں وہ لکھتے ہیں :” سیاسی افق کی ممتاز شخصیات کی تشریف آوری کے ساتھ ساتھ دنیائے اردو ادب کی ممتاز شخصیات ادبی نشستوں او ربین الاضلاعی مشاعروں میں شرکت کے لیے آتے اور قیام کرتے ہیں۔ جن میں ڈاکٹر وزیر آغا ، انور مسعود اور احمد فراز کے نام قابل ذکر ہیں۔ جناب احمد فراز نے قلم قافلہ کے زیر اہتمام قومی سطح کے دو مشاعروں کی صدارت کی چوںکہ میں نہ تو صاحب زبان ہوں اور نہ ہی غم روزگار اور خانگی غربت نے تعلیمی میدان میں مجھے آگے بڑھنے کا موقع دیا یوں مجھے مطالعہ کا وقت نہیں ملا اس لیے بس جو ذہن میں آیا دل نے تسلیم کیا کہہ دیا لکھ دیا کسی کی تنقید پر توجہ نہیں دی اور نہ ہی اپنی ذات کی توہین سمجھا۔”

  گل بخشالوی نے نامساعد حالات میں محنت شاقہ سے کام لیا۔ وہ اکتوبر 1999 ء کو وطن عزیز سے غم روزگار کے سلسلہ میں سعودی عرب چلے گئے وہاں سے برطانیہ اور پھر امریکہ میں دس سال ایک جنرل سٹور سیون الیون پر ملازمت کرتے رہے اس دوران قلم و قرطاس رشتہ منقطع رہا۔ جب ان کے دونوں بیٹے شاہد بخشالوی اور امجد بخشالوی ساوتھ افریقہ میں کاروبار کرنے لگے وہ جب اپنے پا ﺅ ں پر کھڑے ہوگئے تو انھوں نے اصرار کیا کہ وہ ملازمت چھوڑ کر پاکستان چلے جائیں اور اپنی مرضی سے زندگی گزاریں۔ گل بخشالوی نے قلم و قرطاس سے دوبارہ رشتہ جوڑ ا اور انتخاب ( کتابیں) شائع کرنے لگے۔ ا ن کے فکر وفن پر عامر عثمان عادل کی کتاب “اعتراف ” بھی منظرِ عام پر آچکی ہے۔ جس میں ا ن کے فکر و فن پر مختلف محققین ، ناقدین ، مفسرین اور مفکرین کی آراءشامل ہیں۔

 گل بخشالوی نہایت خوش قسمت ہیں کہ ان پر اس وقت کے اہم ترین شعرا ، ادبا ء اور ناقدین نے لکھا ہے کہ جن کا ایک اک حرف قیمتی اور رائے مستند ہے میرا فرمایا ہوا کے مصداق ہے۔ ان کے فکر و فن پر جن نابغہ روزگار ہستیوں نے لکھا ہے ان کے نام پڑھ کر آنکھیں ادب سے جھک جاتی ہیں۔” کراچی کے نامور تخلیق کار فیروز ناطق خسرو کا ابتدائیہ ادبی رنگ میں ڈھلا ہوا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

 “گل بخشالوی اَدب میں ہمہ جہت خوبیوں کے حامل ہیں۔ ان کی شخصیت اور فکر و فن کے حوالے سے رسائل وجرائد میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ تمام شاعروں اور ادیبوں نے ان کی اَدب کے لیے کی گئی خدمات کو خوب سراہا ہے۔ گل بخشالوی نے مزدور کی عظمت سے لے کر شاعروں اور ادیبوں کی فنی صلاحیتوں کے بارے میں گل صنوبر کی طرح لفظ معطر کیے ہیں۔ اصولِ فطرت ہے کہ جو شخص دوسروں کی خوبیوں کا اعتراف کرتا ہے اس کی صلاحیتوں کا بھی اعتراف کیا جاتاہے۔ گل بخشالوی اپنی ذات میں ایک تحریک کا درجہ رکھتے ہیں۔ ” گلِ اَدب حاجی گل بخشالوی نے اپنی بات میں لکھا ہے :

 “آج غزل میں درخشاں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ ا ردو شاعری کو دنیائے ا ردو اَدب میں نمایاں مقام حاصل ہے لیکن دور حاضر میں ایسے بھی شعراءو شاعرات ہیں اگر ان سے شاعری کے رموز کے لیے کسی مستند استاد سے اصلاح لینے کے لیے کہا جائے تو برامان جاتے ہیں حالانکہ میں انھیں اپنی مثال دیتا ہوں کہ زندگی کے آخری عشرے میں بھی اپنا کوئی ایک شعر بھی کسی شاعر کو سنانے سے پہلے اپنے استاد محترم سے مشورہ ضرور کرتاہوں میں برملا اعتراف کرتاہوں مَیں نے ابھی تک خود کو شاعر تسلیم نہیں کیا اگر دنیائے ا ردو اَدب میں میری کوئی پہچان ہے تو یہ میری شاعری نہیں بل کہ ا ردو اَدب کی خدمت ہے۔”

   گل بخشالوی کی اپنی بات صرف اپنی نہیں بل کہ ہم سب کی نمائندہ تحریر ہے۔ 170شعراءکرام کا یکجا ہونا اَدبی اتحادہے۔ چھوٹی بڑی بحورمیں جھلملاتی غزلیں ، گل بخشالوی کے انتخاب کی مظہر ہیں۔ “جانِ تغزل” میں شامل کلام احترامِ آدمیت کے چراغوں سے منور ہے۔ کثیر الموضوعات پر مشتمل یہ گلدستہ نظرِ بینا سے دیکھنے قابل ہے۔ گل بخشالوی نے “جانِ تغزل” اپنی مٹھی میں لے کر شاعروں ، ادیبوں کو متحد کر دیا ہے۔اس شعوری اور اَدبی خدمت پر گل بخشالوی کو جتنی شاباش دی جائے وہ کم ہے۔ ا ±ن کی مرتب کردہ کتابوں میں شاعروں ادیبوں کا جمِ غفیر دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے کھاریاں کو اَدبی کنٹرول سنٹر بنا دیا ہے اور وہ محبت کے ریموٹ کنٹرول سے دوستوں کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے رہتے ہیں۔

-٭-


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.