تحریر:معوذ رؤف حسن
پیارے ساتھیو! سانپ اور نیولے کی دشمنی سے کون واقف نہیں، چلئے آج آپ کو انہی کے متعلق ایک کہانی سناتے ہیں جن کی لڑائی سے ایک بندر نے خوب فائدہ اٹھایا.
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک جنگل میں شیروں کی بجائے نہر کے ایک کنارے سانپوں کا قبضہ جبکہ دوسرے کنارے پر نیولوں کا راج تھا. دونوں کناروں پر بادشاہ اپنی اپنی رعایا پر پوری آب وتاب سے حکمرانی کر رہے تھے.گویا اس کنارے اور اس کنارے اپنی اپنی راجدھانیوں میں سب بہت خوش تھے اور چین کی بانسری بجا رہے تھے۔لیکن ان کا یہ سکوں و اطمینان اور چین سے رینا ایک شرارتی بندر کی آنکھ میں کھٹکنے لگا۔ہوا یوں کہ ایک مرتبہ ایک بندر کا اس راستے سے گزر ہوا جسے اس کے بادشاہ شیر نے اس کی شرارتوں سے تنگ آکر اپنے جنگل سے نکال باہر کیا تھا.وہ اب بھٹکتا ،مارا مارا کبھی اس جگہ کبھی اس جگہ دھکے کھاتا پھر رہا تھا۔ہر جگہ سے اس کی شرپسند طبیعیت کے باعث اسے مار بھگایا جاتا۔نیولوں نے بھی جب اسے اپنے علاقے میں دیکھا تو اسے مار بھگایا. ہانپتا کانپتا نہر کو پار کرکےجب دوسرےکنارے پہنچا تو سانپوں کی خوفناک پھنکار نے اسے وہاں سے بھی دم دبا کر بھاگنے پر مجبور کر دیا. نیولوں والے کنارے کے آخری حصے میں ایک بہت بڑاپھل دار درخت تھا اس نے اس کے گھنے پتوں میں چھپ کر جان بچائی. حیرت انگیز طور پر نیولے اس درخت کی جانب کم و بیش ہی جاتے.بندر کی تو چاندی ہوگیٔ، مزے سے پھل کھاتا وہاں دن گزار رہاتھا.لیکن اس کی طبیعیت چونکہ شرارت پر کمر بستہ رہتی تھی، اچانک ہی ایک دن اس کے شیطانی دماغ میں خیال آیا کہ کیوں نہ اس خوبصورت جگہ پر قبضہ کر لیا جائے.کیٔ دن اس نے کویٔی ترکیب سوچنے میں لگا دیے۔ایک دن وہ ٹکٹی باندھے اس گھنے درخت کے چوڑے تنے پر لیٹے ہوۓ جنگل کا بغور جا ئزہ لے رہا تھا کہ اس کے دماغ میں ایک جھماکہ سا ہوا اور اسے ایک ترکیب سوجھ ہی گیٔ۔وہ دبے پاؤں چلتا ہوا سانپوں کے دربان کے پاس پہنچا اور اسے اعتماد میں لیتے ہوئے خوشامدانہ انداز میں بولا ”براہ کرم مجھے مت مارو، پہلے میری بات سن لو،اور پھر رازدارانہ انداز اپناتے ہوۓ اس کے کان میں سرگوشی کی, ”میں تمہارے بادشاہ کے لئے ایک اہم خبر لایا ہوں، مجھے بادشاہ سلامت کے پاس لے چلو۔“ سانپوں کا بادشاہ شیش ناگ اپنے بل میں سر دئے آرام فرما رہا تھا. اس کو جگانا کوئی آسان کام نہیں تھا۔گھنٹوں انتظار کے بعد جب اس نے آنکھ کھولی ۔دربان نے ڈرتے ڈرتے اجازت چاہی اور اس کے قریب جا کر گفتگو میں مصروف ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد اس نےبندر کو اس کے حضور پیش کر دیا.بندر نے ہاتھ باندھے اور بولا” بادشاہ سلامت عرض یہ ہے کہ“ ”جلدی بولو!“سانپ اس زور سے پھنکارا کہ بندر کانپ کر رہ گیا ،لیکن اس نے ہمت باندھ کر اپنی بات دوبارہ شروع کی۔”حضور بات یہ ہے کہ،نیولوں کے بادشاہ نے اپنے آپ کو آپ سے ذیادہ طاقتور سمجھتے ہوئے آپ کے خلاف جنگ کی تیاری شروع کر دی ہےتاکہ وہ آپ کے علاقے پر بھی قبضہ جمالے“ . اس نے بات مکمل کرنے کے بعد اک لمبی سانس لی اور ایک طرف ہو کر کھڑا ہو گیا۔شیش ناگ نے اپنی گول گول آنکھوں کو گھمایا،کچھ دیر سوچا اور پھر آخراس کی بات پر جیسے یقین کر لیا. اس کی گول گول آنکھیں شعلے اگلنے لگیں اور پھنکار ہیبت ناک ہونے لگی. اس نے بل کھاتے ہوئے اپنے کمان دار کو آواز دی. بندر کا مقصد پورا ہو چکا تھا. اس نے اجازت چاہی اور نیولوں کی راجدھانی کا رخ کیاجہاں نیولا کافی دیر سے اونگھ رہا تھا.اس کے ننھے بچے پاس ہی اچھل کود میں مصروف تھے۔اپنے سامنے بندر کو دیکھ کر وہ دربان پر غضبناک ہونے کا سوچ ہی رہا تھا کہ دربان نے ہاتھ باندھتے ہوۓ عرض کی ۔
”حضور بات ہی کچھ ایسی ہے کی مجھے اس ناہنجار کو آپ کے پاس لانا پڑا،ورنہ اسے دھکے دے کر اپنے علاقے سے نکال باہر کیا جاتا“, ”بولو کیا کہتے ہو؟“نیولا سیدھا ہو بیٹھا اور بندر سے مخاطب ہوا۔بندر نے نہایت عاجزی کے ساتھ سانپوں کی جنگی تیاریوں سے متعلق نیولے بادشاہ کو آگاہ کیا تو بغیر کچھ سوچے سمجھے ہی اس کی رگیں تن گئیں، تھوتھنی اوپر کو اٹھ آئی اور وہ آگ بگولا ہو کر ادھر ادھر چکر لگانے لگا. اس کے بچے کھیلتے کھیلتے اس کے سامنے سے گزرے تو اس نے ان کو بھی غصہ دکھاتے ہوۓ ایک ایک لات رسید کی۔بندر نےاپنے منصوبے کو کامیاب پا کر دل ہی دل میں خوش ہوتے ہوۓ، خاموشی سے اپنی راہ لی. کچھ ہی دیر میں دونوں طرف کے جانور اپنی طاقت دکھانے کے لئے پوی تیاری کے ساتھ ایک دوسرے کے خلاف صف آراء تھے.دونوں طرف کے جانور ایک دوسرے پر بڑھ چڑھ کر حملہ آور ہو رہے تھے۔پھنکاریں مارتے سانپ اور لپک لپک کر حملہ آور ہوتے نیولے۔بندر ان کو لڑوا کر اپنے درخت پر بیٹھا خاموشی سے تماشہ دیکھتا رہا. جب ذرا جنگ ٹھنڈی پڑتی وہ کسی نہ کسی بہانے دشمنی کی آگ کو بھڑکا دیتا. کیٔ روز تک یہ جنگ جاری رہی آخر کار اپنے کئ حامی جنگ کی نظر کر کے نیولہ بادشاہ اور شیش ناگ دونوں ہی زخموں سے چور نڈھال پڑے تھے. ان کو کمزور پاکر اب بندر حرکت میں آیا اس نے د ونوں کا خاتمہ کر کےاپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا،اور باقی بچ جانے والوں نیولوں کو مجبوراً اسے اپنا بادشاہ تسلیم کرنا پڑا۔اب جنگل کا یہ کنارا ہو یا وہ کنارا دونوں طرف بندر کی حکومت تھی۔
کہانی کا سبق:
سچ کہتے ہیں اپنی طاقت کے مظاہرے کی بجائے موقع پرستوں سے بچنے کی تدبیر کرنی چاہئے۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.