کشمیر کے منقسم خاندانوں کا مشترکہ المیہ

تنویر حسین چوہدری 

کشمیریوں کی کئی نسلیں ایک آزاد وطن میں واپس جانے کا خواب لئے دنیا سے رخصت ہو گئیں – ہم بھی یہی سپنا آنکھوں میں سجاۓ اس بات کے منتظر ہیں کہ کب ہجر اور غلامی کی یہ سیاہ رات ختم ہو گی

کشمیر میں اپنے وطن کے لئے ہجرت کرنے والوں کے کیسے کیسے ارمان تھے ۔ جو سینے میں لیے اپنی حیات پوری کر چکے۔ میں اس تحریر میں اپنے خاندان کے کچھ واقعات کا احوال آپ کے سامنے رکھوں گا –

میرے دادا حضور حضرت سائیں محمد انسان اور انسانیت سے اتنا انس کرتے تھے ۔ کہ کبھی کسی کی غلطی پر بھی اسے برا نہیں کہتے تھے۔ بلکہ کہا کرتے تھے “اللہ تیرا بھلا کرے ”-۔انکی زندگی صرف قرآن الکریم کے ساتھ جڑی ہوئی تھی۔ ایسا ان کی اوائل عمری ہی سے تھا.

جب میرے دادا حضور اور میرے والد گرامی نے تیسری بار 1965 میں ہجرت کی۔ یہ ہجرت انہوں نے پونچھ، مہنڈر سے کی – پھر آزاد کشمیر میں بھی صرف دو سال ضلع کوٹلی میں ریے۔ بعد ازاں والد گرامی ظفر علی روڑ لاہور منتقل ہوگئے۔ اور اپنے اک دیرینہ دوست، محمد یوسف اعوان کے پاس ٹھہرے ۔ جنھوں نے والد گرامی کی محکمہ انہار میں ملازمت کروائی ۔ اس لحاظ سے وہ ہمارے محسن ہیں-

کچھ عرصہ بعد والد گرامی نے سرکاری رہائش گاہ کو چھوڑ دیا ۔ اپنا ذاتی گھر بنانا چاہا ۔ تو میرے دادا حضور کے الفاظ تھے- بیٹا یہاں گھرنہ بناؤ کشمیر نے آزاد ہو جانا ہے۔ اور ہم اپنےگھرپونچھ واپس چلے جائیں گے .

دادا کے چھوٹے بھائی، چودھری محمد حسین مرحوم کی رہائش گوجرانوالہ کینٹ میں ہے۔ جب ان کا وقت نزع قریب تھا- میں فوری شیخوپورہ سے انہیں دیکھنے کے لئے گیا – تب وہ ہسپتال میں تھے۔ ان کی طبیعت بہت مضطرب تھی۔ بار بار میرے والد گرامی کا پوچھ رہے تھے۔ میں نے پوچھا، دادا جان کوئی دل کی بات کریں۔

انہوں نے کہا “بیٹامیں جب مر جاؤں، مجھے سلواہ ، ہمارا آبائی گاؤں، تحصیل مہنڈر ضلع پونچھ کشمیر ، کی مٹی  میں دفن کرنا

اس وقت ان کی بیٹی بھی ساتھ تھی لیکن انھوں نے اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا -انہیں وطن کی مٹی چاہیے تھی وہ بھی اپنی  قبر کے لئے.اس کے بعد چند لمحات وہ زندہ رہے اور پھر دار فانی کو کوچ کر گئے-

میرے نانا محترم محمد زمان مرحوم سفر کر نے سے بہت ذیادہ  کتراتے ہوتے تھے۔ بلکہ ایسے کہنا ذیادہ مناسب ہو گا وہ سفر صرف اتنا کرتے ہوتے تھے۔ جہاں تک پیدل جا سکیں -۔مشرف دور میں انٹرا کشمیر سفر پرمٹ پر منقسم کشمیری  خاندانوں کو ملانے کا سلسلہ ہوا شروع ہوا۔ تو نانا جان اپنے چچا ذاد بھائی کو مقبوضہ کشمیر میں ملنے کے لئے گئے۔

شاہدین بتاتے ہیں، دوسرے دن جب اپنی زمین پر، جہاں بچپن گزارا تھا ۔ جہاں ماں و باپ کی سنگت میں وقت گزرا تھا، گئے اک پگڈنڈی پر چلتے چلتے بیٹھ گئے،

مٹی کو دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر کہنے لگے “-میری قبر پریہ مٹی ڈالنی ہے.” خدا کا کرنا دیکھیے یہی جملے بولتے ہوئے ان کی روح پرواز کر گئ-


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content