! ڈاکٹر کی ڈائری
ڈاکٹر اسدامتیاز
سنڈے سپیشل گدھا نامہ ! بانو قدسیہ صاحبہ نے راجا گِدھ لکھی۔ میں نے سوچا راجا گدھا ہی لکھ دوں۔ ویسے کہیں پڑھا تھا کہ گدھے ہمارے بھائ ہیں۔ شائید مُستنصر حسین تارڑ صاحب کی کتاب کا نام تھا
ویسے ضروری نہی کہ جو گدھا دِکھتا ہو وہی گدھا بھی ہو۔ امی کہتی تھیں جو کہتا ہے وہی ہوتا ہے۔۔
ویسے گدھا ایک معصوم بلکہ تھوڑا بے وقوف سیدھا ساداجانور مشہور ہے۔ لیکن بہت ضدی بھی۔۔ یہ تمام خصوصیات جب کسی انسان میں ہوں اکٹھی تب کہیں جا کر پیدا ہوتا ہے چمن میں”گدھا کہیں کا”۔ گدھا بہت مُستقل مزاج،جفاکش اور محنتی جانور ہوتا ہے۔ اور مالک کا وفادار بھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس پہ اکثر اسکی برداشت سے زیادہ بوجھ ڈالا جاتا ہے ۔
اور ہو سکتا ہے کہ اسے خود بھی احساس ہی نہ ہوتا ہو۔ اسی لئے یہ منہ گرائے چلتا جائے۔ بس چلتا جاے۔۔
اس لئے اگر زندگی میں ہمیں کبھی ایسی ہی فیلنگ آئے۔ اور بے جا بوجھ اٹھائے،ٹانگیں فضا میں معلق ہوئ محسوس ہوں۔ تو کوی بھی مماثلت محض اتفاقی نہ ہو گی۔۔
تارڑ صاب اپنی کتاب گدھے ہمارے بھای ہیں میں لکھتے ہیں۔ کہ پاکستان میں آبادی کے تناسب کے اعتبار سے دنیا بھر میں سب سے زیادہ گدھے پائے جاتے ہیں۔ اور ان میں سب گدھے ہی نہی گدھیاں بھی بہت ہیں۔ ورنہ اتنے گدھے کہاں سے آ جاتے؟
ایک تھا ملا نصیرالدین ۔ کرتا تھا باتیں نمکین ۔ کام تھا اس کا احمق بننا۔ سیدھی بات کو الٹا کرنا ۔ کھانے پینے کا شوقین ایک تھا ملا نصرالدین۔ اس سے ہیں منسوب لطیفے ۔ مزے مزے کے ڈھیروں قصے ۔ خوشیوں کی تھا ایک مشین۔ ایک تھا ملا نصرالدین۔ ایک گدھا تھا ۔ اس کے پاس ایک گدھی تھی۔ جس کی ساس اور بچے تھے اس کے تین۔ ایک تھا ملا نصیرالدین۔
جی بلکل 1208 میں تُرکی میں حورتو گاوں میں پیدا ہوے۔ وہ اور انکا مشہور زمانہ گدھا کوی افسانوی کردار نہی۔ بلکہ حقیقی کردار تھے۔ انہوں نے اپنی مزاح نگاری اور برجستہ حکایت گوئ کی وجہ سے بہت شہرت پائ (نوٹ! مُلا مزاح نگار مشہور تھے،گدھے ویسے ہی مشہور ہو جاتے ہیں)۔
خیر ایک دن مُلا اپنے گدھے کو چھت پر لے گئے۔ جب نیچے اتارنے لگے تو کسی صورت نہ اترے۔۔ کچھ دیر بعد مُلا نے محسوس کیا کہ گدھا کُھروں سے چھت کو توڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مُلا بھاگے گئے اسے روکنے کی کوشش میں دولتی کھا کر نیچے آ رہے۔ اور بالآخر گدھا بھی چھت سمیت نیچے آ رہا۔
مُلا کافی دیر اس واقعہ پر غور کرتے رہے۔ اور پھر خود سے کہا۔ کبھی بھی گدھے کو مقام بالا پہ نہی لے جانا چاہئیے۔ ایک تو وہ خود کا نقصان کرتا ہے اور دوسرا اس مقام کو بھی خراب کرتا ہے۔ اور تیسرا اوپر لے جانے والے کو بھی خراب کرتا ہے۔
آج جب اچھے وقتوں کی تین سال پرانی یہ یاد (ویسے ہو سکتا ہے کہ جو چل رہا ہے وہی وقت اچھا ہو اور مجھے ہی خبر نا ہو) یونیورسل سٹوڈیوز سنگاپور میں شیرک مووی کے میرے فیورٹ کردار ڈونکی کیساتھ لی گئ۔ یہ فوٹو نظر سے گزری۔ تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس وقت بھی حسِ ظرافت پھڑک اٹھی تھی۔ اور آج بھی۔۔
لیکن اب کہتے ہیں کہ ڈاکٹر کا ہے اندازِ بیاں اور ۔ مجھے یہ ڈر ہے ، دل زندہ تو نہ مر جائے۔ کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے۔
ڈاکٹر اسد امتیاز ابو فاطمہ
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.