You are currently viewing ز بان کی حفا ظت کیوں اور کیسے ؟| سعدیہ اجمل

ز بان کی حفا ظت کیوں اور کیسے ؟| سعدیہ اجمل

از:سعدیہ اجمل

زبانﷲ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے.یہ وہ عضو ہے جس کے ذریعے انسان اپنے جذبات واحساسات کی ترجمانی کرسکتا ہے.زبان کی اہمیت کا صحیح اندازہ مجض وہ شخص ہی لگاسکتا ہے جس کے منہ میں زبان موجود تو ہے لیکن وہ اس کے استعمال پر قادر نہیں.ﷲتعالیٰ کا فرمان ہے،

“اَلَمْ نَجْعَلْ لَّه عَیْنَیْن وَلِسَانًاوَّ شَفَتَیْن

ترجمہ:کیا ہم نے انہیں دو آنکھیں اور ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں دیے؟”

کسی بھی چیز کے متعلق یہ بیان کرنا کہ وہ موجود ہے یا معدوم,خالق ہے یا مخلوق,خیالی ہے یا حقیقی زبان ہی کا کام ہےاور زبان ہی ہر چیز کے متعلق نفی یا اثبات کرتی ہے.اگر ہمارے پاس زبان کی نعمت نہ ہوتی تو ہم ہر چیز کی کیفیت تو معلوم کرلیتے لیکن اس کو بیان نہ کرسکتےاور اس طرح بہت سی باتیں خود تک محدود ہوکر رہ جاتیں.

جس طرح زبان خیر کے میدان میں دوڑ سکتی اسی طرح شر کے میدان میں بھی اسے کوئی شکست دینے والا نہیں.اس لئے زبان پر قابو رکھنا نہایت ضروری ہے.

نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے۔:

” من صمت نجا “

”جو خاموش رہا اس نے نجات پائی“

اسی طرح آپﷺ نے زبان کی حفاظت کی ضمانت دینے والے شخص کی جنّت کی ضمانت لی ہے.

ایسا شخص جو زبان کو قابومیں نہیں رکھتا اس کی ڈور شیطان کے ہاتھ میں آجاتی ہےاور وہ اس سے جو چاہتا ہے کہلواتا انجامِ شر کی طرف لے جاتا ہے. زبان کا دائرہ بہت وسیع ہےیہ اکثر ایسی برائیوں کا باعث بنتی ہے جو شرعی,اخلاقی اور معاشرتی طور پر ناروا سمجھی جاتی ہیں.اس کے نقصانات بہت زیادہ ہیں یہ فرش سے عرش پر لا پٹختی ہے.عربی میں ایک مقولہ ہے:

“اللسان جسمه صغیر و جرمه کبیر و کثیر”

“زبان کی جسامت تو بہت چھوٹی ہے لیکن اسے جرائم بڑے اور بہت زیادہ ہیں”

بسااوقات انسان بہت متقی وپرہیزگار  ہوتا ہے لیکن اس کی زبان سے کوئی ایسی لغزش سرزد ہوجاتی ہے جس سے اسکی ساری ریاضت بیکار جاتی ہے.زبان کی مثال شعلے کی سی ہے جو اگر بھڑک جائے تو سب کچھ جلاکر راکھ کردیتی ہے. اسی لئے کہا جاتا ہے کہ “پہلےسوچو پھر تولو پھر بولو۔”

زبان کو قابو میں رکھتے ہوئے اس کے معاملے کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے نیز اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کرناچاہیے کہ اگر ہماری احتیاط کی گرفت زبان پر ڈھیلی پڑگئی اور یہ چھوٹی سی چیز ہمارے بس میں نہ رہی تو ہماری خیر نہیں۔.

زبان کے شر سے وہی شخص محفوظ رہ سکتا ہے جو اسے شریعت کی لگام پہنائے,سنت کی زنجیریں ڈالے اور صرف اس وقت آزاد کرے جب کوئی ایسی بات کرنی ہو جو دین و دنیا کے لئے مفید ہو.اس کو ایسی ہر بات سے روکے جس کی ابتدا یا انتہاء سے برے انجام کی توقع ہو۔.

امام غزالی رحمہﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انسان جو باتیں زبان سے نکالتا ہے اس کی چار قسمیں ہیں.

(١)ایسی باتیں جن کے کرنے سے صرف فائدہ ہو

(۲)ایسی باتیں جن کے کرنے سے صرف نقصان ہو

(٣)ایسی باتیں جن میں نہ فائدہ ہو اور نقصان بھی ہو

(۴)ایسی باتیں جن میں فائدہ بھی ہو نقصان بھی

ایسی باتیں جن میں صرف نقصان ہو ان سے پرہیز کرنا ہی بہتر ہے اور وہ باتیں جن میں نہ فائدہ ہے نہ نقصان تو اس سے بھی بچتا رہےکیونکہ زبان کواس میں مشغول کرنا محض وقت کا ضیاع ہے اور ایسی بات جس میں فائدہ بھی ہو اور نقصان بھی اس سے بھی بچنے کی کوشش کرے۔.

رہی ایسی باتیں جن میں فائدہ ہی فائدہ ہو تو اس میں زبان کو مشغول کرنا برائی کی بات نہیں لیکن اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اس میں بھی ابتلاءِ آفت کا خطرہ ضرور ہے اکثر ایسے کلام میں ریاء و تصنع,خوشنودیِ نفس اور فضول باتوں کی آمیزش آجاتی ہے اور یہ تمیز کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ کہاں لغزش ہوئی۔.

حاصل یہ ہے کہ ہر صورت میں خاموشی اختیار کرنا بہتر اور نجات کا ذریعہ ہے کیونکہ زبان کی آفتیں ان گنت ہیں اور ان سے بچنا سخت مشکل ہے, الّا یہ کہ زبان کو بند ہی رکھا جائے۔

Leave a Reply