تحریر: ذوالفقار علی بخاری
کس نے سوچا تھا کہ دس سالوں کے بعد پاکستانی کرکٹ ٹیم میں جگہ بنالینے والا فواد عالم اپنے آپ کو یوں منوا لے گا کہ اُس پر تنقید کرنے والے لب کشائی کرنے سے بھی گریزاں ہو جائیں گے کہ آخر کس ناکردہ گناہ پر اُس کے ساتھ اتنا ظلم کیا گیا ہے۔یہ محض ایک کھلاڑی کے ساتھ نہیں ہوا، یہ برسوں سے ہو رہا تھا مگر کوئی بھی کھلاڑی اپنی جگہ قائم رہ کر خود کو منوانے کے لئے مسلسل جہدوجہد نہیں کر پا رہا تھا۔
ہر ایک کی ایک مخصوص قوت برداشت تھی جس کی بناء پر انہوں نے ایک خاص وقت کے بعد کھیل کو چھوڑ دینے میں ہی عافیت جانی،مگر فواد عالم نے اپنی فولادی قوت ارادی سے کام لیتے ہوئے خود کو فولاد سا بنا لیا کہ کچھ بھی ہو اب خود کو منوا کر ہی دم لینا ہے۔فواد عالم آج کے نوجوانوں کے لئے ایک بہترین مثال بن چکا ہے کہ آپ محنت کرو تو ایک دن آپ کو اس کا پھل بھی ضرور ملے گا۔
بھئی یہ کوئی عام بات نہیں ہے کہ آپ ملک سے باہر جا کر کھیلو اور اپنے پہلے ہی کرکٹ ٹیسٹ میچ میں سنچری کرلیں، چلیں آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ کوئی ”تکا“ ہو، یہ تو نا قابل فہم ہی بات ہے کہ کوئی مسلسل اچھا کھیل رہا ہو اور آپ پھر بھی کہو کہ یہ تو کوئی بھی کر سکتا ہے،اپنے ملک میں کھیل کے معیار، بولرز کو کم صلاحیت قرار دے کر کسی کو جھٹلانا بد ترین سوچ کہلائی جا سکتی ہے۔
آپ اولین میچ میں سنچری کرنے والوں کو کسی طور بھی کم صلاحیت قرار نہیں دے سکتے ہیں کہ یہ ہمیشہ عظیم کھلاڑی ہی ہوتے ہیں،مگر آپ بھرپور مواقع اس لئے نہیں دیتے ہیں کہ وہ کہیں پرچی اور سفارش پر آنے والوں کا راستہ بند نہ کر دیں۔یہی دیکھ لیں کہ نیوزی لینڈ کے بعد پاکستان میں پہلی مرتبہ کھیلنے والے فواد عالم نے سنچری کرکے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس کے ساتھ جان بوجھ کر زیادتی کی جا رہی تھی۔ایک ایسا کھلاڑی جو کہ فرسٹ کلاس کرکٹ میں بڑے ناموں کو پیچھے چھوڑتا نظر آتا ہے وہ کسی بھی طور معمولی کھلاڑی قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔
آپ فواد عالم کے ریکارڈز کو دیکھیں، وہ آپ کو قومی کرکٹ ٹیم میں مواقع ملنے پر ٹی 20 میں بھی نچلے نمبروں پر اسکور کرتا جہاں نظر آتا ہے، وہیں اب مڈل آرڈر میں بھی اُس نے کافی اسکور کر دیئے ہیں اور ون ڈے میں بھی کسی سے کم تر نہیں ہوگا، کم سے کم اسد شفیق، افتخار احمد اورحارث سہیل کی نسبت اچھی تکینک سے کھیلنے کی اہلیت رکھتا ہے اور اسکور بھی کر سکتا ہے۔
اب فواد عالم کو تینوں طرز کی کرکٹ میں کھیلنے کا موقعہ دینا چاہیے کہ اُس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ڈومیسٹک کرکٹ میں کھیلنے والے قومی کرکٹ ٹیم میں آنے کے بعد بھی اپنی اچھی کارکردگی دکھا سکتے ہیں،مگر اس کے لئے بھرپور اورمسلسل مواقع ملنا ضروری ہیں۔
ابھی تک کا آپ ریکارڈ دیکھیں کہ اکثر کھلاڑی اپنی قسمت کے بل بوتے پر ٹیم پر آئے اور کافی سال کھیل گئے۔مگر کچھ اپنی دال روٹی محض ڈومیسٹک کرکٹ میں کھیل کر ہی پوری کرتے رہے کہ اُن کی کوئی سفارش نہ تھی کہ قومی سطح پر کھیلتے۔، قومی ٹیم میں محض نوجوان کھلاڑیوں کو ہی نہیں بلکہ اس کھیل کو زندگی دینے والے اور ڈومیسٹک کرکٹ میں عمدہ کھیل سے دل موہ لینے والوں کو بھی مواقع دینے چاہیں، اب وہ چاہے فکسنگ میں پکڑے گئے ہوں مگر آپ نے خود کھیلنے کا موقعہ دیا ہے تو پھر آپ کو قومی سطح پر بھی کوئی قدغن نہیں لگانی چاہیے۔
یہاں تابش خان اور صدف حسین، عثمان صلاح الدین کو محض عمر اور کم صلاحیتوں کا حامل کہہ کر نہیں کھلایا جاتا ہے۔ یہاں یہ بات سوچنے کی ہے کہ اگر ہم نے فواد عالم اور اس جیسے کئی کھلاڑیوں کو قومی کرکٹ ٹیم میں نہیں لیا تو اس میں نقصان کس کا زیادہ ہواہے۔یہ ہمارے ملک کی کرکٹ ٹیم کا ہی نقصان ہوا ہے کہ آج وہ باصلاحیت کھلاڑیوں کی موجودگی کے باوجودتنزلی کا شکار ہے۔
فواد عالم کو جہاں موقعہ نہیں دیا گیا ہے، وہیں ہم اپنے سابق کپتان سرفراز احمد کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں، کیا یہی قومی ہیروز کی خدمات کا صلہ ہے۔ابھی وہ بھرپور طور پر اپنی خدمات دے سکتے ہیں مگر ہم اُن کو کھلانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔اگر کوئی مواقع ملنے پر خود کو نہیں منوا سکتا ہے تو پھر اُسے دوبارہ موقعہ نہ دیں مگر عابد علی جیسے کھلاڑیوں کو وقت پر نہ کھلانا کس کا قصورتھا۔ فواد عالم کو مسلسل کارکردگی دکھا نے کے بعدبھی ٹیم میں شامل نہ کرنا ایک ایسا نقصان ہے جس کا ازالہ اب ممکن نہیں ہے مگر اب اس کو بھرپور مواقع ملتے رہنے چاہیں تاکہ نوجوان کھلاڑی اس کھیل سے جڑیں یہ نہ ہو کہ یہاں کی بجائے باہر کھیلنے کو ترجیح دیں۔
یہ المیہ ہے کہ محض ٹی 20 پی ایس ایل کے ایک سیزن کے بعد کرکٹرز قومی سطح پر کھیلنے کے اہل ہو جاتے ہیں جبکہ برسوں اچھی کارکردگی دکھانے والے ملک کی نمائندگی کا خواب لیے کھیل کے میدان سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ کرکٹ بورڈ ایک قانون بنا دے کہ جو کھلاڑی جس فارمیٹ میں ٹاپ پانچ کھلاڑیوں میں شامل ہوگا وہ اُس فارمیٹ میں تقریباََ کم سے کم دو سیریز جس میں کم سے کم تین میچز لازمی کھیلنے کا موقع دینا ہوگا تاکہ اسکی صلاحیتوں کو بھرپور طور پر جانچنے کا موقع مل سکے، یہ نہیں کوئی اچھا کھیلے بھی تو بھی اُسکو مزید اچھا کھیلنے کا درس دینے کا کہا جائے ۔
اور وہ عمر رسیدہ ہو جائے تو عمر کو وجہ بنا کرکسی اور سفارشی کھلاڑی کو مواقع دیئے جائیں۔ اس حوالے سے نئے کھلاڑیوں کو متبادل رکھ کر بھی ایک یا دو میچوں میں مواقع بھی دے کر آزمایا جا سکتا ہے تاکہ وہ بوقت ضرورت کھیل سکیں۔اسی طرح سے ہی ملک میں کرکٹ کو فروغ دیا جا سکے گا جب میرٹ پر نوجوانوں کو آگے بڑھنے کا موقعہ ملے گا۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
You must be logged in to post a comment.