فوزیہ ردا ایک با صلاحیت اور محنتی نثر نگار اور شاعرہ ہیں جنھوں نے بہت کم عرصے میں اردو شاعری اور ادب کی دنیا میں میں اپنی الگ پہچان اور جگہ بنائی ہے- فوزیہ ردا بلا شک و شبہ نئی نسل کی نمائندہ شاعرہ ہیں جنھیں مشکل خیالات کو دل نشیں انداز و مختصر بحر میں قاری اور سامع تک پہنچانے کا ملکہ حاصل ہے ۔ ان کے غیر مطبوعہ کلام کا ایک وافر ذخیرہ اشاعت کا منتظر ہے لیکن وہ ادب میں مقدار سے زیادہ معیار کی قائل ہیں۔ فوزیہ ردا کو 2018 میں گفتگو پبلی کیشن ہندی میگزین کی جانب سے سبھدرا کماری ایوارڈ سے نوازا گیا۔ جنوری 2022 میں آل انڈیا اردو ماس کمیونیکیشنل سوسائٹی فار پیس کی جانب سے اردو زبان و ادب کے فروغ میں اہم ترین کردار ادا کرنے کے لئے انہیں “اردو انمول رتن ایوارڈ” سے نوازا گیا۔
فوزیہ ردا کا تخلیقی سفر زندگی کے ابتدائی حصے میں شروع ہو گیا تھا۔ وہ تاریخی انجمن گرلز سکول میں دسویں جماعت کی طالبہ تھیں جب اسکول میگزین میں ان کی پہلی کہانی “احساس شکست ” شائع ہوئی۔ اسکول کے ایام میں ان میں افسانے اور ڈائجسٹ پڑھنے کا شوق بھی بیدار ہو چکا تھا – وہ دہلی سے شائع ہونے والے ادبی جریدے ماہنامہ پاکیزہ آنچل کی مستقل قاری تھیں۔ اردو کے ادبی اور ثقافتی مرکز سے دوری کے باوجود موقر ادبی جرائد کے مطالعے نے دبستان دہلی کی زبان و بیان کی سلاست کے رنگ نے ان کے ذوق اور تحریر پر گہرے نقوش مرتب کئے جس کی جھلک ان کے اندازِ تحریر میں جھلکتی اور لہجے میں چھلکتی ہے۔ فوزیہ ردا نے ایک ایسے سماجی اور تہذیبی ماحول میں آنکھ کھولی جو قلمی دوستی کے مشغلے اور مشرقی روایتوں کی پاسداری کا عہد تھا جس میں فوزیہ نے بھی ایک قلمی سہیلی کے ساتھ مراسلت میں اپنے ادبی ذوق کو جلا بخشی۔ فوزیہ ردا کولکاتا یونیورسٹی میں گریجوئشن میں سائنس کی طالبہ تھی لیکن ان کا دل شعر و ادب میں اٹکا ہوا تھا اس لیے اردو کی پرائیویٹ تدریس کے ذریعے اپنے شوق کی تکمیل کرتی رہیں۔
ان کی مادری زبان اردو ہے اس کے علاوہ انگریزی اور بنگلہ زبان بھی روانی کے ساتھ لکھ، پڑھ اور بول سکتی ہیں ۔فوزیہ اختر ردا صاحبہ خاموش طبع مگر بہت غور و فکر کی شخصیت کی مالک شاعرہ ہیں وہ نہ صرف اپنے ماحول اور معاشرے پر گہری نظر رکھتی ہیں بلکہ اردو زبان و ادب سے گہری وابستگی اور محبت کے باعث اس کا مکمل ادراک بھی رکھتی ہیں۔ فوزیہ کی شخصیت میں بے حد ٹھہراؤ ہے۔ان کا باوقار وجود ایک مخلص اور درد مند دل لئے ہوئے ہے۔ان کے کردار کی مضبوطی ان کی کامیابی اور ان کے ہر بڑھتے قدم کی ضمانت ہے۔ان کی اسی فطرت کا عکس ان کی شاعری میں بھی ملتا ہے۔
موصوفہ نے دو ہزار گیارہ میں سماجی روابط کے جدید ذرائع پر اپنی تخلیقات پیش کیں تو ہند و پاک سے لے کر دنیا بھر میں اردو دان طبقے اور شعر و ادب کے شائقین نے دل کھول کر سراہا۔ پٹنہ کے جناب خورشید عالم سے شاعری کے فنی پہلوؤں پر رہنمائی حاصل کی اور کولکاتا اور دیگر شہروں کے مشاعروں اور ادبی تقریبات میں شرکت کا سلسلہ شروع ہوا جہاں ان کی خیال آفروز شاعری ، منفرد انداز بیان سامعین اور ناظرین کے دلوں میں گھر کر گئے ۔ آل انڈیا ریڈیو سمیت ہند اور پاک کے متعدد ایف ایم سٹیشنز پر ان کی شاعری پیش کی جاتی ہے۔ وہ گزشتہ پندرہ سال سے زائد عرصے انڈیا کے موقر تعلیمی اداروں میں تدریس کا اعزاز رکھتی ہیں لیکن سیکھنے کی لگن و جستجو اور عاجزی کے غلاف میں لپٹی فوزیہ ردا خود کو ابھی نو وارد اور طفل مکتب تصور کرتی ہیں۔
انکساری میں لپٹی ہوئی ان کی یہ ادا اور منفرد انداز بیان شاعری کے باذوق قارئین کو اس قدر پسند ہے کہ عالمی آن لائن مشاعروں میں فوزا ردا کی موجودگی مشاعرے کی کامیابی کی سند سمجھی جاتی ہے۔ انھیں شاعری کے علاوہ نثر میں بھی دسترس حاصل ہے۔ ان کے افسانے موقر ادبی جرائد اور ویب سائٹس میں شائع ہوتے ہیں ۔
فوزیہ ردا کی تصانیف
نعتیہ مجموعہ “صاحب” صلی اللہ علیہ وسلم
سپتک (شعری مجموعہ) زیرا ہتمام پریس فار پیس فا ؤنڈیشن ( یوکے )
بچوں کی نظموں کا مجموعہ “حرف کھلونے” (زیر طبع)
فوزیہ ردا کے نمائندہ اشعار
قسمت میں جو نہیں تھا
اُس کا ملال کیسا
حُسن کی آن بان چلتی رہی
بے خودی بے تکان چلتی رہی
کم نظر کو سبھی کمتر ہی نظر آتے ہیں
دل کا رونا ہے کہ برتر نہیں دیکھے جاتے
جس نے دیوار اُٹھائی تھی مجھے کیا معلوم
ایک دن وہ اسے مسمار بھی کر سکتا ہے