تحریر: ساجد حسین منٹو
سائنس اور انسان آپس میں لازم وملزوم ہیں ۔ اور اس خاص نوعیت کے باہمی تعلق کا آغاز اسی روز ہو گیا تھا جس دن آسمانی وسعتوں میں موجود تخلیق کار نے مٹی کی مورت کو بنانے کے بعد اس میں عقل اور شعور ڈال کر اسے روز اول سے ہی دوسرے جاندار اور مخلوقات سے ممتاز کر دیا تھا۔ اگر انسان کے ابتدائی جیون کو کریدا جائے تو ہم پر یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ انسانی زندگی کا آغاز غاروں اور جنگلوں سے ہوتا ہے ۔
ننگے بدن اپنے زیست کی شروعات کرنے والے انسان نے اپنے شریر کو ڈھانپنے کیلئے درختوں اور جھاڑیوں کے بڑے بڑے پتوں کا استعمال جب شروع کیا تو یہ دنیا میں سائنس کا پہلا آغاز اور قدم تھا ۔ پھر اسی انسان نے جب اپنے شکم کی پیاس بجھانے کے لئے لیے اپنے سے تیز اور گھاتک مختلف جانوروں کا شکار اپنے بنائے ہوئے نوک دار ہتھیار سے شروع کیا تو یہ سائنس اور عقل کے استعمال کا دوسرا قدم تھا ۔
اس کے بعد اس عقل نے جب اسی شکار کیے گے جانور کو پکانے کے لیے پتھر سے پتھر کو رگڑ کر آگ جیسی نعمت کا سراغ لگایا تو یہ سائنس کا تیسرا قدم تھا۔ اس کے بعد شکار کے دوران جب پہلا جنگلی انسان گر کر زخمی ہوا تو اس جنگلی فرد نے اپنا زخم ٹھیک کرنے کے لیے جب جڑی بوٹیوں سے اپنے زخموں سے رستے خون کو روک کر درد سے راحت پائ تو یہ انسان کا چھوتھا بڑا قدم تھا۔ اس ڈارک ایج میں کسے معلوم تھا کہ غار سے نکلنے والے یہ چند ایک قدم مستقبل میں آسمان کی وسعتوں میں چہل قدمی کرنے والے ستاروں کے سر پر پہنچ جائیں گے؟
اپنے اس شروعاتی دور میں انسانی عقل نے مزید سائنسی قدم اٹھا کر ثابت کیا کہ عقل نے اپنی ارتقائی منازل طے کرنا شروع کر دیں ہیں۔ اور اب راستے میں پڑنے والی بڑی سے بڑی رکاوٹوں حادثات اور قدرتی آفات کو خاطر میں نہ لانے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ سائنس عقل ہے اور عقل خدا کی وہ دین اور نعمت ہے جس نے انسان کو دوسرے جانداروں اور دیگر مخلوقات میں اسے اشرف المخلوقات بنا کر ممتاز کر دیا ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ سائنس انسان اور مذہب کوئ علیحدہ چیزیں ہیں سرا سر غلط اور لغو ہے۔
قرآن میں ہے کہ ہم نے تمارے لیے لوہا پیدا کیا ہے۔ اور عقل والوں کے لیے اس میں نشانیاں ہیں ۔ اسی طرح اور بے شمار آیات بھی ہیں اس موضوع پر موجود ہیں۔ خدا عقل کے استعمال کی تاکید کرتا ہے نہ کہ روک لگاتا ہے ۔ اسی نے ہمیں یہ نعمت دی ہے۔ اسی غرض سے ہم اسے استعمال کر کے اپنے اور دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کریں ۔ یاد رہے کہ رب تعالٰی روز محشر عقل کا حساب بھی لے گا ۔ اور اس حساب کی پابندی سے دوسرے جاندار مستثنٰی ہوں گے ۔ جن کے پاس یہ سہولت موجود نہیں ہے ۔
تیر تلوار نیزہ زرہ بنا کر ہی اللہ کے نبی کریم نے کفار اور مشرکین کا مقابلہ کیا تھا۔ عقل کا استعمال کر کے ہی خود اپنے ہاتھوں سےخندق کھود کر ہی جنگ خندق میں اپنے سے بڑے دشمن سے سب کو محفوظ کیا تھا۔ برگزیدہ نبی کریم نے تدبیر کی تھی اور اپنے شعور کا بہترین استعمال کیا تھا ۔ نہ کہ بددعاوں سے کام چلایا تھا ۔
اللہ کی دی ہوئ نعمت سے انسان نے الفاظ بنائے، پھر مختلف زبانیں دریافت کیں۔ پتوں اور درخت کی چھالوں پر لکھنا شروع کیا ۔ مختلف موذی بیماریوں کا علاج دریافت کیا۔ غار اور جنگل کی زندگی کو خیر آباد کہہ کر، میدانوں میں شہر بسا کر ، تہذیب ثقافت کی بنیاد رکھ کے، جینا شروع کیا۔
ایک بڑے مفکر کا قول ہے کہ اپنی ابتدا سے آج تک انسان سے لیکر نباتات تک جو بھی انواع اقسام کی چیزیں بچی ہوئ ہیں وہ سخت موسمی حالات واقعات آفات اور حادثات کا مقابلہ کر کے ہی اب تک بچی ہوئ ہیں۔
سوچیے ذرا اگر انسان اپنی عقل کا استعمال نہ کرتا تو وہ کبھی بھی غار سے باھر نہ نکلتا۔ اور وہیں گھٹ گھٹ کر گمنامی کی موت مر کر ہمیشہ کے لیے ناپید ہو جاتا۔ ان نباتات اور جانداروں کی طرح جن کا کبھی کس زمانے میں اس دھرتی پر بھرپور وجود تھا ، سائنس اپنے ابتدا سے لے اکر آج تک انسان کو درپیش مسائل سے جوج رہی ہے۔ اور انسانیت کے لیے آسانیاں پیدا کر رہی ہے۔
مذہب اس کا مسلہ نہیں ہے ۔ انسان اور انسانیت کی بقاء اس کا مسلہ ہے۔ نہ تو آج تک خدا کے مقابلے میں سائنس نے کوئی خدا بنایا ہے اور نہ ہی کوئ الگ مذہب یا فرقہ دریافت کیا ہے۔ اگر کسی سائنس دان نے قدرت کے اصولوں کو چیلنج کیا ہے تو وہ اس کا انفرادی فعل ہے ۔ سائنس کا وہ کبھی مشترکہ بیانیہ نہیں رہا ہے ۔ آپ اس سے دلیل اور شعور بنیاد پراختلاف کر سکتے ہیں ۔ اس کے نظریات کو ثبوتوں کے ساتھ مسترد کر کے آپ نوبل انعام بھی حاصل کر سکتے ہیں ۔
سائنس کی خوبصورتی یہ ہے کہ اگر سائنٹسٹ اپنی تھیوری اج پیش کرتا ہے تو کل کوئی دوسرا سائنٹسٹ دلائل کے ساتھ اسے رد کر سکتا ہے۔ اور ایسا روز اول سے ہو رہا ہے۔ مختلف نظریات پیش کیے جاتے ہیں ۔ اور کچھ عرصے بعد دلائل کے ساتھ چیلنج اور مسترد بھی ہو جاتے ہیں ۔ سائنس دلائل کے ساتھ ضد نہیں کرتی ہے۔ اس لیے یاد رکھیں سائنس کو حرام کہنے والے یا اسے مذہب کے متوازی یا مخالف کوئ شے سمجھنے والے جان لیں ایسا ہر گز نہیں ہے ۔ کہ سائنس مذاہب کے متوازی کوی چیز نہیں ہے ۔
سائنس اور انسان کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ اور یہ ساتھ قیامت تک رہے گا ۔ کیوں کہ اس رشتے کی بنیاد رب تعالٰی نے رکھی تھی ۔ سائنس کا کوئ دھرم نہیں ہے ۔ یہ بغیر کسی رنگ و نسل تعصب کے سب ادیان کی خدمت کر رہی ہے۔ اگر سائنس کی برقی اور صوتی دریافت یہودیوں کے مقدس مقامات پر لگئ ہیں تو وہ مسلمانوں عیسائیوں اور دیگر چھوٹے بڑے مذاہب کے مقدس مقامات پر بھی لگی ہوی ہیں۔ برسوں سے سوئے ہوئے پہاڑوں کے سینے چاک کرکے ان کے دل گردے اور کلیجے نکال کر جو خوبصورت اور ٹھنڈے پتھر سنگ مرمر کی شکل میں بنائے جا رہے ہیں۔ وہ خوبصورت پھتر اگر ہیکل سلیمانی میں لگے ہیں ، تو وہ مکہ مدینہ منورہ اور کرتار پور میں بھی لگے ہوئے ہیں ۔آج یمن کے حوثیوں کے مکہ اور مدینہ پر میزائل حملے سائنس کے بنائے ہوئے پیٹریاٹ ہی فضا میں نا کام بنا رہے ہیں ۔
سائنس کے انسانی زندگی پر ان گنت احسانات ہیں جنھیں ایک چھوٹے سے کالم میں سمونا نا ممکن ہے ۔ صرف ایک مثال دے کے اپنے کالم کا اختتام کروں گا کہ ہوائ جہاز کی ایجاد سے انسان کا اس کے مقدس مقام پہنچنا کتنا آسان ہو گیا ہے ۔ مگر حیرت اور پریشانی اس وقت بہت ہوتی ہے جب وہ لوگ بھی سائنس کی مخالفت کرتے ہیں جن کے باپ دادا سفری سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے حج عمرہ اور مقدس مقامات کی زیارت کی حسرت دل میں ہی لے کر اس جہاں فانی سے کوچ کر گئے تھے ۔ دوستو ! اگر ہم مسلمان اپنے زوال کی وجہ دریافت کریں تو صرف ایک ہی وجہ سامنے آتی ہے ۔ اور وجہ ہے علم اور سائنس کے میدان سے دوری۔ اگر ہم مسلمانوں نے دوسری اقوام کا مقابلہ کرنا اور اس امت کو ذلالت سے نکالنا ہے تو ہمیں علم اور سائنس کے میدانوں میں اترنا ہو گا ۔ کیوں کہ اس کے بغیر اب کوئی چارہ نہیں رہا ہے۔
You must be logged in to post a comment.