تحریر:  قیوم امام ساقی  /  فوٹو کریڈٹ: اعجاز الرحمٰن

آج سے چالیس سال قبل جموں کشمیر کا کلچر قطحی طور پر مختلف تھا  رہن سہن عادات  رسمیں اور روایات‘ لباس اور اخلاقی معیارات آج سے بلکل مختلف تھے- اگر آج سے  چالیس سال پہلے کے کشمیری معاشرے کی ثقافتی تعریف کی جائے۔ تو ہمیں اس وقت کے کشمیری معاشرے کو  فطری اور قدرتی اشتراکی سماج کہنا پڑے گا اس دور میں ہر کام مل جل کر کرنے کا کلچر تھا- گھر کی تعمیر سے لے کر شادی بیاہ اور دیگر سماجی تقریبات‘مل جل کر انجام دینے کا رجحان کشمیر سماج کا لازمی جز تھا۔ اس دور میں لوگوں کا معاشی انحصار کاشتکاری اور غلہ بانی تھا چناچہ زمینوں کی بوائی اور فیصلیں کاٹنے اور ان کو صاف کر کے اناج کی کوٹھڑی  تک پہنچانے کے لئے محلے کے افراد مل کر کام کرتے تھے۔

شراکت اوربھائی چارے کا کلچر 

اس دور کے کشمیر میں زمین کی پیداوار کو کہیں حصوں میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ اس میں سے باربر‘ یعنی نائی‘ لوہار۔ کمار یعنی برتن بنانے والے کے لئے سال بھر کی مزدوری اور  الگ کر دی جاتی تھی۔ عوام کی خوراک زیادہ تر مکئی  اورچاول  تھے۔ گندم کا استعمال بہت کم تھا۔ پوری ریاست میں مکئی کا استعمال بہت زیادہ تھا اور پوری ریاست کے ہر گاؤں میں پن چکیاں لگی ہوئی تھی جہاں یہ مکئی پسی جاتی تھی اس کے علاوہ ہر گھر میں ہاتھ سے گمائی جانے والی چکی بھی موجود ہوتی تھی۔

جس کو ایمر جنسی حالات  میں استعمال میں لا کر آٹا بنایا جاتا تھا اس دور کے جموں کشمیر کے ہر گھر میں آٹا پیسنے کی چکی اور (اوکھلی) ضرور موجود ہوتی تھی اس دور کی خواتین چکی اور اوکھلی کے استعمال میں ایک خاص تجربہ  رکھتی تھی اور وہ  اس قدر صحت مند اور طاقتور ہوتی تھیں کہ جفا کشی میں اپنی مثال آپ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور کی خواتین کی عمریں طویل ہوتی تھی کچھ خواتین ایک سو سال کی عمر کو پہنچ کر بھی گھر کے تمام کام خود کر لیا کرتی تھی۔

مرد بھی بے حد جفا کش تھے وہ سال کا زیادہ حصہ زمینوں کی بوائی اور فیصلوں کی کٹائی میں  لگے رہتے تھے  اور ستمبر سے دسمبر تک سردیوں کے لئے وقت لکڑی جمع کرنے اور مکانات کی تعمیر کے لئے مختص تھا  چونکہ اس دوران زمینوں کا پیداواری عمل رک جاتا تھا۔

خالص خوراک کی خود کفالت  

مکئی کی روٹی بھی کہیں طرح سے پکائی جاتی تھی۔ کچھ علاقوں میں یہ روٹی بھی باعقدہ تندور پر پکائی جاتی تھی اس کے پرا ٹھے بھی پکائے جاتے تھے اور اس کی روٹیاں چپاتی کی طرح بھی ہوتی تھی۔ یہ ایسا دور تھا جب ہر گھر میں وافر مقدار میں دودھ موجود ہوتا تھا چناچہ عام طور پر مکئی کی روٹی ساگ لیسی اور گھی اور دہی کے ساتھ کھائی جاتی تھی۔ پاکستان اور بھار ت سے خوراک درآمد کرنے کا کوئی رواج نہیں تھا۔  

اور نہ ہی ضرورت تھی اگر کسی علاقے میں گندم اور چاول کی فیصل نا کافی ہوتی تھی تو جموں کشمیر کے زیادہ زرخیز علاقوں سے یہ کمی پوری کر لی جاتی تھی اگرچہ اس وقت روپے پیسے کی کمی تھی لیکن اس کے باوجود لوگ اپنی زمینوں کی  خالص اور طاقتور خوراک کھانے کی وجہ سے صحت مند اور طاقتور تھے۔ انتہائی اطمنان بخش زندگی گزارتے تھے –

زمیندار اور کسان معاشرے کا کلچر

آج سے چالیس سال پرانا کلچر مکمل زمیندار اور کسان معاشرے کا کلچر تھا -عوامی اخلاقیات بھی فصل کی طرح زمینوں سے منسلک تھی تمام لوگ مل کر گھر بناتے تھے -مل کر فصلیں کا شت کرتے تھے۔ اور مل کر فصلیں کاٹتے تھے۔ زندگی کے ہر شعبے میں اخلاقی قدریں موجود تھی اس دور میں خواتین کے مشاغل انتہائی محنت طلب اور کھٹن تھے مثلاََ خواتین چکی پستی  چرخہ۔

کاتتی مال موشیوں کے لئے گھاس کاٹتی اور بہت دور دراز مقامات سے پانی لاتی تھی عام طور پانی لانے کا وقت صبح اور شام کو مختص ہوتا۔ مگر شامیں خواتین کی تفریح کا باعث بھی بنتی تھی کیونکہ محلے کے پانی پراپنے اپنے گھڑے اٹھائے یہ خواتین جمع ہوتی اور زندگی کے ہر معاملے پر گفتگو کرتی تھی۔ اس طرح ہر گھر کے حالات سے پورا محلہ بلکہ پورا گاؤ ں آگاہ ہوتا تھا۔  اس طرح پانی کے چشمے خواتین کے غم بانٹنے کا زریعہ بھی بن گئے تھے۔

شاد ی بیاہ کی یاد گار رسمیں

آج سے چالیس سال پہلے کی شادیاں بھی آج کی شادیوں سے بہت مختلف تھی۔ یہ انتہائی پر وقار شادیاں ہوتی تھی۔  ان شادیوں کی خاص بات یہ تھی کہ شادیاں  ایک سے دو ماہ تک جاری رہتی تھی۔ ان شادیوں میں بھی اشتراکیت کا بھر پور مظاہرہ ہوتا تھا۔ شادی چاہے کسی کی بھی ہو تمام رشتہ دار اور محلے والے اور برادری والے اس میں (نیادرے) پانجی کی صورت میں اپنا کنٹری بیوشن دیتے تھے۔

جموں کشمیر کے تمام علاقوں میں شادی کے تین  سے چار فنگشن ہوتے تھے پہلا فنگشن منگنی کافنگشن ہوتا تھا۔ دوسرا فنگشن منیائی کا فنگشن ہوتا تھا اور تیسرا اور چھوٹا فنگشن مہندی اور بارات ڈولی کا ہوتا تھا منگنی اور منیائی بارات ڈولی سے تقریباََ ایک ماہ پہلے ہو جایا کرتی تھی درمیانی عرصے میں دولہا ور دولہن تمام قریبی رشتہ داروں کے ہاں د عوتیں کھاتے  رہتے تھے کھانے کی دعوت بھی آج کل کی شادی سے کم نہیں ہوتی تھی دولہا اور دولہن باجے اور شنائی کی دھن پر چلتے ہوئے اپنے میزبانوں کے گھر پہنچتے تھے یاد رہے کہ دولہا اپنے رشتہ داروں کے ہاں دعوتیں کھانے میں مصروف ہوتا تھا اور دولہن اپنے خاندان اور ناطے رشتے میں دعوتیں کھاتی تھی۔  ایک سے دو ماہ تک باجے۔ ڈول اور سرنائی  دولہے اور دولہن کے ساتھ رہتے تھے۔۔

قدیم دیہی ثقافت کے رنگ 

کتنا اچھا وقت تھا  کتنی محبتیں اور خلوص تھا۔ ایک دوسرے کے لئے قربانی بے مثال جذبے تھے۔آہ کتنا اچھا کبھی نہ بھولنے والا وقت تھا۔ وہ سب کے ساتھ مل بیٹھ کر صبح سے شام تک محفلیں سجائے رکھنا۔ وہ شام کی رنگنیوں کا دل آویز منظر جب پانی کے چشموں پر خواتین کی رنگین محفلیں لگتی تھی۔ ہائے وہ ایسی شامیں جب عندلیب اور کوئل کی مترنم آوازیں آمدِ بہار کا اعلان کرتی تھی۔

ہو سکتا ہے عندلیب اور کوئل اب بھی نغمہ سرا ہوں لیکن آج ان کو  سننے والا نہیں۔ کیونکہ آج ہر شخص ناطے رشتے ہونے کے باوجود تنہا ہے بہت تنہا۔ آج ہماری سماعتیں فطرت کی نغمہ سرائی سے نا آشنا ہیں

مقامی گیتوں کی روایت 

شادی کے موقع پر پورے جموں کشمیر خواتین گیت اور سنگیت کی محفلیں سجایا کرتی تھی۔ خواتین کے یہ گیت دولہا اور دلہن کی تحسین اور خوشی کے دعا ہوتے تھے اور کچھ گیتوں میں جموں کشمیر تہذیبی پس منظر بیان کیا جاتا تھا۔ کبھی کبھی ایک عورت بھی گاتی تھی اور اکثر دو تین خواتین مل کر ان گیتوں کو سنگیت کی صورت میں ڈھالتی تھی۔ ڈھولکی اور ہرمونیم کی جگہ مٹی کا گھڑا درمیان میں رکھا جاتا اس سے ڈھولکی اور ہرمونیم کا کام لیا جاتا۔

یہ گیت کسی شاعر کے لکھے ہوئے نہیں ہوتے تھے بلکہ یہ گیت جموں کشمیر کے تاریخی اور ثقافتی حالات نے خود پیدا کر دئیے تھے۔ بلکہ زیادہ درست بات یہ ہے کہ یہ گیت دھرتی کی اپنی آواز اور اپنی تخلیق تھے۔ اس وقت کی ہر خاتون کام کے دوران کوئی نہ کوئی گیت ضرور گھنگناتی رہتی تھی- اس دور  میں اکثر گھر کچے ہوتے تھے۔ شادی والے گھر میں دو تین ہفتے پہلے ہی دیواروں کی لیپائی  اور سفید مٹی لگانے کا کام مل کرتی تھی  اور اس موقع پر بھی گیت سنگیت کی محفلیں سجتی تھی۔

ہجرت کا المیہ اور گیت 

 مجھے 1947کے بعد جموں شہر اور جموں کے دہی علاقوں سے ہجرت کر کے پاکستان آنے والی خواتین کے گیت اور سنگیت بھی سننے کا موقع خاص طور پر گجرنوالہ  اور حافظ آباد میں ملتا رہا ہے جو گیت وطن کی جدائی کے پس منظر کے عکاس تھے   مجھے ایسے گیتوں سے لطف اندوزہونے اور انہیں سمجھنے کا موقع ملتا رہا۔

ان گیتوں میں انہوں نے جموں شہر۔ اکھنور، مینڈر پونچھ سری نگر، بارہ مولولہ  اور دیگر بہت سے علاقوں کا حوالہ دے کر ان گیتوں کو لا زوال بنا دیا تھا۔ ان گیتوں میں یادِ وطن کے  حوالے سے وہ لفظ استعمال ہوئے ہیں جو عام طور پر محبت کرنے والے ہجر و فراق کی کفیت بیان کرتے ہیں ہر گیت جموں کشمیر کے کسی شہر کسی دریا اور کسی خاص منظر سے منسلک ہے ان گیتوں میں کشمیر کے موسموں اور پھولوں پھلوں کا ذکر اس مہارت سے کیا گیا ہے۔ کہ یہ گیت سنتے وقت آدمی ان وادیوں میں پہنچ جاتا ہے  ان گیتوں میں اپنی ہجرتوں اور پرائے دیس میں رہنے کی داستان بیان کی گئی ہے۔ ان گیتوں میں درد ہے محبت ہے اور جموں کشمیر کی تاریخ اور تہذیب کا حسن ہے۔ 

علاقائی اور مقامی زبانوں کے گیت 

جموں کشمیر کے گوجری گیت اور پونچھ کے پہاڑی گیت محمولی رد بدل کے ساتھ ایک جیسے تھے البتہ مظفرآباد اور وادیِ کشمیر کے گیتوں کا لہجہ اور زبان مختلف تھی۔ جموں کشمیر میں گوجری گیتوں کا اپنا ایک ا لگ اسٹائل تھا -گوجر ی گیت عجیب طرح کا سوز لیے ہوئے تھے گوجری گیت خواتین اور مرد دونوں گاتے تھے جب بھی کوئی کشمیری گوجری گیت گا رہا ہوتا  تو یوں لگتا تھا کہ کشمیر دھرتی خود گانے لگی ہے جموں کے ڈوگری گیتوں کا بھی اپنا حسن تھا -پہاڑی اور ڈوگری سسٹر زبانیں ہیں۔ جن کے گیت اور لہجہ بہت حد تک ایک جیسا

ہماری کوشش ہے کہ ان گیتوں کو تباہ ہونے سے بچایا جائے تاکہ یہ گیت ہمارے لوک ورثہ میں محفوظ  ہو سکیں مگر بد قسمتی سے یہ کام اب اتنا آسان بھی نہیں ہے۔کیونکہ ایک زمانے سے جموں کشمیر کی خواتین نے شادیوں اور دوسری سماجی تقریبات میں گیت سنگیت کی محفلین سجانا بند کر دی  ہیں۔ اور اس دوران سب کچھ بدل گیا ہے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جموں کشمیر کے لوک گیت اس وقت ہچکیاں لینے لگے تھے۔

جب پاکستان میں جنرل ضیاالحق نے اقتدار پر قبضہ کر کے ایک جمہوری حکومت کے وزر اعظم  ذولفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا تھا۔ اور پورے پاکستان اور پاکستان کے زیر قبضہ علاقوں میں  ضیاالحق  کا اسلام نافظ کر دیا گیا تھا۔ اس وقت جموں کشمیر میں مسلم کانفرنس آمریت کا ساتھ دے رہی تھی  چناچہ اس جماعت کی قیادت نے آزادکشمیر سے فنونِ لطیفہ اور ثقافتی میراث کے تمام قومی خزانوں کوایک سازش کے ذریعے تبا ہ کر دیا۔

پورے پاکستان سمیت آزادکشمیر میں ضیاالحق کے پیرکاروں نے گیت سنگیت کا گلہ گھونٹ دیا۔ یقناََ اس دور کے جہادی کلچر کے اثرات پورے جموں کشمیر پر پڑے تھے لیکن آزادکشمیر اس کلچر سے برائے راست متاثر ہوا- اب یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ اس پار جموں کشمیر کی خواتین ان گیتوں کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

گیت کی موت معاشرے کی موت ہے 

 ہو سکتا ہے کہ بہت سے لو گ اس بات سے اتفاق نہ کریں کہ گیت اور نفسیات کا آپس میں کیا تعلق ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ گیت اور انسانی نفسیات کا بہت گہرا تعلق ہے جب گیت مر جاتے ہیں تو سچ یہ ہے کہ وہ معاشرہ مر جاتا ہے جس کے گیت زندہ نہیں رہتے کیونکہ معاشرے کا کھتارسیز رک جا تا ہے۔ اور  معاشرتی کھتارسیز رکنے کا مطلب‘ ایسی موت ہوتا ہے جو آستہ آستہ معاشرے اور افراد کو اندر سے توڑ کر رکھ دیتی ہے۔ انہیں خبر بھی نہیں ہوتی کہ یہ سب کیسے ہو گیا ہے

Skip to content