شعبۂ ورلڈ ریلیجنز اینڈ انٹرفیتھ ہارمونی
Department of World Religions and Interfaith Harmony
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور (IUB)
مطالعاتی دورہ
تاریخ: 20 جون تا 24 جون
مدت: چار دن
نام: مریم محمد دین
طالبہ ، شعبۂ ورلڈ ریلیجنز
کہتے ہیں…سفر وہ واحد تجربہ ہے جو انسان کو کتابوں سے زیادہ سکھاتا ہے۔راستے صرف منزلوں تک نہیں لے جاتے،
بلکہ انسان کو اس کے اندر تک لے جاتے ہیں۔یہ سفر…نہ صرف زمین کے نقشوں پر تھا،بلکہ دل و دماغ کے نئے زاویوں،نئی سوچوں اور نرالی بصیرتوں کی طرف ایک خاموش پرواز بھی تھا۔میں، انعم،جسے دنیا میرے قلمی نام مریم محمد دین سے جانتی ہے،ایک مسافر، ایک طالبہ، اور ایک معلمہ…اس قافلے میں شامل ہوئی،جہاں نہ صرف راستے بدلتے تھے،بلکہ سوچنے کا انداز، دیکھنے کا زاویہ،اور جینے کا شعور بھی بدل رہا تھا۔یہ چند دن کا ساتھ…چند لمحوں کی رفاقت…
لیکن ایسا لگا،جیسے صدیوں کی تشنگی اس سفر نے سیراب کر دی ہو۔تو آئیے…میرے ساتھ اس سفر کے ایک ایک لمحے کو محسوس کیجیے…جہاں ہر منظر ایک دعا تھا،ہر قدم ایک درس،اور ہر خاموشی میں ایک کہانی چھپی تھی۔لیکن اس سب سے پہلے،آئیے ان اہم شخصیات کا ذکر کرتے ہیں جن کی بدولت یہ سفر ممکن ہوا۔
اس سفر کا آغاز چئرپرسن ڈاکٹر سجیلہ کوثر صاحبہ
اورڈاکٹر محمد خبیب صاحب کی سرپرستی میں قدیم علمی درسگاہ جامعہ اسلامیہ (اولڈ کیمپس، عباسیہ)، بہاولپور سے ہوا۔اس خوبصورت اور بامقصد سٹڈی ٹور کی تیاری میں کئی دن مشاورت اور منصوبہ بندی میں صرف ہوئے۔یہ محض تفریحی نہیں، بلکہ علمی، فکری اور روحانی بالیدگی کا سفر تھا،جہاں پاکستان کے دلکش نظارے بھی دیکھنے کو ملنے تھے،اور مکالمہ بین المذاہب ہم آہنگی جیسے سنجیدہ عنوان پر سیکھنے کا موقع بھی۔تیاریوں کے دنوں میں ہمارے محترم سینئر محمد مکی بھائی نہ صرف ہمارے رہنما تھے بلکہ حوصلہ افزائی کا مسلسل ذریعہ بھی بنے رہے۔محترمہ ڈاکٹر سجیلہ کوثر صاحبہ نے بہترین انداز میں ہمیں اس سفر کی اہمیت اور مقصد سے آگاہ کیا،جس کے باعث ہم میں سے ہر ایک نے پورے دل سے اس میں شمولیت کا ارادہ کیا۔ ہمارے ایم فل کے پہلے سیمسٹر کا آخری دن تھا، جب ہمیں اطلاع ملی کہ ہمارا طویل انتظار کیا جانے والا ٹرپ کچھ دن تاخیر کا شکار ہو چکا ہے۔یہ خبر سن کر ہم سب کچھ افسردہ رنجیدہ اور سنجیدہ سے ہو گئے۔ لیکن ہماری مہربان اور پرخلوص میم صاحبہ نے ہمیں تسلی دی، حوصلہ دیا،اور ہمارے ٹوٹے دلوں کو سہارا دینے کے لیے پیزا پارٹی کا اہتمام کیا۔ساتھ ہی ہمیں ایک عہد دے کر رخصت کیا کہ “آپ کا ٹرپ ضرور جائے گا”اور الحمدللہ! جو وعدہ کیا گیا، وہ نبھایا گیا۔اگلے ہی دن، رات آٹھ بجے،جامعہ اسلامیہ (عباسیہ کیمپس) سے ہمارے قافلے نے روانگی اختیار کی۔سامان کی سیٹنگ ایک بڑا کام تھا، جو مکی بھائی نے نہایت صبر اور محنت سے مکمل کروایا۔میم صاحبہ نے خود ہمیں اپنی نگرانی میں آرام دہ سیٹوں پر بٹھایا۔سر خبیب صاحب نے سفر سے متعلق ضروری ہدایات دیں، دعا پڑھنے کا کہا،اور اس کے بعد مکی بھائی نے نہ صرف دعا پڑھوائی بلکہ سفر کی اہم معلومات بھی فراہم کیں۔یوں بسم اللہ کے ساتھ ہمارےخوابوں کا سفر شروع ہو گیا۔شروع میں تو گاڑی میں ایک خاموش سا ماحول تھا،
لیکن جلد ہی سب باتوں میں مصروف ہو گئے۔میم اور سر کے ساتھ گپ شپ کا ماحول بن گیا۔اسی دوران سر احمد سے تعارف ہوا،تو معلوم ہوا کہ وہ عربی ڈیپارٹمنٹ کےلیکچرار ہیں۔تھوڑی ہی دیر میں کھانے پینے کا دور شروع ہو گیا۔کولڈ ڈرنک، چپس، بسکٹ… سب کچھ کھلنے لگا۔پیچھے کی نشستوں پر بیٹھے کچھ بھائی حضرات نیند پوری کرنے میں لگ گئے،گویا صدیوں کی تھکن اٹھائے ہوں!اور ہم اگلینشستوں پر بیٹھے شرارتوں اور ہنسی مذاق کے نئے منصوبے سوچتے رہے۔خانیوال کے قریب جب بھوک نے شدت پکڑی،تو عبداللہ کے بنائے گئے لذیذ سینڈوچز ہماری بھوک مٹانے کو آن پہنچے۔سفر کی تھکن اور رات کی خنکی میں یہ سنڈوچز واقعی کسی نعمت سے کم نہ تھے۔ایک ہاتھ میں سنڈوچ، دوسرے میں کولڈ ڈرنک، اور لبوں پر تبسم—ایسا منظر تھا جس نے سفر کی پہلی رات کو خاص بنا دیا۔کسی نے کہا: “عبداللہ بھائی، آپ نے تو کمال کر دیا!”تو ساتھ ہی قہقہے گونج اٹھے، اور باتوں کا سلسلہ دوبارہ چل نکلا۔پھر جب نیند نے آنکھوں پر دستک دی،تو گاڑی ایک جگہ رکی،اور اعلان ہوا کہ کچھ دیر آرام کرلیں، چائے پانی نوش فرمائیں۔ہم سب نیچے اُترے۔
میں اور میری ساتھی پہلے ٹک شاپ کی طرف لپکیں،جہاں چائے ملی۔ جو کہ بس اک گھونٹ بھر تھی!چائے کے ساتھ سینڈوچ ملا، جس نے مزا دوبالا کر دیا۔باہر بیٹھ کر چائے پی، حالانکہ چائے الاما شاء اللہ تھی ۔بس نام کی!گاڑی دوبارہ روانہ ہوئی،اور اب کلر کہار کے پہاڑوں کے دلکش نظارےہمارے ساتھ ہو گئے۔راستے میں ہم نے اسلام آباد کو کراس کیا،اور حسن ابدال سے کچھ مسافت پہلے ناشتہ کرنے کے لیے رُکے۔انٹری لیتے ہی سب کا پہلا کام موبائل چارجنگ لگانا تھا۔سر احمد اور ایک سینئر کے پاس ایکسٹینشن تھی،جس پر سب کے چارجرز فٹ آ گئے۔ اتحاد بین المسلمین کاخوبصورت مظاہرہ!ہمارے پس چارجر نہ تھا،تو عمران بھائی سے مانگ لیا،انہوں نے بھی چاہتے نہ چاہتے ہوئے دے ہی دیا۔اسی دوران اقراء صاحبہ نے اپنا موبائل پرس میں رکھ کر بھلا دیا۔میم سمیت سب فون کی تلاش میں لگ گئے۔مکی بھائی حسبِ روایت تھوڑا سا برہم بھی ہوئے،لیکن آخر کار موبائل ہینڈ بیگ سے برآمد ہو گیا۔
اقراء کا اعتماد قابلِ دید تھا،
فرماتی تھیں:”بس مل جائے گا، میں نے آیۃ الکرسی پڑھ لی ہے، توکل علی اللہ!”اس واقعے کے بعد سر احمد نے اعلان کیا:”اب اگر کسی کی کوئی چیز گم ہوئی، تو ہزار روپےجرمانہ!”اور پھر مجال ہے کہ کسی کا ایک روپیہ بھی گم ہوا ہو!اب ہم حسن ابدال پہنچ چکے تھے،جہاں ہمارے اس تعلیمی سفر کا پہلا اصل علمی مقصد پورا ہونا تھا:پیَر پنجہ صاحب پر ریسرچ ورک۔موبائل فون کے استعمال پر پابندی کے ساتھ اندر جانے کی اجازت ملی۔بھائی حضرات کے سروں پر سکھوں کےمخصوص رومال باندھے گئے،اور ہم سب احترامی انداز میں اندر داخل ہوئے۔جو منظر اندر تھا۔وہ آنکھوں کو دنگ کر دینے والا تھا!ایک حسین شہکار!پھر ہم اُس تالاب میں بھی پہنچے جہاں پیَر پنجہ کا نشان تھا۔کیا ہی مزے دار، ٹھنڈا ٹھار پانی تھا!اپنی تمام تر روحانی دلکشی کے ساتھ۔جو منظر اندر تھا…وہ آنکھوں کو دنگ کر دینے والا تھا!ایک حسین شہکار!پھر ہم اُس تالاب میں بھی پہنچے،جہاں پیَر پنجہ کا نشان تھا۔کیا ہی مزے دار، ٹھنڈا ٹھار پانی تھا!پانی ٹھنڈا تو تھا ہی،لیکن اس لطف کے ساتھ ہمیں بار بار اپنے اصل مقصد کی یاد بھی آ رہی تھا۔
یہ محض تفریحی سفر نہیں تھا،بلکہ ایک سٹڈی ٹور تھا،جو مکالمہ بین المذاہب کی منہ بولتی تصویر بن چکا تھا۔
الحمدللہ!ہمارا اخلاقی رویہ،
اور ریسرچ ورک —دونوں نے عملی صورت اختیار کی۔
اندر موجود سکھ خادموں نے نہایت عزت و وقار سے ہمیں خوش آمدید کہا،اور ہمیں وہ تاریخی واقعات سنائے،جو بابا گرونانک کی اس مقام پر آمد، عبادت، اور غور و فکر سے جُڑے تھے۔ہم نے سنا کہ کیسے بابا گرونانک یہاں کئی روز قیام پذیر رہے،اور اس تالاب کے پاس روحانی توجہ اور عبادات میں مشغول رہے۔
ان کی تعلیمات، سادگی، اور امن کا پیغام ہمیں ایک نئے زاویے سے سمجھنے کو ملا۔
یہ لمحے ہمارے لیے تحقیق، مشاہدہ اور مکالمہ۔ تینوں کا حسین امتزاج تھے۔گوردوارہ سے روانہ ہو کر اگلی منزل ناران کی جانب تھی۔یہ خوبصورت وادیوں میں، بادلوں کی شال اوڑھے کہیں کہیں برف سے ڈھکے بلند پہاڑ، اور ان کے درمیان خوبصورت سے گھر، بہتی ندیا، پانی کا شور..اللہ کی قدرت کی نشانیاں، پتھروں کا سینہ چیر کر بنائے گئے راستے۔اپنی تمام تر دلکشی و حُسن کے ساتھ ہمیں اپنی آغوش میں لیتے، آنکھوں کو ٹھنڈک بخش رہے تھے، اور سفر کی تھکن مانند پڑ رہی تھی۔ہم ہشاش بشاش ان نظاروں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ہر آبشار سے گزرتے خیال ہوتا کہ شاید ہمارا پڑاؤ یہاں ہو جائے،لیکن کئی ننھی سی آبشاروں سے گزر کر ہم ایک خوبصورت جگہ رُکے جہاں پتھروں کے بیچ بہتا پانی اپنی تمام تر رعنائی سے ہمیں اپنی جانب کھینچ رہا تھا۔اور ہم سب بس سے اترے اور آبشار کی جانب لپکے۔
ہاں، ذرا رکیے!اس لمحے ایک بات بتاتی جاؤں ۔ہمارے ٹرپ کے معزز ٹیچر سر احمد صاحب، اس دوران ایک دکان سے کیلے لے کر منہ دیوار کی جانب کیے مزے سے کھا رہے تھے۔اور ایسی صورتحال میں، اللہ نے مجھے وہاں نازل کر دیا، ہاہاہا!میں نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا:”سر! آپ چھپ کر کھا رہے ہیں؟”اور سر بھی قہقہہ لگائے بغیر نہ رہ سکے۔یہ منظر صرف ہم نے نہیں دیکھا، بلکہ ہمارے سینیئر فہیم بھائی نے بھی دیکھ لیا۔مسکراتے ہوئے ہم پھر چلے آبشار کی جانب۔ڈھلان والی جگہ تھی، بمشکل نیچے اُترے —اور ٹھنڈے پانی نے تو جیسے جنت کی نہروں کا لطف دے دیا ہو۔پانی کے درمیان رکھی کرسیوں پر براجمان ہوئے۔منظر کو کیمرے میں بند کرنے کی کوشش کی ٹیچرز، کلاس فیلوز، اور سینیئرز کے ساتھ یادگار تصویریں لی گئیں۔کچھ ہی دیر میں ہلکی سی بارش ہو گئی،اور بارش شروع ہوتے ہی ہماری میم صاحبہ کو سب کی فکر مزید لاحق ہو گئی۔انہوں نے فوراً ہمیں جلدی سے بس میں بٹھایا، اور یوں سفر دوبارہ شروع ہوا۔بارش ہمارے ساتھ رفیقِ سفر بنی ۔ہلکی ہلکی پھوار ڈالتی، ہمارے ساتھ ساتھ چلتی رہی،اور ہم سب مکالمے میں مصروف،اپنی اگلی منزل کی جانب یعنی ناران بٹل پہنچ گئے۔یہاں رات کے قیام کا انتظام تھا۔ننھی سی پہاڑی کو عبور کر کے، سر خبیب صاحب اور میم سجیلہ کوثر صاحبہ کی نگرانی میں ہم اپنے کمروں تک پہنچے۔کچھ دیر سامان رکھنے اور نماز ادا کرنے میں گزری،پھر ہم کھانے کے لیے ریسٹورنٹ کی جانب آئے۔
جہاں ہوائیں اپنے جوبن پر تھیں،اور ساتھ بہتی آبشار کا پانی۔اس کا شور رات کی تاریکی میں دل کو مسرور کر رہا تھا۔ہلکی پھلکی گپ شپ کے ساتھ چائے کا دَور چلا۔
اور ہم ادھر اُدھر گھومنے لگے۔
رات کے اس پہر، ہم آبشار کے قریب گئے۔بس تھوڑا سا قریب ہی تھے کہ پانی کی آواز دل کو تخیل کے نئے جہان کی جانب لے جا رہی تھی۔اتنے میں ہمارا پاؤں کیچڑ میں جا پھنسا ۔
افف!اسی لمحے عبداللہ آیا اور کہنے لگا:”آپی، چلیں! میں آپ کا پاؤں دھلواتا ہوں۔”اور یوں ہم اس ننھے سے فِش تالاب کے پاس آ گئے،جہاں سے تازہ ٹراوٹ مچھلی نکالی جا رہی تھی۔ہم نے اپنا پاؤں دھویا ۔
اور حسبِ معمول، ایڈونچر تو ہونا ہی تھا!ہمارا جوتا اُس تالاب میں گر گیا ۔قہقہہ!
اور پھر عبداللہ نے ہمیں نکال کر دیا۔آپ سوچ رہے ہوں گے: “یہ عبداللہ کون ہے؟”عبداللہ ہماری چیئرپرسن، میم سجیلہ کوثر صاحبہ کے بڑصاحبزادے ہیں —چھوٹے سے، لیکن سمجھدار اور اخلاق میں والدہ کی تربیت کا حسین شاہکار۔
پکچرز لیتے، ہنستے مسکراتے،
پھر ایک بار اُس ننھی پہاڑی کو عبور کرتے ہم اپنے کمروں تک آئے۔باہر کچھ دیر گپ شپ کی،پھر بستروں کی جانب راہ لی۔بی ایس کی اسٹوڈنٹس اور ایم فل کی سینیئر، نازیہ سے
اپنے سبجیکٹ یعنی ادیانِ عالم کے بارے میں کافی چیزیں ڈسکس ہوتی رہیں۔اور اس کے ساتھ ساتھ ہنسی مذاق کا دور بھی چلتا رہا۔اسی گپ شپ کے دوران کب نیند آئی، معلوم ہی نہیں ہوا۔اور صبح فجر کا الارم بج اُٹھا۔میں۔ یعنی انعم، عشاء، اور مریم۔ہم سب سے پہلے بیدار ہوئیں۔نماز ادا کی اور تیاری کی فکر میں لگ گئیں۔ہاں! یاد آیا، کہ اس دوران ایک اہم فکر تو موبائلز کی بھی تھی۔ہلکی پھلکی گپ شپ کے ساتھ تیاری شروع کی،تو استری والٹیج کی کمی کے باعث منہ چڑا رہی تھی۔
ہم نے عشاء سے کہا:”تم اپنی ناک میں سوئچ لگا لو!”اور اُس نے بھی فرماں برداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسا ہی کیا —بس پھر کیا تھا، ہمارے قہقہے گونج اٹھے!اور باقی سب بھی اس شور شرابے میں نیند سے بیدار ہونے لگے۔پھر کیا تھا…بس، جلدی جلدی بھاگم بھاگ تیاری شروع کی۔بیگ واپسی کے لیے پیک کیے،اور ٹرپ میں موجود بھائیوں نے ہمارے بیگز بس میں رکھ دیے۔ناشتے کے منتظر، ہم آبشار کے قریب رکھی کرسیوں اور چارپائیوں پر بیٹھ گئے۔ایسا دلکش نظارہ، اور حسین تخیل —ناقابلِ بیان!اِسی اثنا میں ناشتہ کیا، اور روانہ ہوئے۔بس، ناران کی تنگ سڑکوں پر بل کھاتی ہوئی، ہمیں ایک ندی کے پاس لے آئی۔
دیو قامت پہاڑوں کے بیچ رقص کرتے بادل،اور سفیدی مائل پانی…اس حسین منظر کو دیکھتے، نگاہ خودبخود آسمان کی جانب اُٹھی،اور دل نے پکارا:فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
اس کے بعد ہم اِن نظاروں کو کیمرے کی آنکھ میں بند کرنے کے لیےڈر تے سہمتے نیچے کنارے کی جانب پہنچے۔دوست اقراء نے ہماری تصاویر لیں۔ابھی یہ سلسلہ جاری ہی تھا کہ…مکی بھائی پھر نازل ہو گئے!خصوصی سڑیل انداز لیے، مکی بھائی نے فرمایا:”جیپ آ گئی ہے، اور ہمیں بابو سر ٹاپ کی طرف روانہ ہونا ہے!”اور یوں ہم سب جیپ پر روانہ ہوئے —اب شروع ہوئی ہماری بہادری کی آزمائش!بل کھاتی سڑکیں،نیچے کا منظر…ایسا لگتا گویا کسی گہری کھائی میں جھانک رہے ہوں۔دل میں خوف تو ضرور تھا،لیکن ساتھ ہی اللہ کی قدرت و تخلیق پر حیرت بھی۔اور اُن انسانوں کے بارے میں سوچنے لگے جن کو اللہ نے یہ توفیق دی کہ انہوں نے ان سخت چٹانوں کو چیر کر ہمارے لیے راستے بنائے۔
کئی سالوں… بلکہ صدیوں کی مشقت ذہن میں اُمڈ آئی۔جب یہ راستے نہیں تھے، تو کیا ہوتا ہوگا؟کس کے ذہن میں یہ خیال سب سے پہلے ابھراکہ یہاں راستے بنانے چاہییں؟تاکہ سیاحت کے شوقین لوگ خدا کی اس شاندار تخلیق سے لطف اندوز ہو سکیں۔اور میں سوچنے لگی:”اس پر ضرور ریسرچ کروں گی!”اسی سوچ میں گم تھی کہ ہماری منزل آپہنچی ۔ہم بابو سر ٹاپ پہنچ گئے۔جہاں ٹھنڈی پھوار اور سانسوں کو جمانے والی ہواؤں نے ہمارا استقبال کیا۔چلتے چلتے اقراء اور میں قافلے سے بچھڑ گئےاور ہم بہت آگے نکل گئیں۔آکسیجن کی کمی کے باعث میری سانسیں اٹکنے لگیں۔اور اُس لمحے، ہماری دوست نے حقیقی معنوں میں ایک بہن کا کردار ادا کیا،میرا خیال رکھا، حوصلہ دیا، اور سہارا بنی۔بالآخر ہم قافلے سے دوبارہ جا ملیں۔پھر بابو سر ٹاپ کے نظاروں سے لطف اندوز ہوتے،ہم سوچنے لگیں کہ آج جہاں موجود ہیں،وہاں ہمیں ہماری سوچ اور فکری نظریہ لے کر آیا ہے۔میری ریسرچ مکالمہ پر ہے —لیکن یہ جگہ،مکالمہ کے لیے بھی ایک بہترین سبق ہے!بابو سر ٹاپ — مکالمہ بین المذاہب کے لیے ایک علامتی بہترین مقام۔فطرت کی وسعت، انسانوں کی وحدتبابو سر ٹاپ پر جب آپ کھڑے ہوتے ہیں،تو چاروں طرف صرف برف، ہوا، سکوت اور آسمان ہوتا ہے —یہ مناظر ہمیں بتاتے ہیں کہ فطرت کسی مذہب کی نہیں، بلکہ انسانیت کی ہے۔مکالمے کا مقصد بھی یہی ہے:کہ انسان اپنی محدود سوچ سے نکل کر وسعت کو اپنائے۔بلندی کی علامتمکالمہ ہمیشہ دلوں کو بلند کرتا ہے۔جیسے بابو سر ٹاپ سطحِ سمندر سے ہزاروں فٹ بلند ہے،ویسے ہی بین المذاہب مکالمہ بھی تعصب، نفرت، اور کم فہمی سے بلند ہوتا ہے۔یہ ہمیں اوپر اُٹھ کر سوچنے کا سبق دیتا ہے۔خاموش فضا ۔سننے کا سبق ،مکالمہ صرف بولنے کا نہیں، سننے کا بھی نام ہے۔بابو سر ٹاپ پر پھیلی خاموشی، انسان کو خود سننے اور دوسروں کو سننے کی طرف مائل کرتی ہے۔یہ جگہ ہمیں سکھاتی ہے کہ اختلاف کے باوجود خاموشی سے سنا جائے، اور سکون سے جواب دیا جائے۔اسی سب میں گُم تھے کہ کانوں میں آواز آئی:”وقتِ روانگی آ چکا ہے!”اور ہم چل پڑے —جیپ چلتی ہوئی ہمیں لولو سر جھیل لے آئی۔خاموش مکالمہ — لولو سر جھیل کی گود میں جب ہم لولو سر جھیل کے قریب پہنچے،تو یوں لگا جیسے خاموشی نے فضا کو تھام رکھا ہو۔نیلگوں پانی،آسمان کا عکس،اور اردگرد پہاڑوں کی گونج سب کچھ ایک دوسرے سے الگ ہو کر بھی ہم آہنگ۔جیسے کوئی مکالمہ ہو رہا ہو… بغیر الفاظ کے!شاید یہی اصل بین المذاہب ہم آہنگی ہے:ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنا… اور خاموشی سے جُڑے رہنا۔لولو سر جھیل: فطرت اور فکر کا امتزاج وادیٔ کاغان کی سب سے بڑی جھیل لولو سر جھیل، وادیٔ کاغان کی سب سے بڑی جھیل ہے —جو سطحِ سمندر سے تقریباً 11,200 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔یہ وسعت، بلندی، اور گہرائی مکالمۂ بین المذاہب کی علامتی تشریح کے طور پر بھی استعمال ہو سکتی ہے۔
جیسے ایک سچا مکالمہ دل کی گہرائی،سوچ کی بلندی، اور وسعتِ نظر مانگتا ہے۔کنہار دریا کا منبع یہ جھیل دریائے کنہار کا بنیادی منبع ہے۔جس طرح یہ جھیل پورے علاقے کو پانی فراہم کرتی ہے،اسی طرح علم، فہم، اور مکالمہ معاشرے کو روحانی و فکری تازگی عطا کرتے ہیں۔ قدرتی سکون اور عکاسیاس جھیل کا پانی آئینے کی طرح شفاف ہوتا ہے۔یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ جب دل صاف ہوتو دوسروں کی حقیقت بھی واضح نظر آتی ہے —مکالمہ بھی ایسا ہی ہونا چاہیے:شفاف اور غیر جانبدار۔
. تاریخی اہمیت :کہا جاتا ہے کہ 1857ء کی جنگِ آزادی کے دوران کچھ مجاہدینِ آزادی کو اسی مقام پر انگریزوں نے شہید کیا تھا۔یوں یہ جھیل صرف حسین نہیں،بلکہ قربانی اور حریت کی گواہ بھی ہے۔فطرت میں ہم آہنگی کی تصویر جھیل کے گرد پہاڑ، سبزہ، برف، نیلا آسمان۔سب ایک ساتھ خاموشی سے موجود ہوتے ہیں، بغیر کسی جھگڑے کے!یہی بین المذاہب ہم آہنگی کا مقصد ہے:”سب اپنی جگہ رہتے ہوئے ایک دوسرے کے وجود کو مانیں!”
اور پھر گروپ کی روانگی واپس اسی جانب ہوئی جہاں سے ہم چلے تھے۔ناران کی طرف رواں دواں ہم، رات کو اپنی منزل پر پہنچے۔بٹ کڑاہی سے لذیذ کھانا نوش فرمایا۔
اس دوران ہم تھکن سے چور تھے،لیکن ہشاش بشاش بھی!
سوتے جاگتے کی کیفیت میں صبحِ فجر ہو گئی۔اور پھر سے وہی روٹین —تیاری کے بعد، ہوٹل کی چھت پر چڑھ کر
اردگرد کے نظاروں سے لطف اندوز ہوئے۔پھر روانگی ہوئی —جھیل سیف الملوک کی جانب!اور وہی جیپ کا ناگن سا بل کھاتا سفر…اور سامنے تھی اپنی نئی منزل:جھیل سیف الملوک: محبت،روحانیت، اور مکالمے کی علامت یہ جھیل شہزادہ سیف الملوک اور پری بدر جمال کی محبت کی مشہور داستان سے منسوب ہے۔لیکن اس کہانی میں صرف رومانس نہیں —بلکہ مذہب، تصوف، روحانیت، اور قربانی کے پہلو بھی چھپے ہوئے ہیں۔
سیف الملوک کا تعلق اسلامی تہذیب سے ہے،جبکہ بدر جمال، روحانیت و نورانیت کی علامت ہے۔دونوں کا ملاپ دراصلانسان اور روح کے وصال کی صورت میں بیان کیا جاتا ہے۔ یہ کہانی دو مختلف دنیاؤں کے درمیانمکالمے، فہم، اور جستجو کی علامت ہے —
جو ہمارے سبجیکٹ مکالمہ بین المذاہب کی عملی تصویر ہے:جہاں تضاد کے باوجود ربط ممکن ہے۔جھیل سیف الملوک پر کھڑے ہو کر یوں لگا جیسے وقت تھم گیا ہو۔ہر چیز خاموش —مگر گویا فطرت بول رہی ہو…”اگر میں ۔پانی، برف، پہاڑ، بادل ۔سب ایک ساتھ رہ سکتے ہیں،تو تم کیوں نہیں؟”یہ جھیل صرف ایک منظر نہیں،بلکہ مکالمے کا وہ سبق لیے بیٹھی ہے جو کتابوں میں نہیں ملتے۔اور اسی دوران دو ریسرچرز سے ملاقات ہوئی
جو پاکستان کے سیاحتی۔مقامات کی صفائی، ستھرائی اور نظام پر تحقیق کر رہے تھے۔ہماری حسبِ عادت، ان سے خوب سوالات ہوئے اور ایک معلوماتی بات چیت ہوئی۔
پھر کچھ دیر سیر و تفریح کی —اور ایک اہم لمحہ آیا جب لینڈ سلائیڈنگ ہوئی۔اس موقع پر ہمارا آپسی اتحاد قابلِ تحسین تھا —ہم نے نہ صرف ایک دوسرے کی مدد کی،بلکہ سمجھداری اور صبر کا مظاہرہ بھی کیا۔خیر…پھر وہ لمحہ آپہنچا —وقتِ روانگی! اور ہم واپسی کے سفر پر روانہ ہوئے۔
بس میں سوار ہوتے ہی سر احمد کی جانب سےمصالحے والی خشک دال پیش کی گئی،
جس سے ہم سب خوب لطف اندوز ہو رہے تھے —کہ وہ دال فہیم بھائی کے ہاتھوں آ گئی!
اور بس پھر کیا تھا…نجانے وہ کس فکری مکالمے میں گم تھے
کہ سر احمد کی دال زمین بوس ہو گئی! اور بس قہقہوں سے سارا سماں گونج اٹھا —
جبکہ سر احمد دل میں دال کا غم لیے خاموش ہو گئے،اور سفر دوبارہ شروع ہوا۔ہم پہنچے اس پریوں کی وادی کے آخری پڑاؤ پر،جسے “خونی دریا” بھی کہا جاتا ہے۔کچھ ہی دیر میںاداسی، محبت اور حسین یادیں لیےہم تھوڑے اداس سے روانہ ہوئے۔پھر کاغان سے پہلے ایک ندی کے پاس اُترے،جہاں تازہ ٹراؤٹ مچھلی سے لطف اندوز ہوئے۔
سامنے دکان سے ٹوپیاں “ادھار” مانگ مانگ کر تصویر کشی کی —۔قہقہے، ہنسی مذاق، اور ایک دوسرے کی باتوں پر محظوظ ہوتےہم پھر روانہ ہوئے۔کاغان میں مختصر قیام کے دوران اخروٹ خریدے —
اور اس وقت مکی بھائی نے بس میں اخروٹ ایسے لا کر دیےجیسے لوکل بسوں میں پھکی بیچنے والا آیا ہو!
(یہ جملہ ہماری تخلیق تھی، جو چپکے سے ہم نے اقراء کے کان میں کہا)اس قدر اخروٹ کی اقسام پر تفصیلی تجزیہ اور گفتگو ہوئی کہ میں نے اقرا کو مشورہ دیا: ‘کیوں نہ تم اپنا ریسرچ ورک اخروٹ پر ہی کر لوپھر روانہ ہوئے جانبِ اسلام آباد —لیکن تاخیر کے باعث ہم ٹیکسلا میوزیم دیکھنے سے محروم رہ گئے۔مگر اس محرومی کو سر خبیب نے
اپنی علمی و معلوماتی گفتگو سےکافی حد تک دور کر دیا۔
رات کے تین بجے —ہم نے “تہجّدانہ” چائے، سینڈوچ، برگر، شوارمے،اور کولڈ ڈرنک سے خوب لطف اٹھایا۔پھر روانگی ہوئی جانب ننکانہ صاحب۔انٹری کے ساتھ ہی لگا
کہ ہم دسمبر کی یخ بستہ ہواؤں سے نکل کع جون جولائی کی تپتی صحراؤں میں ننگے پاؤں آ گئے ہوں!اس سفر میں ہر موڑ پرکبھی چالان نے ناک میں دم کیا،تو کبھی پرچیاں ادا کر کر کے ہم تھک گئے۔ہر سفر کچھ نہ کچھ سکھا جاتا ہے۔کبھی راستوں سے،کبھی موسموں سے،کبھی چپ رہنے والوں سے،اور کبھی باتونی ہمسفر سے۔یہ سفر بھی یونہی تھا۔مناظر خوبصورت تھے،لیکن اصل رنگ انسانوں نے بھرا۔ہم نے پہاڑ دیکھے،جھیلیں چھوئیں،لیکن جو جذبے محسوس کیے، وہ ناقابلِ بیان تھے۔کہیں سر احمد کی مسکراہٹ،کہیں سرخبیب کی حفاظت بھری۔نظروں کا احاطہ،کہیں میم سجیلا کی ماں جیسی شفقت،کہیں مکی بھائی کی بےمثال مینجمنٹ،کہیں ریاض بھائی کی خدمت،اور کہیں ہماری شرارتیں ہم نے ہنس کر راستے کاٹا،دھوپ سہہ کر مزے لیے،اور تھکن میں بھی چہروں پر تازگی رکھی۔یہ سفر علم و محبت، مزاح و مشاہدہ، فکری وسعت و روحانی گہرائی کا ایک حسین امتزاج تھا۔جیسے کتاب کا ہر صفحہ، ایک نئی سطر بناتا ہے ۔ویسے ہی یہ ہر دن، ایک نئی یاد بناتا رہا۔میرے دل کے بہت قریب اس سفر میں ایک کمی بھی محسوس ہوئی:میرے پیارے استاد سرزوہیب احمد صاحب،
جن کی علمی باتیں اس سفر کو اور بھی فکری بنا دیتیں۔
لیکن شکر ہے ان اساتذہ کاجنہوں نے اس کمی کومحسوس نہ ہونے دیا۔اور آخر میں۔ یہ صرف ایک سفر نہیں،یہ ایک تحریر بن گیا ہے ۔میرے دل کی، میری آنکھوں کی، میری روح کی۔ شعبہ مکالمہ بین المذاہب ہم آہنگی کے زیرِ اہتمام یہ تعلیمی سفر محض ایک ٹرپ نہیں تھا، بلکہ ایک فکری، روحانی اورشخصی ارتقاء کا تجربہ تھا۔ہم نے چار دن مسلسل سفر کیا — خوبصورتیوں میں گم ہوکر، معلومات سمیٹتے ہوئے، اور ایک دوسرے کی رفاقت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے۔
نہ کوئی تلخی، نہ کوئی اختلاف؛ بلکہ ہر لمحہ محبت، خلوص اور برداشت کا آئینہ تھا۔ہم نے سیکھا کہ اختلافِ مذہب یا خیال کے باوجود مکالمہ ممکن ہے، اور یہی مکالمہ ہمیں انسانیت کے قریب لاتا ہے۔علم کی روشنی صرف کلاس روم کی دیواروں تک محدود نہیں — وہ پہاڑوں کی خاموشی، جھیلوں کے سکون، اور تاریخی مقامات کی گواہیوں میں بھی ملتی ہے۔
یہ سفر ہمیں سکھا گیا کہ اصل خوبصورتی راستوں میں نہیں، ہم سفروں کے دلوں میں ہوتی ہے۔ اور اصل علم، وہی ہوتا ہے جو رویوں کو نرم، اور دلوں کو جوڑنے والا ہو۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.