لندن/ وادی نیلم ( پریس فارپیس فاؤنڈیشن رپورٹ ) :  پریس فار پیس فاؤنڈیشن (یُوکے)  کے زیر اہتمام آزاد جموں وکشمیر کے ماحولیاتی مسائل  کے موضوع پر    ایک ماحولیاتی مکالمے سے خطاب کرتے ہوئے ماہرین   اور دیگر شر کا  نے  کہا ہے کہ آزاد خطے کے قیمتی جنگلات بچانے کے لیے ٹمبر مافیا کو لگا م دی جائے۔ وادی نیلم میں  گیسٹ ہاؤسزکی بے ہنگم تعمیرات کو روکا جائے۔ جنگلا ت کی بے دریغ کٹائی کو روکنے کےلیے   عوام کو توانائی کے متبادل ذرائع دیے جائیں۔ماہرین  ماحولیات نے خبردار کیا کہ اگر  وادی نیلم  کے جنگلات ، نایاب نسل کے جانوروں ، ماحولیاتی تطہیر کا کام کرنے والے بیش قیمت پرندوں،  قیمتی جڑی بوٹیوں،  اور ایکوسسٹم میں توازن برقرار رکھنے والے پودہ جات پر مشتمل  قومی دولت  کو بچانے کے لیے  حکومتی اور عوامی سطح پر اقدامات نہ اٹھائے گئے تو ہم ایک عظیم قومی سرمائے سے محروم ہو جائیں گےجس کے مقامی ماحول اور  پورے خطے کے ایکو سسٹم پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے ۔

وادی نیلم  کے ماحولیاتی مسائل کے عنوان سے  مذاکرے کا اہتمام  پریس فار پیس فاؤنڈیشن   کے زیر  اہتمام  ماحولیاتی آگاہی مہم کے سلسلے میں کیا گیا ۔ مذاکرے کی میزبانی لندن سے پریس فار پیس فاؤنڈیشن  کے ماحولیاتی شعبے کے سربراہ مظہر اقبال  مظہر نے کی ۔  مذاکرے کے شرکا سے  آزاد  جموں و کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ  زوالوجی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر محمد   صدیق اعوان نے کی نوٹ اسپیکر کی حیثیت سے خطاب کیا۔ جبکہ دیگر ماہرین میں ،    ڈی ایف او    سردار محمداکرم ، فوکل پرسن     محکمہ سیاحت    اور وائلڈ لائف  رئیس الدین ، آئی یو سی این کے ممبر  راجہ رزاق اور دیگر مقررین نے خطاب کیا۔

وادی نیلم  کے ماحولیاتی مسائل کے بارے میں خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے  عوام الناس  میں شعور کی بیداری کے لیے میں بڑے پیمانے پر  آگاہی مہم اور اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔  وادی نیلم میں  ماحول دوست  اور پائیدار سیاحت کے فروغ کے لیے عالمی اصولوں کے مطابق  اقدامات  کرنا ہوں گے ۔  ماحول کو درپیش خطرات سے  نئی نسل کو آگاہ کرنے کے لیے  نصاب میں ضروری تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔

وادی نیلم کے قدرتی وسائل اور  جنگلات کے حوالے سے  عالمی شہرت یافتہ   محقق  ڈاکٹر  صدیق اعوان نے  اپنی پینتیس سالہ تحقیق کی روشنی میں بتایا کہ بڑھتی ہوئی آبادی،  جنگلات کی کٹائی، محفوظ علاقوں میں سیاحوں کی غیرمعمولی   تعداد کی آمد اور آلودگی کے نتیجے میں گرین ہاوسز گیسوں کا اخراج بڑھنے سے وادی نیلم کے گلیئشرز پھٹنے کے خدشات کئی گنا  بڑھ گئے ہیں جس سے ماحولیاتی توازن بگڑنے کا شدید خطرہ ہے۔ا ن کا کہنا تھا کہ ہمیں نئی نسل کونصاب تعلیم کے ذریعے پہاڑوں اور جنگلات کو درپیش خطرات   سےآگاہ کرنا ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں مقامی  ڈیٹا بہت محدود ہے ۔ پانی کے دانشمندانہ استعمال ، معدنیات، ادویاتی پودوں کے بارے میں میں مزید تحقیق کے آگے بڑھانے کے لیے مزید فنڈز مختص کرنے کی ضرورت ہے- نیلم ویلی سے ادویاتی پودوں کی غیر قانونی نکاسی  کو روکنے کی ضرورت ہے۔ بالخصوص   پہاڑی علاقوں سے میدانی علاقوں کی طرف نقل مکانی کرنے والے  خانہ بدوشوں  کو بھی  مانیٹر کرنے کی ضرورت ہے۔  وادی نیلم میں  معدوم ہونے والے جانور، پرندے اور   دیگر جنگلی حیات ہمارا قومی ورثہ ہے جن کو  غیر قانونی شکار اور بے رحمی سے ختم کر کے ہمیں عظیم قومی سرمایے سے محروم کر رہے ہیں۔

  ڈاکٹر  صدیق اعوان نے ماحولیاتی تبدیلیوں کے مقامی موسم پر سنگین اثرات کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ  وادی نیلم میں اب مون سون کا موسم بھی شروع ہو چکا ہے  جو حیران کن ہے اور اس کے با عث حالیہ سالوں میں  گلیشئر پھٹنے  کے تباہ کن واقعات پیش آئے ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی   ماحول کے لیے ایک بڑا خطرہ  بن گئی ہے۔  بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث  اٹھمقام اور کنڈل شاہی  کے علاقے آپس میں مل گئے  حالانکہ اسلامی  احکامات کی روشنی میں دوبڑے شہروں کے  درمیان کچھ کلو میٹر فاصلہ رکھا  جانا ضروری ہے۔  حکومت شہروں کے درمیان  گرین علاقے مختص کرے۔

 ان کا کہنا تھا کہ ٹورازم کے شعبے میں کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔   سیاح پہاڑی علاقوں میں آلودگی پھیلا رہے ہیں۔ ہمیں ترقی یافتہ ممالک کی طرح سیاحوں کے لیے  گائیڈز کا نظام  وضح کرنا ہو گا  جو سیاحوں   کو  آلودگی پھیلانے سے  روکیں اور مقامی وسائل  کی حفاظت کا پیغام پھیلائیں۔ مقامی جڑی بوٹیوں کو کسی قاعدے قانون کے برخلاف سیاحوں کو فروخت کیا جارہا ہے۔

ڈی ایف او    سردار محمداکرم نے بتا یا  کہ  نیلم ویلی  کے جنگلات  پورے آزاد کشمیر کے جنگلات کے  تقریبا  نصف رقبے کے برابر ہیں۔   علاقے میں ایسے  درخت بھی ہیں جو پورے پاکستان میں معدوم ہوچکے ہیں۔ جنگلات کی نکاسی  کاعمل  سائنسی اصولوں پر نہ ہونے اور  نکاسی کے عمل میں بے قاعدگی سے جنگلا ت  اور جنگلی حیا ت کو نقصان  پہنچ رہا ہے۔  جنگلات کے نزدیک انسانی آبادی سے جنگلوں کا رقبہ سکڑ رہا ہے کیونکہ انسانی آبادی  ایندھن اور تعمیرات کے لیے جنگلا ت استعمال کرتے ہیں۔ جنگلات بچانے کے لیے عوام کو  آگے بڑھ کر  آنرشپ لینا ہوگی – جنگلات بچانے کے لیے  حکومت ، سول سوسایٹی  مل کر اقدامات کریں، عوام کا  طرز زندگی تبدیل ہونے اور ماحولیاتی تقاضوں کے مغائر طرز تعمیر اختیار کرنے سے جنگلات پر دباؤ بڑھ گیاہے،

فوکل پرسن ٹورازم  ڈیپارٹمنٹ  خواجہ ریئس الدین نے  بتا یا کہ  ماحولیاتی تبدیلیوں سے وادی نیلم اور  مظفر آباد کے درجہ حرارت میں فرق  نا ہونے کے برابر رہ گیا ہے جس کی ایک بڑی وجہ غیر معمولی سیاحتی سرگرمیاں ہیں۔ وادی نیلم میں سیاحوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر   مقامی وسائل کو بچانے کے لیے متعلقہ ادارے  بلڈنگ کوڈ   اور دیگر قوانین  پر عمل درامد کو یقینی بنا  ئیں۔ آزادکشمیر بھر میں باہر سے آنے والے سیاحوں میں سے   پینتالیس  فی صد لوگ نیلم ویلی جارہے ہیں۔محکمہ سیاحت کے زیر اہتما م  سیاحتی مقامات پر خصوصی کیمٹیوں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے تا کہ مقامی وسائل  کو بچایا جاسکے۔ آزاد کشمیر میں سیاحوں کی غیر معمولی  تعداد  کو کم کرنے کے لیے متعلقہ قوانین پر عمل درآمد نہیں  کیا جا رہاہے۔ جنگلات کے کٹاؤ  کو بچانے کے لیے  مقامی آبادیوں اور  حکومت کے مابین شراکت بڑھانے  کی ضرورت ہے، ٹور یسٹ علاقوں میں  سالڈ  ویسٹ اور  بلڈنگ کوڈز پر عمل درآمد  کے  لیے متعلقہ محکموں  اور اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

پریس فارپیس فاؤنڈیشن کی ماحولیاتی آگاہی مہم کے مقاصد پر بات کرتے ہوئے میزبان مظہر اقبال مظہر نے کہا کہ  یہ تنظیم آزاد جموں وکشمیر  میں ماحولیات پر گزشتہ تقریباً د و دہائیوں میں  بے شمار سرگرمیاں کر چکی ہے جن میں سیمینارز، ورکشاپس، کمیونٹی پراجیکٹس،  پبلک ایوئرنیس کمپینز ،،  ریسرچ رپورٹس وغیرہ شامل ہیں۔  ان سرگرمیوں کا مقصد  مقامی سطح کے ماحولیاتی مسائل کے حوالے سے عوامی بیداری پیدا  کرنا ہے۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content