ادب کے میدان میں جب کسی فنکار کا قلم مظلوم اور خاموش طبقات کی نمائندگی کرےتو وہ محض تخلیق کار نہیں رہتا بلکہ سماج کے باطن کی گواہی بن جاتا ہے۔ صالحہ محبوب بھی انھی فنکاروں میں شامل ہیں جنھوں نے اردو افسانے کو عورت کی خاموش اذیت، اندرونی جنگ اور معاشرتی تضادات کی سچائیوں سے روشناس کرایا ہے۔ ان کا افسانوی مجموعہ “اُس نےکمال کردیا” اسی خاموش مگر گونج دار بغاوت کا ترجمان ہے۔

صالحہ محبوب کا افسانوی مجموعہ “اُس نےکمال کردیا”  میں عورت کے داخلی کرب، سماجی ناہمواریوں اور نفسیاتی پیچیدگیوں کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ ان کے افسانے محض بیانیے نہیں بلکہ ایک ایسی آواز ہیں جو دبے ہوئے جذبات، کچلے ہوئے خوابوں اور سماج کے ان پہلووں کو سامنے لاتے ہیں جن پر اکثر خاموشی کا پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔۔۔۔۔

اس  کے کئی افسانے عورت کی شخصیت، اس کے خواب، اس کی بغاوت اور خاموشیوں پر مبنی ہیں۔ خواتین کردار محض ظلم سہنے والے نہیں بلکہ کسی نہ کسی سطح پر شعور کی بیداری کے سفر پر گامزن نظر آتے ہیں۔”اُس نےکمال کردیا” میں عورت کوئی دیوی یا مظلوم مخلوق نہیں بلکہ خود کو پہچاننے والی، باخبر اور چپ چاپ مزاحمت کرنے والی ہستی ہے۔ صالحہ کی عورت نہ بین کرتی ہے نہ چیختی، وہ خاموشی میں سوال اٹھاتی ہے اور قاری کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔

صالحہ کے کردار اونچی آواز میں چیختے نہیں بلکہ خاموشی سے جیتی ہوئی زندگی کے خلاف چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہیں۔ ان کی یہ خاموش بغاوت قاری کے دل میں ایک ارتعاش پیدا کرتی ہے۔

کئی افسانوں میں طبقاتی تفاوت اور سماجی بے حسی کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ صالحہ محبوب کا قلم ان محروم طبقات کے لیے ترجمان بن جاتا ہے جنھیں اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے۔

ان کے افسانوں میں کرداروں کی نفسیاتی پیچیدگیاں باریک بینی سے ابھرتی ہیں۔ کئی کردار نفسیاتی دباو یا ماضی کے صدمات کا شکار ہوتے ہیں جو افسانے کو گہرائی عطا کرتے ہیں۔”اُس نے کمال کردیا”

یہ افسانہ محض ایک طنزیہ جملہ نہیں بلکہ پورے معاشرتی رویے پر ایک کڑی تنقید ہے۔ کردار کی خاموش برداشت اور بالآخر  بغاوت نے اس افسانے کو علامتی سطح پر لا کھڑا کیا ہے۔

“اُس نے کمال کردیا” اس افسانے میں رشتوں سے زیادہ مادی چیزوں کو ترجیح دینی،بیٹیوں کو جب لالچی افراد میں بیاہنا اورانکا گھر بسانے کے لیے پیسے اورمادی چیزوں سے منہ بڑھتے رہنا جب منہ بڑھنا بند کیا جائے تو انکا حال ڈاکٹر طلوع سحر کی طرح ہوتا ہے۔یہ ایک ایسا افسانہ ہے جس میں ایک مضبوط کردار ،تعلیم یافتہ اورخودمختار عورت کی شادی ایک لالچی شخص سے ہوجائے تو وہ روز روز کی اذیت میں رہنے کی بجائے  مثبت وپائیدار فیصلہ کرتی ہے جس سے اس کی زندگی لالچی افراد کے سرکل سے نکل جاتی ہے۔ہر عورت کو ڈاکٹر طلوع سحر کی طرح ہونا چاہیے رشتے میں عزت واحترام ہو لیکن اگر رشتہ زہریلا ہوجائے تو اس سے کنارہ کشی ہی بہتر ہے۔ڈاکٹر طلوع سحر کی طرح ہر عورت کواپنی ذات کے لیے اچھا فیصلہ کرنے کے لیے بااختیار ہونا چاہیے۔اقتباس ملاحظہ کیجیے:

” میں یا میراباپ آپ کے کسی ظلم کو برداشت نہیں کریں گے۔میں ہرسال اپنے باپ کوکوئی تاوان بھرنے کی مشقت نہیں دوں گی۔اگرآپ نے یہ شادی اتنا ہی احسان سمجھ کرکی تھی تو شکریہ! مگرمیں وہ کمزور مظلوم اورمجبور لڑکی نہیں ہوں جسے آپ برابھلا کہیں،ماریں ،پیٹیں ،گھر سے نکال دیں اور وہ روتی دھوتی اپنے ماں باپ کے درپر چلی جائے۔یہ شادی میری زندگی کا اختتام نہیں ہے۔یہ شادی کا لیبل میرے لیے ترقی کا زینہ ،قابلیت کا میڈل اورحفاظت کی ضمانت نہیں ہے جس کے لیے اپنی ذات،انا ،خودداری کوداو پرلگادیا جائے۔۔۔۔”

افسانہ “خودغرض ” جس میں ایک عورت کی خودغرضی کو بیان کیا گیا ہے لیکن افسانے کے آخر میں اس کی بے بسی سے اس کی خاموش بغاوت بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔لائبہ کا کردارایک خودغرض عورت کا ہے جو گھر ،شوہر اوراولاد کی ذمہ داریوں کو ترک کرکے اپنے حسن وفٹنس پر توجہ دیتی ہے ۔وسیم کا کردار ایک شریف النفس کا ہے جو بیوی کی یہ حرکات برداشت کرتا ہےلیکن لائبہ جب چارپائی پر پڑتی ہے تو نہ اس کی اولاد اس کے پاس آتی ہے اورنہ کوئی اور۔۔۔۔۔یہ وہ بے بسی جو اسے محسوس ہوتی ہے۔۔۔۔۔ افسانے سے اقتباس ملاحظہ کیجیے:

” افراد خانہ کی بات چیت ختم ہوچکی تھی ۔بچے اپنے اپنے کمروں کی طرف چل دیے۔۔۔۔۔۔لائبہ کو احساس ہورہا تھا کہ اس نے اپنی پوری زندگی محض  اس پانچ فٹ دس انچ کے وجود کودیکھنے ،بنانے اورسنوارنے میں لگادی تھی اوراس کے لیے اس نے اپنا وقت،سرمایہ،محبتوں ،رشتوں ،بچوں سب کو گنوادیا تھا۔۔۔۔۔۔”

صالحہ محبوب کے افسانوں کی سب سے بڑی خوبی ان کی خاموشی میں چیختی ہوئی صدائیں ہیں۔ وہ قاری کو چونکانے یا چونچلے کرنے کے بجائے دھیرے دھیرے اپنی بات منواتی ہیں تاہم بعض جگہوں پر اختتام کچھ زیادہ علامتی یا مبہم ہو جاتا ہے جو ہر قاری کے فہم میں نہ آ سکے۔ اس کے باوجود ان کا اسلوب قاری کو مجبور کرتا ہے کہ وہ پلٹ کر کہانی کو دوبارہ پڑھے اور گہرائی میں اُترے۔

یہ خواتین کے داخلی کرب، شناخت کی تلاش اور سماج کے ظاہری و باطنی تضادات کو نئی آنکھوں سے دیکھنے کی دعوت دیتی ہیں۔ صالحہ محبوب نے جس حساسیت، نفاست اور شعوری انداز سے ان موضوعات کو برتا ہے وہ انھیں اردو افسانے کی ایک مؤثر آواز بناتا ہے۔

صالحہ محبوب کا اسلوب بیان کی سادگی اور خیال کی پیچیدگی کا حسین امتزاج ہے۔ وہ مشکل الفاظ یا لفاظی سے اجتناب کرتی ہیں لیکن قاری کو اتنی ہی گہرائی میں اتارتی ہیں جتنا کوئی دقیق فلسفیانہ تحریر۔ ان کی زبان میں دھیمی تپش ہے جو آہستہ آہستہ قاری کے احساسات کو جھلساتی ہے۔ جملے چھوٹے اور بے حد بامعنی ہوتے ہیں، جو کرداروں کی باطنی حالت، کرب، اور لاشعوری کشمکش کو عیاں کرتے ہیں۔

صالحہ  کی زبان سادہ، رواں اور علامتی انداز لیے ہوئے ہے۔ ان کے افسانوں میں مکالمے کی جگہ داخلی خودکلامی زیادہ ہےجو کرداروں کے باطن کو کھول کر رکھ دیتی ہے۔ تشبیہات اور استعاروں کا استعمال کہانیوں کو محض بیانیہ نہیں بلکہ ایک فکری تجربہ بنا دیتا ہے۔

“اُس نےکمال کردیا” میں عورت کوئی دیوی یا مظلوم مخلوق نہیں بلکہ خود کو پہچاننے والی، باخبر اور چپ چاپ مزاحمت کرنے والی ہستی ہے۔ خاموشی صالحہ محبوب کے ہاں محض سناٹا نہیں بلکہ ایک بھرپور مکالمہ ہے۔ ان کے اکثر افسانوں میں کردار بہت کم بولتے ہیں لیکن ان کے خاموش افعال اور نظروں کی زبان اتنی طاقتور ہوتی ہے کہ ایک پوری نظم تشکیل دے دیتی ہے۔

نفسیاتی پہلو صالحہ کے افسانوں کی خاموش روح ہیں۔

المختصر،”اُس نےکمال کردیا” کا مطالعہ یہ ثابت کرتا ہے کہ صالحہ محبوب کا تعلق خواتین کے اس مکتبۂ فکر سے ہے جو عورت کو محض رونے والی ہستی نہیں بلکہ خود شناسی کی مسافت پر گامزن ایک باشعور فرد سمجھتی ہے۔ ان کا قلم:عورت کو مظلوم نہیں، بااختیار دکھاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔

کومل شہزادی

30-5-2025


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

Skip to content