کابوس کیا ہے؟ ایک کیفیت
کابوس میں نے کیوں خریدی ؟
کابوس کو میں نے کیسا پایا ؟
کچھ سال پہلے تک مجھے کچھ ڈراؤنے خوابوں کے ساتھ، نیند کے فالج (سلیپ پیرالسز) کے شدید اٹیک ہوا کرتء تھے۔ کوئی میرا گلہ دبانے کو کشش کرتا اور مجھے خود پر شدید بوجھ محسوس ہوتا جیسے میری سانس بند ہو رہی ہو۔ میں چیخنے کی کوشش کرتی مگر میری آواز نہ نکل پاتی۔ اور جب پوری قوت سے میں جاگ جاتی تو باقاعدہ ایک سیاہ نسوانی ہیولہ مجھے دروازے سے باہر جاتا محسوس ہوتا۔ مجھے لگا کہ یہ جادو ہے۔ اس وقت یہ علم نہی تھا یہ کیا ہے۔ بعد ازاں ایک اسلامی کتاب میں پڑھا کہ وہ صورتحال جو آپ کو سوتے ہوئے ڈرائے اور سینے پر دباؤ یا بوجھ محسوس ہو وہ ایک ‘جن’ ہے۔ اسے ‘کابوس’ کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔
بعد میں پتہ چلا کہ اسے نفسیات میں سلیپ پیرالسز کہا جاتا ہے۔ یہ نیند کی ٹرانزیشنل کیفیت ہے جب دماغ نیند کے آخری مرحلے میں جا رہا ہوتا ہے یا نیند سے بیداری میں واپس آ رہا ہوتا ہے۔ جب دماغ جاگ جائے لیکن جسم سو رہا ہو اور حرکت کرنے سے قاصر ہو۔ یہ صورت سوتے ہوئے ابتدائی 25-30 سال تک ہم میں سے اکثر فیس کرتے ہیں۔
اب صورتحال یہ ہے کہ اب وہ کیفیات سوتے ہوئے مجھ پر ہاوی نہیں ہوتیں البتہ جاگتے ہوئے، چلتے پھرتے مجھ پر کابوس ہاوی رہتا ہے۔ میں جاگتے ہوئے بھی سلیپ پیرالسز کی کیفیات میں ہوتی ہوں۔ کبھی کبھی میری باڈی کسی محرک کا فوری ریسپانڈ نہیں کرتی۔ میرا دماغ کہیں بھٹکا رہتا ہے۔ بظاہر وہ جاگ رہا ہوتا ہے۔ مگر اس کی تخیلاتی قوت مضبوط ہے۔ وہ میرے وجود میں ہوتے ہوئے لامکاں میں پھرتا ہے۔ اسے واپس مجھ میں آتے اور صورتحال کو سمجھنے میں وقت لگتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں حالت نیند میں ہوں۔ اور لاشعوری عمل کے ذریعے بس کر رہی ہوں جو بھی ہو رہا ہے۔ کبھی کبھی میں چاہتی ہوں لڑنا، بولنا، جواب دینا، بات کرنا، سلام کرنا، نماز پڑھنا، مگر میں بے حس رہتی ہوں۔ جیسے وجود میں جان ہی نہیں۔ ان کےلئے مجھے اپنی بہت زیادہ انرجی کنزیوم کرنی پڑتی ہے۔ لیکن میں اکثر چاہنے کے باوجود بنا تاثر چھوڑے ایک خود کار میکانیکی عمل کے ذریعے بس گزرتی چلی جاتی ہوں مختلف محرکات سے۔۔۔۔ مجھے لگنے لگا ہے کابوس میری نیند سے نکل کر میرے شعور پر غلبہ پا گیا ہے۔
کتاب ‘کابوس’ میں نے کوئی نفسیاتی سیلف ہیلپ کی کتاب سمجھ کر لی تھی۔ مگر یہ کلاسیکی ادب میں افسانوی مجموعے کا قابل ستائش اضافہ ہے۔ ایک دل رکھنے والے حساس ادیب نے حساس موضوعات پر قلم اٹھایا اور کوئی گوشئہ زندگی، نوکِ قلم سے اوجھل نہیں ہونے دیا۔ میں شدید حیران ہوں کہ اس قدر حساس اور زندگی کے ہر ہر کردار کو، ہر ہر پہلو کو بغور مشاہدہ کرنے والا، اس کے دکھ، اندوہ محسوس کرنے والا شخص؛ جب سوتا ہوگا اسے نیند کیسے آتی ہوگی، وہ سانس کیسے لے پاتا ہوگا، وہ روز مرہ زندگی میں، معاشرے میں کیسے زندہ ہوگا جس کا قلم لہو ٹپکائے، درد لکھے۔
ساری تمہید کے بعد، مختصراً یہ کہ۔۔ کتاب کابوس معاشرے کی اجتماعی بے حسی کا نوحہ ہے۔ جسے مسلم انصاری نے خونِ جکر سے سینچ کر لکھا ہے۔ جسے پڑھنے والا اپنے دل پر چھید محسوس کرتا ہے۔ کابوس، اس نیند سے اٹھانے کی ایک کوشش ہے جس میں ہمارا دماغ محسوس تو کر رہا ہوتا ہے مگر ریسپانڈ دیر سے کرتا ہے۔ اسے لگتا ہے اسے شکنجے سے جکڑ دیا گیا ہے۔ اسے نیند کے آخری غلبے سے شعوری بیدار ہونے میں جو وقت لگتا ہے ،کابوس، وہ کاوش ہے۔ جسے معاشرہ سن کر، دیکھ، کر سہہ کر، بتا کر، چپ چاپ جئے چلا جا رہا ہے مگر صمٌ بکمٗ۔ کوئی بغاوت نہیں کوئی مزاحمت نہیں۔
کوئی کوئی افسانہ نشاندہی کرتا ہے کہ “اَن ہونی” پیش آنے پر ضمیر جاگتے ہیں تو بےقصور ہونے کے باوجود اپنی اپنی سیاہیاں نظر آنے لگتی ہیں۔ اجتماعی طور پر ضمیر کی عدالت میں جب خود کو کھڑا کیا جاتا ہے تو من حیث القوم سب ہی قصور وار ہیں۔
یہ خوش آئند ہے کہ قوم اٹھے گی لیکن خوف یہ ہے کہ “کابوس”
بے حسی کا، جاہلیت کا
اجتماعی ضمیروں کا گلا دبا دینے میں پہلے کامیاب نہ ہو جائے۔
اسے ہم تک پہنچانے کا سہرا پریس فار پیس پبلیکیشنز کو جاتا ہے۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.