تاثرات : کومل شہزادی (پی ایچ ڈی سکالر)
مظہر اقبال مظہر لندن میں مقیم ہیں۔یہ بیک وقت اردووانگریزی میں لکھ رہے ہیں۔بطورسفرنامہ نگار یہ اپنی ایک الگ شناخت رکھتے ہیں۔سفرنامہ کاغذی سرحدوں کے آر پارمظہر اقبال مظہر کا یہ سفرنامہ ایک دلچسپ اور معلوماتی ہے جو اُن کے یورپ کے سفر پر مبنی ہے۔تین ممالک سوئزرلینڈ،فرانس اوراٹلی کے اہم مقامات سے قاری کو متعارف ہی نہیں کرواتے بلکہ چیدہ چیدہ پہلوؤں پربھی روشنی ڈالتے ہیں۔ یہ سفر مصنف نے اپنی اہلیہ اور بیٹی کے ہمراہ بذریعہ زمینی راستے کیا۔جس نے اس سفر کو نہایت نجی، مشاہداتی اور قریب سے محسوس کیا گیا تجربہ بنا دیا۔
مصنف نے ہر مقام کو نہ صرف سیاحتی انداز سے بیان کیا بلکہ اس کے تاریخی، تہذیبی، اور تمدنی پہلوؤں کو بھی اجاگر کیا۔ ایفل ٹاور، پیرس کی گلیاں، جرمن دیہات، بیلجیئم کے عجائب گھر اور یورپ کی سڑکیں، ہر منظر کو انہوں نے اپنے مخصوص ادبی انداز میں پیش کیا۔یہ سفرنامہ محض سیاحت کی روداد نہیں بلکہ تہذیبی مکالمہ ہےجس میں ایک مشرقی ذہن مغرب کی گلیوں میں جھانکتا ہے اور وہاں کی ترقی، صفائی، انسانی حقوق، تاریخ اور موجودہ زندگی کو پاکستانی یا مشرقی تناظر سے دیکھتا ہے۔
یہ کتاب پریس فار پیس پبلیکیشنز نے شائع کی ہے اور اس میں عمدہ طباعت کے ساتھ ہر مقام کی تصویری جھلکیاں بھی شامل ہیں جو قاری کو سفر کی حقیقت سے روشناس کراتی ہیں۔
مصنف نے سفر کے دوران ہر مقام کی تاریخی، جغرافیائی اور ثقافتی اہمیت کو نہایت خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ مثلاً، پیرس میں ایفل ٹاور کی سیاحت کو “آئرن لیڈی کا جادو” کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے جبکہ نوٹرڈیم کیتھیڈرل، مونٹمارٹ کا بیسیلیکا، اور ایشیئن آرٹس میوزیم جیسے مقامات کی سیر کو بھی دلچسپ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
مصنف کی تحریر میں ادبی چاشنی اور معلوماتی پہلو دونوں موجود ہیں جو قاری کو نہ صرف سفر کی روداد سناتے ہیں بلکہ تاریخی اور ثقافتی پس منظر سے بھی آگاہ کرتے ہیں۔
مظہر اقبال مظہر کا اسلوب نہایت سلیس، رواں اور مشاہداتی ہے۔ ان کی نثر میں ادبی لطافت اور سچائی کی آمیزش ہےجو قاری کو ان کے ساتھ سفر پر لے جاتی ہے۔ کہیں وہ کسی تاریخی عمارت کے سحر میں گرفتار نظر آتے ہیں تو کہیں کسی یورپی قوم کی نفسیات پر غور کرتے ہیں۔
مصنف کی مشاہداتی آنکھ نہایت تیز ہے۔ وہ معمولی منظر یا واقعے میں بھی تاریخی و ثقافتی گہرائی تلاش کر لیتے ہیں۔ ان کا انداز سطحی سیاحت سے بالاتر ہے۔ وہ مغرب کی چکا چوند میں کھوئے بغیر اس کے سماجی تضادات کو بھی محسوس کرتے ہیں۔
کتاب میں بار بار مشرق اور مغرب کا موازنہ سامنے آتا ہے مگر یہ موازنہ تعصب پر مبنی نہیں بلکہ ایک باشعور مشاہدہ ہے۔ مصنف نہ صرف مغربی ترقی کو سراہتے ہیں بلکہ اپنے معاشرے کی کمیوں پر بھی نرم مگر واضح تنقید کرتے ہیں۔
مصنف کی زبان ادبی مگر بوجھل نہیں۔ وہ سہل الفاظ میں گہری بات کہنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ ان کے جملے قاری کو متاثر کرتے ہیں اور تحریر میں فنی جمالیات بھی جھلکتی ہیں۔مصنف نے اپنے اہل خانہ اور سفر میں ملنے والے لوگوں کا ذکر بھی بڑی محبت اور نفسیاتی باریکی سے کیا ہے جس سے سفرنامہ صرف جگہوں کا تعارف نہیں رہتابلکہ انسانی کہانی بھی بن جاتا ہے۔
المختصر،”کاغذی سرحدوں کے آر پار” صرف ایک سفرنامہ نہیں بلکہ تہذیبی مکالمے، ثقافتی مشاہدے اور فکری بصیرت کا بیان ہے۔ یہ ان قارئین کے لیے خاص اہمیت رکھتا ہے جو سیاحت کے ساتھ ساتھ تاریخ، ادب اور تہذیب کا شعور بھی رکھتے ہیں۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.