علیم اسماعیل
افسانوی مجموعہ ادھوری تخلیق سنہ 2024 میں منظر عام پر آیا، جس کے مصنف عظمت اقبال ہیں۔ عظمت اقبال کا تعلق مالیگاؤں سے ہے اور وہ شرڈی کے ایک ہائی اسکول میں بطور مدرس اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
ادھوری تخلیق کے منظر عام پر آنے کے بعد اس کی رسمِ اجراء مالیگاؤں میں بڑے دھوم دھام سے منعقد کی گئی، جس کی تصویری جھلکیاں اور خبریں میں نے سوشل میڈیا، خصوصاً فیس بک پر دیکھیں۔ اس سے قبل میں عظمت اقبال سے واقف نہ تھا—یعنی میں نے انہیں اچانک ایک ایسے افسانہ نگار کی حیثیت سے جانا، جس کا افسانوی مجموعہ شائع ہو چکا تھا۔ عظمت اقبال سے میری کوئی ذاتی شناسائی نہ تھی، لیکن میرے دوست وسیم عقیل شاہ ادھوری تخلیق کی رسم اجراء میں شریک ہوئے تھے اس لیے مجھے ان کے متعلق جاننے کا اشتیاق ہوا۔
کچھ دنوں بعد پھر یوں ہوا کہ عظمت اقبال نے اپنا افسانوی مجموعہ مجھے ارسال کیا۔ اس کے بعد مجھے ان کے افسانے پڑھنے کا موقع ملا۔ لیکن اس سے پہلے ہی میں ان کے دو افسانے پڑھ چکا تھا، ایک افسانہ روزنامہ انقلاب، اور دوسرا ہمارا واٹس ایپ گروپ ’’بزمِ افسانہ‘‘ میں۔ عظمت اقبال کے افسانوں کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ افسانہ نگاری کے فن سے واقف ہیں۔
آئیے ان کے دو افسانوں پر نظر ڈالتے ہیں۔
افسانہ ’اچھے دن‘ دیہی زندگی کی گہرائیوں، دکھ اور امیدوں پر مبنی، اچھی کہانی ہے۔ کہانی میں اللہ رکھا کا کردار ایک ایسے عام انسان کا کردار ہے جو تلخیوں کے باوجود زندگی کو خوش اسلوبی سے جینے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی بیوی ماہ رخ اس کی طاقت اور دلجوئی کا مرکز ہے، جب کہ ان کا بیٹا خالد، جو گاؤں کی امید تھا، ایک المیہ کا شکار ہو جاتا ہے۔ کہانی سماجی، سیاسی، اور مذہبی پہلوؤں کو پیش کرتی ہے۔
بنواس نگر گاؤں کی سماجی ساخت اور وہاں کے مسلمانوں کی حالت کو حقیقی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ جو سماجی حقیقت نگاری کی اچھی مثال ہے۔ خالد کی شہادت کے بعد سرکاری بےحسی اور وعدہ خلافی، عام انسان کے لیے نظام کی غیر شفافیت اور سرد مہری کی علامت ہے۔ سیاسی لیڈر کی نفرت انگیز تقریر، موجودہ سیاسی فضا کو ظاہر کرتی ہے کہ کس طرح حب الوطنی اور مذہب کو عوامی جذبات سے کھیلنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
افسانے کا بیانیہ سادہ، رواں اور جذباتی ہے۔ مناظر نگاری بھی اچھی ہے، خاص طور پر چھت پر تارے گننے اور گاؤں کے روزمرہ کے مناظر متاثر کرتے ہیں۔ مکالمے فطری اور دیہی بول چال کے قریب تر ہیں، جو کرداروں کی اصل کو ظاہر کرتے ہیں۔
افسانہ ’تعزیر نفس‘ انسانی ضمیر کی کشمکش اور نفس کے احتساب کی مؤثر کہانی ہے۔ عظمت اقبال نے ایک متوسط طبقے کے رکشا ڈرائیور کے ذہنی انتشار، جذباتی اضطراب اور لمحاتی گناہ کے ارادے کو اس خوبی سے پیش کیا ہے کہ قاری کہانی کے اختتام تک ایک اندرونی بے چینی اور تجسث کے ساتھ بندھا رہتا ہے۔ ایک نابینا لڑکی کی مجبوری اور خوبصورتی کو دیکھ کر اُس کے اندر جنم لینے والی ہوس، اور پھر اس پر قابو پانے کے لیے خود کو زخمی کرنا، اس بات کا ثبوت ہے کہ اُس کا ضمیر ابھی مردہ نہیں ہوا تھا۔ یہ واقعہ مرکزی کردار کے اندر مثبت تبدیلی لاتا ہے اور وہ اپنی بیٹی نیہا کی تعلیم کی مخالفت کے بجائے اُسے کالج میں داخل کروانے کا فیصلہ کر لیتا ہے۔
کرداروں کے دل و دماغ کی حالت اور ان کے اندر چلنے والی باتیں کہانی کو زیادہ گہرا اور دلچسپ بناتی ہیں۔ کہانی کے آخر میں جو سکون، ندامت اور اصلاح کا احساس ہوتا ہے، وہ کہانی کو ایک عام واقعے سے بلند کر کے خاص بنا دیتا ہے۔ ’تعزیر نفس‘ ایک ایسا افسانہ ہے جو قاری کو نہ صرف ایک سنسنی خیز لمحے سے گزار کر ضمیر کی عدالت تک لے جاتا ہے، بلکہ اسے خود احتسابی کی راہ بھی دکھاتا ہے۔
عظمت اقبال کے افسانے محض کہانی نہیں بلکہ ایک احساس اور ایک تجربہ بن کر سامنے آتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں زندگی کی سچائیاں، سماجی مسائل، اور انسانی جذبات کی گہرائیاں ملتی ہیں۔ ’اچھے دن‘ میں جہاں گاؤں کی محرومیاں اور امیدیں نمایاں ہوتی ہیں، وہیں ’تعزیر نفس‘ ایک داخلی جنگ اور اخلاقی بیداری کا پیغام دیتی ہے۔ عظمت اقبال کا اندازِ بیان سادہ، مؤثر اور قاری کے دل کو چھو لینے والا ہے۔ ان کی کہانیوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شعور و احساس کے ساتھ افسانہ نگاری کے میدان میں قدم بڑھا رہے ہیں، جس سے مستقبل میں اور اچھی توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.