سلیقے سے بنی ہر سطر، نتھری ہوئی نثر اور گہرے فلسفیانہ اسلوب کی حامل ”مداری“ نے وہ ڈگڈگی نہیں بجائی
جو آۓ روز کتابوں کے سوشل میڈیائی بازار میں سنائی دیتی ہے ۔
انہیں یہ ڈگڈگی بجانی ہی نہیں جو میرے جیسا کوئی بھی دوسرا صاحب کتاب انسان بجاتا پھرتا ہے کہ وہ داد و حصول کی تمنائی نہیں ہیں ۔
ہدایہ کے افسانے ہر کسی کے لیے نہیں ہیں ۔
محض ان محدودے لوگوں کیلیے ہیں جو سوچتے اور کھوجتے ہیں کہ یہ مروج اسلوب و اصول کی حدود و قیود سے باہر جھانکتے دکھائی دیتے ہیں اور یہی عصر حاضر کی جدت ہے ، یہی تقاضا ہے اور یہی بنے بناۓ راستے ترک کر کے کچھ نیا کھوجنے کی دھن ہے ۔
زندگی کے گہرے فلسفے اور تلخ و شیریں تجربات کے حاصل حصول کو نچوڑ کر انہوں نے جو کردار تخلیق کیے ہیں وہ زمانی و مکانی بھی ہیں اور ماورائی بھی ۔
اپنی اولین کتاب میں ہدایہ۔۔۔ انسانی نفسیاتی گتھیوں کو سلجھانے میں ہلکان نظر آتی ہیں ۔
وہ انسانی فطرت و جبلت کو پرکھنے ، سمجھنے کی کوشش میں مصروف عمل ہیں
اور انھی خصوصیات کے حامل کردار مداری کی مصنفہ نے کتاب کے ہر صفحے پر بکھیر دیے ہیں
جو کہیں اپنے فہم و ادراک سے قاری پر سوچ کے نئے در وا کرتے دکھائی دیتے ہیں تو کہیں اسے حیراں و پریشان چھوڑ کر، کوئی بھی چاپ یا چھاپ چھوڑے بغیر منظر نامے سے یوں غائب ہو جاتے ہیں جیسے وہ تخلیق کی تعمیری آوے پر چڑھاۓ ہی نہ گئے ہوں ، جیسے انہیں خال و خد دے کر کسی قالب میں ڈھالا ہی نہ گیا ہو ۔
عین ممکن ہے آخری صفحہ پلٹنے پر وہ آپ کے حافظے کے پنے سے مر مٹ چکے ہوں یا پھر بعید از قیاس نہیں کہ ہدایہ کے کردار اپنے قاری کے ساتھ اگلے کئی زمانوں تک سفر میں رہیں ۔
مداری ، کملی ڈوڈی ، خط اور خطٍ شکستہ ، آنٹی صولت کا توتا ، حیرت کدہ ، عکس معکوس ، وحشتٍ میر ، تیسری ٹانگ اور ایک پاٶ گوشت ۔۔۔ اس کتاب کے نمایاں افسانے ہیں جو اپنے اندر گہری معنویت اور فلسفہ حیات سمیٹے ہوۓ ہیں ۔
افسانوں کا پیغام کہیں بین السطور بیان کیا گیا ہے تو کہیں مصنفہ نے یہ پیغام لب بام رکھ کر اپنے قاری کیلیے مشاہدات و تجربات کی پٹاری کھول دی ہے ۔
ہدایہ کے لفظ کہیں بے ضمیروں پر چابک برساتے ہیں تو کہیں انسانی بے توقیری پر نوحہ کناں ہیں ۔
میں ہمیشہ کہتا ہوں لفظ بے اماں مسافر ہوتے ہیں ، کتاب چھتر چھایا اور سائباں بن جاتی ہے جیسے بے گھری، در بدری کے بعد چار دیواری ۔
ہدایہ نے بھی اب اپنے منتشر الفاظ و خیالات کو کرداروں کے قالب اور سانچے میں ڈھال کر ہمارے سامنے پیش کر دیا ہے ۔
یعنی مداری نے اپنی ڈگڈگی بجا دی ہے اور ہم سب کیلیے ایک سوال چھوڑ دیا ہے
” آیا کہ ہم سب ہی مداری ہیں یا پھر کہیں پس منظر میں کوئی اور ہے جو روز اول سے اپنی ڈگڈگی بجاۓ جا رہا ہے اور ہم سب انسان گھنگھرو ، جھانجھر باندھے کٹھ پتلیوں کی صورت ناچتے چلے جا رہے ہیں ۔۔۔۔؟؟؟“
متفرق افسانوں سے کچھ سطور آپ سب کیلیے
۔۔۔ سنا ہے گدھ اب ناپید ہو چکے ہیں مگر مجھے لگتا ہے گدھوں نے اب اپنی جون بدل کر انسانوں کی شکل اختیار کر لی ہے ۔
۔
۔۔۔ یہ اصول نہیں اور اصول کے بغیر کوئی حصول نہیں ۔ انہوں نے بھی آنسوٶں کا نذرانہ بھیجا تھا ۔ آپ بھی رو دیں ، آنسو بھیج دیں ، الہام بحال ہو جائیں گے ۔
۔
۔۔۔ معلوم نہیں ہر مرد میں قیوم ہوتا ہے یا ہر مرد ہی راجہ گدھ کا قیوم ہے ۔
۔
۔۔۔ رنگوں میں تخیل کو گھولنے کی صلاحیت آرٹ ہے ، آرٹ نقطے کا پھیلاٶ ہے ، آرٹ کا حلیے سے کیا تعلق اور آرٹسٹ کو پرواہ سے کیا تعلق ۔۔۔؟
۔
۔۔۔ بچوں کے کچے ذہنوں کے نقش بہت گہرے ہوتے ہیں ۔ نقش کھرچو تو کھال تک ادھڑ جاتی ہے مگر نقش نہیں مٹتے ۔
۔
۔۔۔ وہ وصال حقیقی تھا ۔ وہ محض پردہ تھا اس سراب سے پردہ جو مخملیں ڈبیا میں سمو کر آدمٍ خاکی کو تھما دیا گیا تھا ۔
کیا تمہیں ادراک نہیں کہ تمہارا فانی سے دائمی پردوں کے بیچ ایسا روحانی تعلق قائم کر دیا گیا جو ماورا تھا کسی سائنسدان ، کسی ماہر نفسیات کی لغت سے ۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.