پھولوں کی زباں / تبصرہ : نصرت نسیم

ایک ہی پھول سے سب پھولوں کی خوشبو آئے

اور یہ جادو اسے آئے جسے اردو آئے

اردو کی اس حسینہ نازنیں کے لیے اختر شیرانی نے فرمایا:

دنیا کی سب زبانیں بوڑھی سی ہو چکی ہیں

لیکن ابھی جواں ہے اردو زباں ہماری

تو اس جوان دلربا، حسینہ نازنیں کے جہاں بے شمار دشمن اور بد خواہ اور حاسد ہر دور میں رہے ہیں ۔وہاں اس کے چاہنے والوں اور عاشقان باصفا کی بھی کمی نہیں رہی۔جنہوں نے اردو کی ترقی وترویج کے لیے تن من دھن کی بازی لگا دی۔

مولوی عبد الحق اردو کے ایسے عاشق تھے کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ شاہد احمد  دہلوی لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ گھر والوں نے گونتھ گانتھ کر ان کی شادی کر دی تھی تو مولوی صاحب نے حیدرآباد واپس پہنچ کر طلاق نامہ بھیج دیا۔ اصل میں ان کی شادی تو اردو سے ہو چکی تھی۔ اردو سے انہیں اتنی محبت تھی کہ اس پر سوکن لانا نہیں چاہتے تھے۔ ساری عمر اردو کی خدمت میں ہی گزار دی۔ اگر وہ بیوی بچوں کے بکھیڑوں میں الجھ جاتے تو اردو کو وہ مقام حاصل نہ ہوتا جو اسے حاصل ہے۔

 گاندھی نے جب یہ تحریک چلائی کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے،قرآن کے حروف میں لکھی جاتی ہے تو مولوی صاحب نے  انہیں خوب آڑے ہاتھوں لیا اور بتایا کہ نہ تو یہ مسلمانوں کی زبان ہے نہ ہی قران کے حروف میں لکھی جاتی ہے۔ مولوی صاحب نے اپنی تمام جمع پونجی اردو کی ترقی و ترویج کے لیے وقف کر دی۔ گاندھی سے ٹکر لینے کے بعد مولوی صاحب اردو کے قائد اعظم بن گئے اور ”بابائے اردو“ کہلانے لگے۔ مولوی صاحب پاکستان آئے، انجمن اردو کو جما لیا اور اردو کالج بھی قائم کیا، اس کالج میں تمام مضامین اردو میں پڑھائے جانے لگے۔ اس کالج کے نتائج نے ثابت کیا کہ اردو کو ذریعہء تعلیم بنایا جائے تو زیادہ اچھے نتائج نکل سکتے ہیں۔ کالج کے تجربے کے بعد مولوی صاحب اردو یونیورسٹی بنانا چاہتے تھے مگر حکومت کی بے توجہی کی بنا پر نہ بنا سکے۔

اردو سے ان کی محبت کا یہ عالم تھا کہ وقت آخر  اکثر بے ہوش رہتے جب ہوش آنا تو کچھ بولتے ، کان لگا کر سنا جاتا تو ایک سرگوشی سنائی دیتی صرف دو لفظ ان کے قریب رہنے والوں نے سنے،”انجمن اور اردو“

اردو کے عشاق کے قافلے میں احمد حاطب صدیقی صاحب بھی شامل ہیں جو اپنے قلم، فکر وفن سے اردو کو اس کا کھویا ہوا مقام دلانے کے لیے کو شاں ہیں۔

احمد حاطب صدیقی صاحب سے نیشنل بک فاؤنڈیشن کے کتاب میلے میں ادب اطفال کے پروگرام میں ملاقات ہوئی ۔پھر ”کتاب بیتی“ کے پروگرام میں فتح محمد ملک کے پروگرام میں شرکت کی اور ان کے اخلاق اور منکسر المزاجی نے متاثر کیا۔

یوں تو اکثر اخبارات میں غلط العام اور زبان وبیان کے حوالے سے کالم لکھے جاتے رہے ہیں مگر احمد حاطب صدیقی کے کالم منفرد انداز اور اسلوب رکھتے ہیں۔ کالمز کا یہ مجموعہ ”پھولوں کی زبان“ پریس فار پیس فاؤنڈیشن نے شائع کیا ہے ۔اس کا پہلا باب کرتن تنیا ایسا دل چسپ کہ جو توجہ اور انگلی یوں پکڑ لیتا ہے کہ آپ اس کے سحر سے نہیں نکل سکتے۔

کس طرح لب پہ ہنسی بن کے فغاں آتی ہے

 مجھ سے پوچھو مجھے پھولوں کی زباں آتی ہے

احمد حاطب  صدیقی صاحب کا یہ دعویٰ بالکل درست ہے کہ انہیں پھولوں کی زباں پر پورا پورا عبور حاصل ہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر اقبال کا مصرع یاد آیا:

 نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر

 تو یہ کتاب یہ کالم جو انہوں نے لکھے اس کے لیے انہوں نے کس قدر محنت اور عرق ریزی سے کام لیا، لغات کھنگالیں،تحقیق کی، یہ  اتنا اسان کام نہیں تھا۔ یہ کالم جو پڑھنے میں  آسان دکھائی دیتے ہیں اس کے پیچھے ان کی محنت، ان کی لگن، اردو سے، ملک و قوم سے محبت صاف دکھائی دیتی ہے، ان کی علمیت اور شیرینیء گفتار کا قائل ہونا پڑتا ہے۔

جس طرح وہ پرت در پرت معنی و مفہوم کی گتھیاں سلجھاتے چلے جاتے ہیں، ساتھ ساتھ گرامر کی باریکیاں سمجھاتے ہیں۔ اساتذہ کی شاعری سے عمدہ مثالیں، گویا یہ کالم صرف زبان و بیان سے متعلق نہیں اس میں معلومات عامہ، دینی معلومات، اساتذہ کا بہترین کلام، ادبی چٹکلے ،سیاسی حالات، ذرائع ابلاغ کی زبوں حالی، تعلیمی نظام کے سقم غرض یہ کہ اسے بارہ مسالے کی چاٹ کہہ  لیں یا دھنک کے تمام رنگوں کی آمیزش سے مزین ہمہ جہت ہمہ رنگ کالم جس کی دلربائی ،دل کشی ،شائستگی اور شرینی گلزار کی بات کی تائید کرتی ہے کہ اردو بولیں تو جیسے ایک مٹھاس سی منہ میں گھلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ شگفتگی ،شستگی اور عمدہ اسلوب میں عمدہ واقعات موضوع کی مناسبت سے سناتے چلے جاتے ہیں۔

جیسا کہ یہ  واقعہ، میر انیس جیسے بڑے شاعر نے تعریف کرتے ہوئے یہ مصرع کہہ دیا:

گنج نبی کے گوہر یکتا حسین ہیں

گنج کا مطلب ہے خزانہ گوہر موتی کی مناسبت سے گنج کا لفظ استعمال کیا گیا ہے لیکن دبیری بیٹھے تھے انہوں نے ہنگامہ مچا دیا توبہ توبہ استغفار یہ کیا کہہ دیا ، انیس نے فورا مصرع بدلا:

 بحر نبی کے گوہر یکتا حسین ہیں

بحر سمندر کو کہتے ہیں اور موتی سمندر سے ہی نکلتا ہے لہذا گوہر کی مناسبت سے بحر کا استعمال غلط نہ تھا۔ اب وہ شور اٹھا کہ گنجے کے بعد بہرے توبہ توبہ انیس تو دوزخی ہو گئے۔ انیس نے فوراً پینترا بدلا اور مصرع یوں دہرایا:

 کان نبی کے گوہر یکتا حسین ہیں

کان سے ہیرے نکلتے ہیں ہیرے موتی کے الفاظ ایک ساتھ استعمال کیے جاتے ہیں اب تو دبیریوں نے چیخ و پکار شروع کر دی اب کانے بھی کہہ دیا ہے انیس تو لعنتی دوزخی ہو گیا ہے۔ انیس نے پھر مصرع پڑھا:

 کنز نبی کے گوہر یکتا حسین ہیں

کنز عربی کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے زمین میں دفن کیا ہوا خزانہ اب اس لفظ کے استعمال سے کوئی ضم کا پہلو نہ نکلتا تھا یوں انیس کی جان چھوٹی۔

”عوام مخنث ہو گئے“ بہت دلچسپ کالم۔

”کان کن،یا کان کن“ ایک اور دلچسپ کالم جو بہت معیاری اشعار سے مزین ہے۔

یکا یک ایسے جل بجھنے میں لطف جاں کنی کب تھا

 جلے اک شمع پر ہم بھی ،مگر آہستہ آہستہ

یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید

کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکون

 ہمارے ذرائع ابلاغ رومن حروف میں اردو لکھنے کی عادت کو رواج دے رہے ہیں۔ انہیں اندازہ  ہی نہیں کہ وہ ہماری قوم کے عقائد، تہذیب اور ثقافت کو کتنا دورس نقصان پہنچانے کے در پے ہیں۔”عروس اردو کے لیے رومن فراک میں“ یہ نکتہ انہوں نے بخوبی سمجھایا ہے

”یہ لشکری زبان ہے یا لشکر فرنگ“

 میں لکھتے ہیں: اردو لشکری زبان ہے۔ دیگر زبانوں کی طرح انگریزی زبان سے بھی اردو نے لا تعداد الفاظ قبول کیے  ہیں مگر لشکری زبان ہونے کا یہ مطلب کہاں سے نکل آیا کہ صرف اور صرف فرنگی الفاظ کا لشکر ہی اپنی لغت سے  کود کود کر اردو میں دندناتا پھرے اور دند مچایا کرے۔

احمد حاطب صدیقی کے ان کالمز میں مذہبی، سیاسی،  ادبی واقعات اور برمحل اشعار کا لطف الگ سے تحریر کے حسن کو دوبالا کرتا ہے۔”گل افشانی گفتار“ میں بھی حاطب صاحب نے گل افشانی گفتار کے خوب جوہر دکھائے ہیں۔

پھر دیکھئے انداز گل افشانی گفتار

رکھ دے کوئی پیمانہ صہبا مرے اگے

”تیسرے مصرے میں ور کیا ہے“

 بہت ہی عمدہ اور چشم کشا کالم ہے۔ کل سے دل کی کل بگڑی ہے جی مارا بے کل ہو کر

اج لہو آنکھوں میں آیا درد و غم سے رو رو کر

طینت میں وفا،رخ پہ شجاعت کے اثر تھے

گنتی میں بہتر تھے مگر لاکھ پہ ور تھے

ور حسابم راتو بینی ناگزیر

ازنگاہ مصطفی پنہاں بگیر

”وزیراعظم کے دربار میں توتی کی آواز“ بہت دلچسپ باب ہے۔

”سر کڑاہی میں“ ایک اور بہت ہی دلچسپ کالم ہے۔ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے:

اب گھروں میں رکھی ہوئی کڑاہی بھی کراہنے لگی ہے کیونکہ اس کی جگہ فرائی پین نے لے لی ہے۔ جس پر منجمد کھانے پگھلا لیے جاتے ہیں۔ اب اپنے باورچی خانے میں کڑاہی چڑھا کر مزے مزے کے پکوان تلنے کی بجائے شہروں کی خواتین شنواری جا کر کڑاہی کھانے پر اصرار کیا کرتی ہیں۔

مائیکرو ویو اوون ننھی لہروں کی اس تنور میں سرد کھانوں کے ساتھ ساتھ سرد مہری کا شکار ہو جانے والی دوسری چیزیں اور بھی رکھ دی گئی ہیں۔ سب کی سب ساتھ ہی دم پخت ہو گئیں۔ گھروں میں بولی جانے والی شیریں زبان، رسیلا لب و لہجہ ،با محاورہ گفتگو، تربیت اطفال، بالخصوص بچیوں کی تربیت خاندانی روایات، تہذیب اور تمدن سبھی کچھ اس تیز رفتار چولھے میں جھونک دیا گیا ہے۔

یہ بدلتی ہوئی اقدار اور مٹتی ہوئی روایات کا کیا ہی دلسوز اظہار ہے۔ یوں تو ہر باب ہر کالم ایسا ہے کہ دل چاہتا ہے کہ ذکر کروں مگر طوالت کے خوف سے کچھ چنیدہ اور پسندیدہ ابواب کا ذکر کیا۔

زبان کی لطافت، باریکیاں، نازک خیالی دیکھنی ہو تو

”نثر کا باپ؟ ارے باپ رے باپ!“

 اس باب میں کنایہ کنیت کی وضاحت بہت عمدگی سے کی گئی ہے۔

لسانیات ایک خشک موضوع ہے لیکن احمد حاطب صدیقی کے شگفتہ رواں دواں اور دل نشیں اسلوب نے اس ایک دلربا دستاویز میں ڈھال دیا ہے۔ چنیدہ کالموں کا یہ مجموعہ جو 202 صفحات پر مشتمل ہے۔ پریس فار پیس نے بہت اہتمام سے چھاپا ہے۔ اس کا خوبصورت سرورق ابرار گردیزی صاحب کا بنایا ہوا ہے۔

”پھولوں کی زباں“ ابو نثر کی اعلیٰ نثر اور اس شیریں زباں کی شیرینی کا نمونہ ہے۔ طالب علموں کے ساتھ ساتھ اساتذہ کے لیے بھی یہ کتاب انتہائی مفید اور کار آمد ہے۔

”پھولوں کی زباں“ کے دوسرے ایڈیشن کے اجراء کے موقع پر میں محترم احمد حاطب صدیقی اور پریس فار پیس کو اس اعلیٰ کتاب کی اشاعت پر دلی مبارک باد پیش کرتی ہوں,اس دعا کے ساتھ کہ

یا رب رہے سلامت اُردو زباں ہماری


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content