کتاب کا نام؛ “رقصِ دل”

مصنفہ؛ محترمہ ناجیہ شعیب احمد

ناشر؛ پریس فار پیس پبلشرز

مبصر؛ انگبین عروج،کراچی۔

رقصِ دل محترمہ ناجیہ شعیب احمد کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے۔یوں تو ناجیہ شعیب صاحبہ نے اُردو ادب کی تقریباً تمام ہی اصناف پر طبع آزمائی کی ہے لیکن آپ کی وجۀ شہرت بطور ادبِ اطفال کی ادیبہ کے طور پر ہے۔محترمہ ناجیہ شعیب احمد کی دو خوب صورت اور دلچسپ کتب “بخ بخ اور گلہریاں” اور “سپر ہیروز” شائع ہو چکی ہیں۔

رقصِ دل ہاتھوں میں آتے ہی اس کے سرورق پر نظر پڑی تو دِل باغ و بہار ہو گیا۔محترم سید ابرار گردیزی صاحب نے کتاب کا سرورق بے حد عمدہ اور پُرکشش ڈیزائن کیا ہے۔قارئین کتاب بعد میں کھولیں گے،اس سے قبل اس دلکش و دلفریب سرورق کو سراہے بِناء نہ رہ سکیں گے۔

اس کتاب کا انتساب مجھے ذاتی طور پر بے حد اچھوتا اور منفرد محسوس ہوا،محترمہ ناجیہ شعیب نے اس انتساب کو دل کی گہرائیوں سے صفحۀ قرطاس پر اتارا ہے۔پہلا افسانہ “حرام کا ٹیگ” پڑھتے ہی محسوس ہوا کہ کتاب کا سرورق حسین پھولوں،سر سبز نظاروں سے آنکھوں کو جس قدر خیرہ کر رہا ہے کتاب کے اندرونی صفحات پر اسی قدر جا بجا درد،کرب و اذیت،اجتماعی بے حسی،معاشرے کے سڑے گلے نظام سے اُٹھتے بدبودار تعفّن کی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔

ناجیہ شعیب احمد صاحبہ نے اپنے وسیع ذخیرۀ الفاظ،محاوروں کے موقع بر محل استعمال اور رواں اسلوب کی مہارت سے معاشرے میں بکھرے درد و بے بسی کی اُن عام داستانوں کو بھی حساس قارئین تک خاص انداز میں پہنچانے کا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ہمارے ارد گرد،ہمارے درمیان ایسی کئی کہانیاں تواتر سے وقوع پذیر ہو رہی ہیں،جن سے ہم مسلسل صرفِ نظر کرتے گزر جاتے ہیں۔کئی لاچار و بے بس نفوس ہمارے آس پاس اپنا وجود رکھتے ہوۓ بھی ہماری آنکھوں سے اوجھل ہیں۔اس مجموعہ میں مصنفہ نے معاشرے کی ایسی ہی بھولی بھٹکی،اجتماعی بے حسی و لاتعلقی کی بھینٹ چڑھتی داستانیں سپردِ قرطاس کر کے گویا عوام النّاس کی دکھتی رگوں پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔

معاشرے میں بڑھتی بے راہ روی ہو یا حرص و ہوس،دولت کی چمک میں اندھے ہوتے بیوپاری جو حلال و حرام کی تمیز بھول چکے ہوں،جُرمِ ناحق کی سزا کاٹتے بے بس وجود،اولاد کی محبت بھری اِک نگاہ کے متلاشی بوڑھے والدین،کسی کے در و دیوار پر بڑھتے بھوک و افلاس کے ساۓ،حضرتِ انساں کی بے قدری و کم مائیگی،مادّی اشیاء کی بڑھتی قدر،خدا خوفی سے مُبرّا دنیا دکھاوے کے پجاری،خود غرضی و مطلب پرستی،غیرت و انا کی دیواریں،حضرتِ انساں کی سفاکیت و مکاری،معاشرتی تلخ رویوں،اپنوں کی پے اعتنائی و بے مروتی غرض سماج میں پھیلی ہر اخلاقی زبوں حالی و پست ذہنیت کی عکاسی محترمہ ناجیہ شعیب صاحبہ نے بڑے بے باک انداز اور کُھلے الفاظ میں کی ہے۔مصنفہ کا قلم ایسا رواں دواں ہے کہ ہر موضوع پر بے لاگ و لگی لپٹی کے بِناء لکھتا چلا گیا۔کتاب میں شامل افسانے افسانوی،ماورائی یا تخیلاتی طرز پر نہیں بلکہ حقیقی زندگی کی کہانیوں سے لیے گئے معلوم ہوتے ہیں۔

مصنفہ نے کچھ ایسے نازک موضوعات پر بھی قلم اٹھایا ہے،جن سے اکثر و بیشتر رو گردانی کی جاتی ہے اور عام طور پر مصنفین ایسے موضوعات پر لکھ کر اپنی ذات کو کسی ناگہانی خطرات سے دوچار نہیں کرنا چاہتے لیکن محترمہ ناجیہ شعیب نے کمال شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوۓ اپنے قلم سے نہ صرف معاشرے کی ان ڈھکی چھپی بُرائیوں کا احاطہ کیا ہے بلکہ بڑی خوبی سے انہیں نبھایا بھی ہے۔اس ضمن میں پریس فار پیس پبلیکیشن بھی داد و ستائش کی مستحق ہے،جس نے اپنے نام کے جھنڈے تلے ان موضوعات کی اشاعت کو ممکن کر دکھایا جنہیں دوسرے ادارے اشاعت کی اجازت نہیں دیتے ہیں بلکہ ان نازک موضوعات کو شاملِ اشاعت کرنے سے قطعاً انکاری ہوتے ہیں۔

کتاب کے دوسرے حصّے میں چند ایک افسانچے شامل ہیں،افسانچے گو کہ مختصر ہیں لیکن الفاظ کی تاثیر اور کاٹ دار اسلوب نے انہیں مُختصر پُراثر بنا دیا ہے۔

حرفِ آخر یہ کہ محترمہ ناجیہ شعیب کا یہ پہلا افسانوی مجموعہ ہے،جو بلاشبہ مجموعی طور پر قارئین پر ایک عمدہ تاثر چھوڑنے اور حساس ذہنوں کو جھنجھوڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔مصنّفہ کی کامیابی اور معاشرتی اصلاح کے لیے مزید ایسی کوششوں کے لیے دعاگو ہوں۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content