تبصرہ : محمد نواز رضا

محترمہ رباب عائشہ اور میں ہم عصر ہیں 1980 میں کچھ عرصہ کے لئے روزنامہ جنگ راولپنڈی  کے شعبہ میگزین میں  جناب اصغر بخاری مرحوم کے تحت کام کیا تو محترمہ رباب عائشہ میرے سامنے والے کمرے میں خواتین ایڈیشن کی انچارج کے طور پر کام کرتی تھیں، اس لحاظ سے کم و بیش ہمارے درمیان نصف صدی سے عزت واحترام  کا رشتہ قائم ہے ۔محترم ضیغم زیدی پاکستان کے نامور عکاس ضیغم زیدی کی شریک سفر ہونے کے باعث بھی میرے دل میں ان کی بڑی قدر و منزلت ہے۔ جب روزنامہ جنگ نے ان کو ریٹائر کر دیا تو پھر انہوں نے روزنامہ نوائے وقت جوائن کر لیا۔ کم و بیش 10 ، 12 سال اکھٹے کام کرنے کا موقع ملا۔ اس لحاظ سے میں محترمہ رباب عائشہ کے صحافتی کیرئیر کا مستند گواہ ہوں،  جس دور میں انہوں نے صحافت کے میدان میں قدم رکھا   وفاقی  دارالحکومت اسلام آباد و راولپنڈی  میں گنتی کی دو تین خواتین صحافت کے پیشہ سے وابستہ تھیں۔ اس  وقت خال خال ہی کوئی ان کے پایہ کی خاتون صحافی ہو اگرچہ وہ مجھ سے عمر میں کچھ بڑی ہیں لیکن  دوران ملازمت ہمیشہ لبرٹی لی جاذب سہیل ،  ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی، ریاض اختر پر مشتمل مختصر میگزین سیکشن میں  ہمارے طنز ومذاق  کا مرکز بنا رہتا تھا  ۔میں نے ان کو ایک انتہائی محنتی خاتون پایا ان کے قلم سے شاندار تحریریں وارد ہوئی ہیں۔ انہوں نے متعدد اہم شخصیات کے انٹرویوز لئے لیکن جہاں تک مجھے معلوم ہے ان کا تحریر کردہ بہت بڑا ذخیرہ ادب ان کی لاپرواہی کی نذر  ہو گیا جس کا انہیں ساری زندگی افسوس رہے گا ،انھوں نےریٹائرمنٹ  اور تنہائی کو کمزوری نہیں بننے دیا  ۔انھوں نے پچھلے  دو تین سال کے دوران چار کتب تحریر کی ہیں رباب عائشہ  کےعمر رسیدہ ہونے کے بھی کچھ مسائل ہیں۔ رباب عائشہ کی بینائی بھی متاثر ہوئی ہے لیکن انھوں نے قرطاس و قلم  سے رشتہ برقرار رکھا بلا شک و شبہ وہ اس وقت صحافت میں قدم رکھنے والی نوجوان خواتین کے لئے ایک آئیڈیل جرنلسٹ  ہیں ۔بدقسمتی سے پاکستان میں  صحافت کے نام پر سب ڈرامےرچائے جاتے ہیں لیکن صحافیوں کی تربیت کے لئے کچھ نہیں کیا جا تا۔ رباب عائشہ صا حب زبان ہیں اور وہ کم از کم  نوجوان صحافیوں کی تربیت کر سکتی ہیں۔ نیشنل پریس کلب کے کرتا دھرتا کچھ عرصہ تک پریس کلب  کی سرگرمیوں کو بلیٹن کی شکل میں شائع کرتے رہے۔نا معلوم وجوہات کی بنا یہ سلسلہ منقطع ہو گیا ،رباب عائشہ نے پریس کلب کے نیوز بلیٹن انتہائی عمدہ شمارے شائع کئے لیکن پریس کلب کے عہدے داروں کی ترجیحات  ہی کچھ اور ہیں تخلیقی کام  پر توجہ نہیں دی گئی۔ رباب عائشہ بلند پایہ خاتون صحافی ہیں حکومت ایسے لوگوں کو ایوارڈ دیتی رہی ہے جو سرے سے مستحق نہیں ۔ رباب عائشہ کو مسلسل نظر انداز کیا گیا ہے وہ پرائیڈ آف پرفارمنس کی مستحق ہیں۔ان کی کتاب”سدابہار  چہرے” میری نظر سے گذری ہے۔

  ان کی تازہ ترین تصنیف” بصارت سے بصیرت” میرے زیر مطالعہ ہے  یہ کتاب ” کیپٹن مقبول احمد کی داستان حیات پر مشتمل ہے جس میں انھوں نے بصارت سے محروم کیپٹن مقبول احمد کی جدو جہد مسلسل کو قلمبند کیا  ہے۔ کیپٹن  مقبول احمد اور ان کی رفیقہ حیات سلمی مقبول  عزم و ہمت  کے پہاڑ ہیں۔ ان کے بارے میں کتاب کی اشاعت سے  ان کی شخصیت اجاگر کی گئی ہے۔ رباب عائشہ کی یہ منفرد کوشش ہے بہت کم لوگ معاشرے کے ان افراد کے بارے پر قلم اٹھاتے ہیں جو نظر انداز کئے گئے ہیں۔

 اس کتاب سے کیپٹن مقبول احمد اور ان کی اہلیہ ڈاکٹر سلمی مقبول  احمد کی زندگی کے  کارناموں کو اجاگر کیا ہے ۔ رباب عائشہ کی یہ چوتھی کتاب ہے اس لحاظ سے وہ مبارکباد کی مستحق ہیں کہ وسائل کی کمی کے باوجود چوتھی کتاب شائع کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔  “بصارت سے بصیرت تک ” بصارت سے محروم ایک شخص کی کامیاب جدو جہد مسلسل  کی داستان ہے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے مجھے بھی یہ کتاب پڑھ کر کیپٹن مقبول احمد اور ڈاکٹر سلمی مقبول احمد کی شخصیات کو سمجھنے کا موقع ملا ہے؛ ان  کے شاندار کام سے  آگاہی حاصل ہوئی ۔یہ کتاب بصارت سے محروم  افراد کا عزم و حوصلہ بڑھانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ رباب عائشہ  نے “خواب تھا یا حقیقت ” کے عنوان میں ڈاکٹر سلمی مقبول احمد  کے خواب کو حقیقت کا روپ دے دیا ہے۔ میں نے صحافت کی وادی میں 1970 میں قدم رکھا جب کہ رباب عائشہ نے 1966 میں  صحافت کا پیرہن اوڑھا۔ اس لحاظ سے وہ مجھ سے سینئر ہیں وہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی بضد ہیں کہ انہیں ریٹائر کا طعنہ  نہ دیا جائے ۔میرے ہاتھ  میں پوری قوت سے قلم ہے ۔کمپیوٹر کے اس دور میں بھی میرا قلم توانا و مضبوط ہے کہ اس سے شاہکار تصنیف کر سکتی ہوں۔ رباب عائشہ نے اپنے اوپر بڑھاپا طاری نہیں ۔ان کا قلم توانا ہے جو ان کو  شاہکار تخلیق کرنے پر مجبور کر تا رہتا ہے۔

میں رباب عائشہ کی اس لحاظ سے بھی میں عزت کرتا ہوں کہ وہ میدان صحافت کی شہ سوار ہیں۔ ایک باوقار خاتون کے طور پر صحافت میں نام کمایا۔ دوسرا یہ کہ وہ میرے دیرینہ دوست اور ملک کے ایک بڑے فوٹو گرافر ضیغم زیدی کی اہلیہ ہیں ۔ہمارے درمیان گھریلو تعلقات  قائم ہیں۔ میری دعا ہے رباب عائشہ اپنے قلم کو تاحیات متحرک رکھیں گی۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content