کتب
پروں والا کچھوا(مترجم:عاطف حسین شاہ)
الکسلان اور تاج سلطان:( مترجم: میمونہ حمزہ)
صنف : عالمی ادب اطفال
تقابلی جائزہ: آرسی رؤف
ناشر:پریس فار پیس پبلیکیشنز
گزشتہ ہفتے دو خوبصورت تراجم پڑھنے کا موقع ملا۔
اس کے بعد سے تو رنگ برنگ کرداروں نے ذہن کی اسکرین پر وہ دھمال ڈال رکھی کہ مت پوچھئے۔چھم سے ہی پھر اس خیال نے بڑے زور و شور سے دستک دی کیوں نہ ان دو تراجم پر مبنی کتب کا تقابلی جائزہ لیا جائے۔
لو جی پھر تو کئی کردار مماثلت اور تقابل کے آئینے میں صاف صاف دکھائی دینے لگے۔
ارے ارے دور کیوں کھڑے ہیں۔قریب آجائیں آپ کو ان دونوں تراجم کے چیدہ چیدہ کرداروں سے ملواتے ہیں اور ان تراجم کے خصائص بھی گنواتے ہیں۔
کتب کا تعارف
جسبیر بھلر کے ناولچے” کھمباں والا کچو کما” کا ترجمہ پیش کیا ہے عاطف حسین نے اور دوسرا ترجمہ ہے میمونه حمزہ کا جسے انہوں نے یعقوب الشارونی کی عربی تالیف سے اردو ترجمہ کیا ہے۔
دونوں ناولچوں کی سب سے مزے دار بات تو یہ ہے کہ یہ مکمل کہانیاں ہیں بہت عرصے سے مختصر کہانیوں کی کتب ہی پڑھ رہی تھی اور باوجود ہر کہانی کے دلچسپ ہونے کے مجموعی تاثر ملا جلا سا ہونے کے باعث دلچسپی کا عنصر کم ہوتا چلا جاتا تھا۔ لیکن یہ دونوں ناولچے ہمیں کسی ٹائم مشین کی مانند ہمارے بچپن کی دہلیز پر چھوڑ آئے جہاں ہمیں بالکل یوں لگا جیسے ہم الف لیلوی کہانیوں کے دور میں جی اٹھے ہیں۔
تراجم پڑھ کر دونوں ہی کتب پر طبع زاد کا گمان گزرا،گویا مترجم کہانیوں کو اس کے ان کے اصل رنگ میں پیش کرنے کی اپنی کوشش میں بہت حد تک کامیاب رہے ہیں۔
کردار
نیل کچھوا اور الكسلان
کسل سے الکسلان یعنی تساہل کا شکار شخص۔الكسلان اسی نام سے مشہور تھا کیوں کہ وہ سستی اور تساہل کا شکار شخص مانا جاتا تھا جبکہ نیل کچھوا کو یہ نام دوسرے کچھووں کی نسبت مختلف رنگ یعنی نیلے رنگ کا ہونے کے باعث عطا ہوا تھا۔
نیل کچھوا اور الکسلان مزاجاً ایک دوسرے کے بالکل برعکس ہیں۔الکسلان تساہل کے لئے مشہور ہے اور نیل کچھوا اپنی چابک دستی کی بدولت سب کو پیچھے چھوڑ دینے والا،ہواؤں میں اڑنے کی چاہ رکھنے والا ہے۔اور اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لئے وہ ہر حد سے گزر جانے کو تیار ہے۔وہ انتہائی عیار ہے چاہے اسے جھوٹ بولنا پڑے یا دوسروں کی تضحیک کرنی پڑے۔الکسلان اپنی بیماری سے نجات کے بعد خیر بانٹنے والا اور ریا اور عیاری سے پاک سادہ منش ہے۔
ملکہ پری اور خلیفہ ہارون الرشید
ملکہ پری ایک دیو مالائی کردار ہے جبکہ خلیفہ ہارون الرشید ایک حقیقی تاریخی شخصیت۔البتہ افسانوی رنگ میں ڈھل کر حقیقی شخصیت ہونے باوجود قارئین اسے ایک افسانوی کردار کی حیثیت سے ہی جان اور سمجھ پاتے ہیں۔ ملکہ پری پرندوں کی شکر گزار ہو کر ان کی ضیافت پر کاربند جبکہ خلیفہ ہارون الرشید اپنی ملکہ کی خوشنودی کے لئے متفکر دکھائی دیتا ہے۔
سیانی پری اور حکیم
سیانی پری ،نیل کچھوے کی اصلیت کو سامنے لانے میں اہم کردار ادا کرکے اسے سزا دلوانے کا باعث بنتی ہے جبکہ حکیم الکسلان کو صحت مند زندگی کے ساتھ ساتھ دوسروں کے ساتھ نیکی کے گر سے روشناس کرواتا ہے۔
کچھوی ماں اور الکسلان کی ماں
کچھوی ماں ایک دردمنددل رکھنے والی ماں ہے جو اپنے بچے کی مثبت تربیت کے لئے کہانی گوئی کا سہارا لیتی ہے وہ اس کی اخلاقی بیماری ک بھانپ کر اس کی إصلاح کی ہر ممکن کوشش کرتی ہےجبکہ اسکلان کی ماں کچھوی ماں کی مانند زیرک اور معاملہ فہم نہیں۔وہ الکسلان کے مرض کو اس کا تساہل قرار دیتی ہے۔البتہ بطور ماں وہ اس کے علاج کی کوشش ضرور کرتی ہے۔
تاجر اور پرندے،بال نچا بندر اور پنکھ
پرندے جو خیر،خوبصورتی اور موسیقی کے دلدادہ ہیں،بالآخر نیل کچھوے کی تخيل کو پرواز عطا کرنے کا باعث بنتے ہیں جبکہ ایک تاجر الکسلان کو امیروں کو امیر بنا دینے کا سبب بنتا ہے۔گویا پرندے اور تاجر بطور وسیلہ دوسروں کی زندگی پر اثر انداز ہونے والے کردار ہیں۔
بال نچا ہوا بندر استعارہ ہے بلند اقبالی کا جبکہ پنکھ بلند پروازی کا۔بال نچا بندر جو فقط پانچ درہموں میں خریدا گیا الکسلان کی قسمت بدلنے کا باعث بنتا ہے اور پنکھ نیل کچھوے کے اڑنے کی خواہش میں ممد و معاون۔البتہ کچھوی ماں کا یہ کہا کہ کسی اور کے پنکھوں کی مدد سے پرواز سیکھنے کی بجائے تخیل کی پرواز کو بلند کیا جائے۔گویا نیل کچھوے کو مانگی ہوئی جنت کی بجائے اپنی اخلاقی ابتری دور کر کے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کی ترغیب دینے کی کوشش کی گئی۔جبکہ بال نچا بندر الکسلان کی اچھائی کی بدولت ہی اس کی تقدیر بدلنے کو کمر بند ہوا۔
پلاٹ
دونوں ناولچوں کا پلاٹ انتہائی مربوط و منظم ہے۔دونوں میں کہانی اور سفرنامے بہ یک وقت موجود ہیں۔ایک سمندری سفرجبکہ دوسرا پرستان کی جانب سفر ہے۔سمندر کا سفر بصرہ سے چین تک اور پرستان کا سفر ایک چھوٹے سے جزیرے سے بادلوں اور آسمان کی طرف جاری رہتا ہے۔جن میں سے ایک کو عمودی اور دوسرے کو افقی سفر سے بھی موسوم کیا جا سکتا ہے۔
پروں والا کچھوا پرندوں کے کاندھوں پر سوار پرندوں کی مشکلات سے بے گانہ بخیر و عافیت اپنی منزل تک پہنچ توجاتا ہے لیکن اپنی عیارانہ طبیعیت کے باعث مصیبت میں پھنس جاتا یے اور زخموں سے چور یو کر موت کے منہ میں جا پہنچتا ہے؛ جبکہ تاجر ظافر کا جہاز الکسلان کے پانچ درہموں کو نظر انداز کئے جانے پر مشکلات کا شکار ہوتا ہے۔لیکن جب اس کی اہمیت آشکار ہوتی ہے تو وہ وہاں موجود نہ ہوتے ہوئے بھی سب کانجات دہندہ بن جاتا یے۔امیر کبیر شخص بن جانے کے باوجود الکسلان اپنی اصلیت نہیں بھولتا اور بادشاہ تک کی مدد کو حاضر ہو جاتا ہے۔ نیل کچھوا اپنی اصلیت بھول کر پرندوں کا حامی و مددگار بننے کی بجائے خود کو ان کا راجہ کہلانے کو ترجیح دیتا ہے۔
مزید بر آں پروں والا کچھوا کی کہانی غیر مرئی واقعات اور کرداروں کے ساتھ ساتھ حقیقت کو تسلیم کرنے پر مصر ہے جبکہ الکسلان اور تاج سلطان کی تمام ترتیبات افسانوی رنگ لئے ہوئے ہیں۔
میری لائبریری کی زینت ان دونوں ہی کتب کا فوٹو گرچہ ہم نے لے لیا لیکن فوٹو شوٹ بھلا کیا ہی تاثر دے پائے گا حقیقتاکتب کے اوراق مخملیں اور جاذب نظر ہونے کے ساتھ ساتھ من موہنے ہیں۔ ہاتھوں کی پوروں میں محسوس تو کیجیے۔
کیا کہا کہانی؟ بھئی ان دونوں کتب کی خوبصورت کہانیاں پڑھنے کے لئے تو آپ کو پریس فار پبلیکیشنز سے رابطہ کرنے پڑے گا۔تو پھر دیر کس بات کی جناب!اپنے حصے کی کاپیاں ابھی بک کروائیے۔
/ جیز کیش نمبر : برائے رابطہ فون
0322-4645781
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.