کتاب کا نام:”ننھا بہادر”
مصنفہ:قانتہ رابعہ
ناشر
پریس فار پیس پبلیکیشنز
مبصر
انگبین عروج-کراچی
کچھ مصنفہ کے بارے میں
قانتہ رابعہ ضلع خانیوال پنجاب کے ایک علمی و ادبی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ان کی جڑوں میں کم عمری سے ہی ادب سے گہرا لگاؤ پیوستہ ہے۔زمانۀ طالب علمی سے ہی بچوں کی کہانیاں،مزاح،مختصر مضامین لکھنے کی ابتداء کی۔محترمہ قانتہ رابعہ صاحبہ کی اب تک بچوں کی کہانیوں،افسانوی مجموعوں اور کالمو پر درجنوں کتب اور کتابچے شائع ہو چکے ہیں۔بیت اللہ کا سفرنامہ “زہے مقدر” تحریر کرنے کا شرف بھی حاصل کیا۔حصولِ علم و ادب کے لیے خود بھی کوشاں رہیں اور معاشرے کی فلاح و تربیت کے لیے بھی آپ کی جدوجہد جاری و ساری ہے۔
ننھا بہادر:
ابتداء میں اس کتاب کو بچوں کی عمومی دلچسپی کی کہانیوں پر مشتمل سمجھا تھا۔جب کتاب کھولی،پہلی کہانی “باؤلی بھجیا” سے مطالعے کا آغاز کیا اور جوں جوں آگے بڑھتی گئی اس کتاب کی ہر اک کہانی میں مصنفہ کا دیا ایک خاص پیغام آشکار ہوتا گیا۔میں فانتہ رابعہ صاحبہ کے افسانوی مجموعے “اِک سفر جو تمام ہوا” کا بھی مطالعہ کر چکی ہوں اور اس کتاب کا مطالعہ کر کے مصنفہ کے معاشرے کے ہر طبقے کو لے کر حسّاسیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ان کے افسانے ہوں یا بچوں کے لیے کہانیاں,آپ انہیں محض قصہ گوئی نہیں کہہ سکتے۔مصنفہ کے تحریر کردہ ہر افسانے اور ہر کہانی کا خمیر جذبات و احساسات سے گندھا ملتا ہے۔ننھا بہادر میں مصنفہ نے قبلۀ اوّل،انبیاء کی میراث،شہداء کی سرزمین کے لیے اپنے جذبات و احساسات کو معاشرے کے ننھے ذہنوں اور ان کے والدین کے دِلوں میں جس طرح منتقل کرنے کا کارنامہ سر انجام دیا ہے دراصل یہی بات ایک مصنف کے لیے قابلِ فخر ہوتی ہے۔
کتاب ننھا بہادر نہ صرف کم عمر بچوں کی بہترین ذہن سازی،مثبت معاشرتی تربیت اور علم و آگہی سے بھرپور ہے بلکہ اس میں عصرِ حاضر میں والدین کے لیے بے حد خاص مقاصد پنہاں ہیں۔دورِ حاضر میں جہاں ہم والدین موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لیے سیکڑوں فتنوں اور معاشرتی مسائل سے نبرد آزما ہیں۔جن میں بچوں اور بڑوں میں سوشل میڈیا کا بڑھتا ہوا رجحان،کتاب دوستی کا فقدان،مذہب سے دوری،صبر و تحمّل کا قلق،معاشرے میں بچوں سے شفقت اور بڑوں کی عزت کا عنصر کم ہونا،آپسی نفرت اور عدم برداشت،ایک دوسرے کے لیے شدتِ احساس کا کم ہونا اور اس جیسے کئی حل طلب مسائل ہیں جن سے نمٹنے کے لیے مصنفہ قانتہ رابعہ صاحبہ نے والدین کو بڑی عمدہ تجاویز پیش کی ہیں۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ دورِ حاضر میں بچوں کے لیے اصلاحی اور سبق آموز کہانیاں تحریر کرنا اور پچوں کو ان کہانیوں کے سیرِ حاصل مطالعے پر آمادہ کرنا دشوار ترین امر بنتا جا رہا ہے چونکہ ان بچوں کی تفریح کے لیے سوشل میڈیا کے لامحدود ذرائع تک رسائی ممکن ہو چکی ہے۔لیکن مصنفہ اس ضمن میں داد و تحسین کی مستحق ہیں کہ فِتنوں کے دور میں ان کی بامقصد اور اصلاحی کہانیوں کی طرف ہماری نسلِ نو راغب ہو رہی ہے اور بلاشبہ ان تحاریر کی بدولت فیض یاب ہو رہی ہے مصنفہ نے ان کہانیوں میں مثبت طرزِ فکر و طرزِ عمل کے مقاصد کو بے حد مہارت سے کہانی کے قالب میں اس طرح ڈھالا ہے کہ پڑھنے والے ہر طبقۀ فکر بالخصوص بچوں کی دلچسپی آغاز سے اختتام تک برقرار رہتی ہے۔
قبلۀ اوّل سے ہمارے قلبی وابستگی کو بیشتر کہانیوں میں اجاگر کیا گیا ہے۔فلسطینی بہن بھائیوں اور بچوں سے یکجہتی کے اظہار کے ساتھ ساتھ ان پر ٹوٹنے والے مصائب و آلام کا بیان کچھ اس انداز سے کیا گیا ہے کہ پڑھنے والوں کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔خصوصاً ننھے بچوں میں ایک نیا ولولہ اور فکر انگیز سوچ پروان چڑھتی ہے۔ہر بچہ سوشل میڈیا کے منفی استعمال اور موجودہ دور میں گیجٹس کے زیرِ اثر نظر آتا ہے،ایسے میں “پہلا قدم”،”ننھا بہادر” اور جوان دِلوں کی کہانی” کا مطالعہ کر کے فلسطینی بچوں کا جذبۀ ایمانی اور لازوال جدوجہد ہماری نسلوں کے قلب و دہن میں اترتا ہے۔
اس کے علاوہ بچوں کی روز مرّہ کی عادات و اطوار میں مثبت تبدیلیوں کے لیے سیرتِ محمدیﷺ کے حوالہ جات سے والدین اور بچوں کی عمدہ انداز میں رہنمائی بھی کی گئی ہے۔ جیسے وقت کی پابندی کرنا،جھوٹ بولنے سے پرہیز کرنا،لوگوں کی دل آزاری کرنے کی عادت ترک کرنا،بد گمانی و غلط بیانی سے خود کو روکنا،حرص و ہوس سے اپنی ذات کو دور رکھنا ۔
بلاشبہ یہ کتاب “ننھا بہادر” نسلِ نو کی تربیت اور عمدہ ذہن سازی میں معاون و مددگار ثابت ہو گی!!