برطانیہ میں جاڑے کا موسم آتے ہی دن انتہائی مختصر اور راتیں طویل تر ہوتی جاتی ہیں ۔ دسمبر کا پہلا ہفتہ اختتام پذیر ہوتے ہی موسم شدت اختیار کر گیا۔ شدید سردی، تندو تیز طوفانی ہوائیں اور ساتھ تیز موسلا دھار بارش۔
موسم کی زبوں حالی اپنی جگہ مگر ہفتے اور اتوار کی چھٹی اپنے ساتھ جو اچھی خبر لائی وہ یہ تھی کہ مجھے طویل انتظار کے بعد وطن مالوف سے پروفیسر محمد ایاز کیانی کی تصنیف کردہ ایک شاندار کتاب “لوگ اور لوگ بھی کیسے کیسے” موصول ہوئی ۔ “اندھا کیا چاہے دو آنکھیں” کے مصداق دو ہی نشستوں میں کتاب پڑھ ڈالی اور اس کے مطالعے سے خوب لطف و حَظ اٹھایا
یہ کتاب درحقیقت اُن شخصی خاکوں کا مجموعہ ہے جو وقتاً فوقتاً مختلف اخبارات اور جرائد میں اس سے قبل شائع ہو چکے ہیں جنہیں کتابی شکل میں شائع کیا گیا ہے۔ اگرچہ اردو نثر میں میری پسندیدہ صنف سوانح عمری ہے مگرشخصی خاکوں پہ مشتمل یہ کتاب پڑھتے ہوئے میں نے خوب لطف اٹھایا کہ اس کتاب کا ہر مضمون سوانح عمری کی طرح ہی کسی ہستی کی شخصیت اور اُن کی حیات و خدمات کا بھر پور احاطہ کر رہا ہے۔
ایاز کیانی پیشے کے اعتبار سےاردو زبان وادب کے استاد ہیں اور طویل عرصے سے آزاد کشمیر کے مختلف کالجز میں نسلِ نو کی صورت گری کر رہے ہیں۔ فی الحال تو سفر نامہ، خاکہ نگاری اور روداد نویسی ہی ان کا میدانِ کار ہے مگر مستقبل میں کسی اور صنفِ سخن کی صحرا نوردی پہ نکل کھڑے ہوں تو یہ بات بھی بعید از قیاس نہیں۔ ابھی تک اُن کی تین تصانیف منصَّۂ شہود پہ آ کر قارئین اور اہل علم و دانش سے بھر پور داد و تحسین سمیٹ چکی ہیں۔
موصوف کو زمانہ طالب علمی سے ہی قلم و قرطاس اور تحریر وتقریر سے ایسا شغف رہا اور ساتھ قدرت بھی یوں مہربان ہوئی کہ قحط الرجالی کے اس دور میں حرف و کتاب ہی اُن کا اوڑھنا بچھونا بن گئے۔ کہتے ہیں جو انسان کا شوق ہو اگر وہی وسیلۂ رزق بن جائے تو اس سے بڑی عیش ممکن نہیں۔ ایاز کیانی کے معاملے میں بھی یہ قول صادق آتا ہے ۔ مادہ پرستی اور نفسا نفسی کے اس دورِ پُرآشوب میں دن بھر درس و تدریس میں مصروفِ کار رہنے کے بعد شام کے اوقات میں لکھنے لکھانے کے لیئے وقت نکالنا اُنہی کا خاصہ ہے۔ اور ہر ہفتے عشرے بعد ان کی کوئی نہ کوئی تحریر سماجی رابطوں کے توسط سے ہم تک ضرور پہنچتی ہے۔ کہتے ہیں لکھنے کے لیئے پڑھنا ضروری ہے اور اُن کی تحریروں کا معیار، تسلسل اور تنوع بخوبی اس امر کی چُغلی کھا رہا ہے اور اِس انداز بیاں کے پیچھے ایاز کیانی کا برسوں کا مطالعہ اور زندگی کا گہرا مشاہدہ اور اَدراک جا بجا جھلکتا نظر آتا ہے۔
ایاز کیانی کا اُسلوب بیاں نہائت شُستہ ، سادہ اور رواں ہے مگر جب اُن کے اندر کا استاد اورعہدِ گُم گُشتہ کا شعلہ بیاں مقرر انگڑائی لیتا ہے تو برمحل شعروں کا تڑکا ضرور لگاتے ہیں اور کیا خُوب لگاتے ہیں۔
مجھے نہیں معلوم یہ اُن کے مطالعے کی گہرائی کا اثر ہے یا مسلسل مشق ِ تحریر و سُخن کا حاصل کہ جس بھی شخصیت پہ قلم اٹھاتے ہیں لفظوں کی ایسی صورت گری کرتے ہیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے چشم تصور میں قاری کے سامنے ایک جیتا جاگتا کردار لا کھڑا کرتے ہیں۔ جن شخصیات پہ انہوں نے قلم اُٹھایا ہے وہ کافی مختلف النوع ہیں جن کا تعلق مختلف شعبہ ہائے زندگی سے ہے اس لیئے یہ کتاب پڑھ کر آپ ایک ٹکٹ میں دو نہیں بلکہ کہیں شو دیکھتے ہیں۔ جہاں آپ کا واسطہ کبھی سیاست کے میدانِ پُر خار کے کسی اجلے کردار سے پڑتا ہے اور کہیں ایاز کیانی اپنے کسی استاد، کسی ہم جماعت، کسی ہم عصر یا معاشرے کے کسی نفیس کردار پہ رقم طراز نظر آتے ہیں۔ ایسے کردار اور ایسی شخصیات جو بقول مصنف عامیوں میں خاص ہیں جنہیں ایاز کیانی بجا طور زمیں کا نمک اور پہاڑی کا چراغ قرار دیتے ہیں۔
معاشرے میں اہلِ مقام اوراہلِ حیثیت کے اعتبار سے بھی یہ کتاب کامیابی اور کامرانی کی کئی کہانیوں سے بھری پڑی ہے۔ ایسے کردار جنہیں کامیابی پلیٹ میں رکھ کر نہیں ملی بلکہ انہوں نے زندگی بَرت کر، جھِیل کر دیکھی۔ جنہوں نے تلاشِ علم میں میل ہا میل سفر و حضر کی صعوبتیں جھِیلیں۔ غربت اور افلاس سے نبرد آزما رہے مگر وسائل کی کمی کا رُونا نہیں رویا اُسی کا سینہ چاک کر کے کامرانی سمیٹی ۔ کچھ مضامین کے بین السطور ایاز کیانی کا تبصرہ بہت برمحل ہےاور کتاب کی افادیت کو بڑھا دیتا ہے مثلاً ایک مضمون کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ والدین کے پیسے اور حیثیت کی بنیاد پر حاصل کامیابی بھی کیا کامیابی ہے؟ کچھ کہانیاں اور کردار تو فی الواقعی آپ کے دل کو چُھو کر گزر جاتے ہیں۔
ایاز کیانی سے میرے تعلق کے کئی حوالے ہیں مگر ایک حوالہ میرے لئے ہمیشہ بہت قابل احترام رہا کہ وہ کینیڈا میں مقیم میرے برادرِ اکبر ڈاکٹر اظہر اقبال کے جگری دوست ہیں۔ اِسی لیئے میں اُنہیں اکثر کہتا ہوں کہ آپ کے چہرے میں مجھے اپنے بھائیوں کی شبیہہ نظر آتی ہے۔ بھائی صاحب ایاز کیانی کی شادی کے بھی دوست ہیں ایسی دوستی کہ چار دہائیوں بعد بھی اس کی چمک ماند نہیں پڑی اور بھائی صاحب آج بھی اُنہیں “جِگر ایاز “ کے نام سے یاد کرتے ہیں اور اِسی طفیل ہم سب بھی۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.