دانیال حسن چغتائی
سفر کا شمار لازمہ زندگی میں ہوتا ہے ۔ جس میں بے پناہ تغیر و تجسس کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے ۔ سفر کا رویہ بنیادی طور پر زندگی کا رویہ ہے کہ زندگی حرکت اور عمل سے عبارت ہے ۔ دنیا انسان کے لئے عارضی قیام گاہ اور پڑاؤ کی جگہ ہے ۔ جہاں انسان کو چند گھڑیاں گزار کر آگے بڑھ جانا ہے۔
سفرنامے کا شمار اردو زبان کی بیانیہ اصناف میں ہوتا ہے۔ سفر نامہ چونکہ چشم دید واقعات پر لکھا جاتا ہے ۔ اس لیے سفر اسکی اساسی شرط ہے لیکن سفر نامے میں قاری کو شریک سفر بنانا شرط اولین ہے۔ یہی روداد سفر نامہ کہلاتی ہے۔
اس وقت ایسی ہی ایک کتاب کھلی آنکھوں کا خواب جسے نصرت نسیم صاحبہ نے تحریر کیا ہے میرے ہاتھوں میں ہے ۔ سادہ الفاظ میں لکھی گئی یہ کتاب فنی باریکیوں سے دور اس انداز میں لکھی گئی ہے کہ قاری کو خود بھی سفر کا گمان ہوتا ہے ۔ اس میں زیادہ تر کردار محترمہ نصرت نسیم صاحبہ کا ہے جن کی قوت مشاہدہ سے یہ کتاب لکھی گئی ۔
کیونکہ عورت ہو یا مرد ادیب کی پہلی منزل مشاہدہ اور دوسری مجاہدہ ہے کہ جن کے بغیر کوئی اعلی تخلیق منظر عام پر نہیں آسکتی۔ اللہ کی اس وسیع کائنات کو تخلیق ہی اس لیے کیا گیا کہ اس زمین و آسمان میں جو کچھ ہے وہ تمہارے تصرف میں ہے کہ تم اس کے بارے میں سوچو اور سراغ لگاؤ۔ کہیں بھی صرف مردوں کے لیے نہیں کہا گیا کہ وہ حق دار ہیں کہ اس کائنات کے اسرار و رموز کے بارے میں آگاہی حاصل کریں ۔ یہ آگاہی ہر اس شخص کا مقدر ہے کہ جس نے جدوجہد کی اور منزل کو پانے کے لیے دل میں جوت جگائی ۔ ہمارا معاشرہ مختلف اکائیوں کا مجموعہ ہے ۔ جس میں عورت کا وجود بہت اہمیت کا حامل ہے۔
خیر سفر نامے کی طرف واپس آئیں تو سفر کی تمام تر جزویات کو اس سفر نامے کا حصہ بنایا گیا ہے۔ عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ خواب دیکھے جاتے ہیں اور پھر ان کی تعبیر ملتی ہے لیکن نصرت نسیم نے کھلی آنکھوں سے یہ خواب دیکھا اور اسے شرمندہ تعبیر کیا۔ اس طرح نہ صرف یہ سفر روایت سے ہٹ کر ہے بلکہ اس کا اسلوب بیان بھی اتنا سادہ اور سلیس ہے کہ ایک ایک چیز کو بیاں کیا گیا ہے۔
فلائی بغداد کا چھوٹا طیارہ، بچپن کا محرم اور اہل بیت سے محبت کا بیج، ہوا کے دوش پر ماضی کی یادیں، نجف اشرف،
پیکر مہر و وفا ، حضرت عباس علمدار کے روضہ اقدس پر،
ہر دور میں حسین کا غم لازوال ہے، سوئے نجف، وادی سلام،
باب علم کے در پر، اسلام کی چوتھی بڑی مسجد ، مسجد کوفہ،
آلِ رسول کے در پر، زينب فخر النساء، امام عالی مقام کے روضہ مبارک پر، سوئے بغداد، اہل علم و صوفیاء کے در پر، یہ بڑے نصیب کی بات ہے، در کاظمین پر ، امام ابو حنیفہ ، بغداد میوزیم ، حسن بصری کے شہر بصرہ کی جانب ، حسن بصری کے مزار پر حاضری
، ابن سیرین کے مزار پر حاضری، دجلہ و فرات کے کنارے کے نام سے عنوانات باندھے گئے ہیں ۔
وہ جن جن مقامات پر گئیں ان کی تمام تر تفصیلات کو کتاب میں درج کیا گیا ہے ۔ اسی طرح حضرت حسن بصری ، امام ابو حنیفہ اور دیگر شخصیات کے مرقد اور ان کی زندگی کے بارے میں بھی تفصیلات بیان کی گئی ہیں ۔ اس لحاظ سے یہ مسافروں کے لئے گائیڈ بک سی بن گئی ہے۔ ساتھ ہی موضوع کے لحاظ سے منقبت بھی درج کی گئی ہیں جو کتاب کو مزید دلچسپ بنا رہی ہیں۔ ان کی بیٹی عائشہ اور داماد بھی اس سفر میں متحدہ عرب امارات میں ساتھ ریے ۔ ان کا تذکرہ بھی ساتھ ساتھ ملتا ہے۔
سفر نامے میں نصرت صاحبہ کے شوہر نسیم صاحب کی علالت کے باوجود اپنی بیگم کے ساتھ چلنا بھی خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ یہی تو ازدواجی زندگی کی خوبی ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھتے ہیں اور یوں زندگی گلِ زار بنتی چلی جاتی ہے۔ عراق اور بغداد کے لوگوں کے رویے کے بارے میں بہترین ریمارکس دیئے گئے ہیں ۔ یہ تب ہی ہوتا ہے جب کسی ملک کے لوگ سیاحوں سے اچھا سلوک روا رکھیں تو سیاحت میں خاطر خواہ اضافہ ممکن ہو سکتا ہے۔
کتاب کے عنوان کو دیکھ کر اکثر لوگ یہ سوچ سکتے ہیں کہ شاید نصرت نسیم صاحبہ کسی خاص مکتبہ فکر سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ سوچ ختم ہونی چاہیے ۔ تقریظات میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ نصرت نسیم صاحبہ سنی العقیدہ ہیں۔ لیکن یہ تاریخی مقامات اور شخصیات ہم سب کی ہیں۔ صحابہ کرام اور اہل بیت سے محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہونی چاہیے ۔ کسی خاص طبقہ فکر سے ان کو جوڑنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے اور یہی پیغام نصرت نسیم صاحبہ نے دینے کی کوشش کی ہے جس میں وہ خاصی حد تک کامیاب رہی ہیں۔
یہ کتاب اگرچہ پریس فار سے نہیں چھپی لیکن طباعت کا معیار ہو بہو وہی ہے۔ بیتے ہوئے لمحوں کے بعد ایک اور خوبصورت کتاب تحریر کرنے پر نصرت نسیم صاحبہ کو مبارک باد ۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.