رُوس کے مشہور افسانہ نگار انتونی چیخوف نے ایک کوچوان (بگھی بان)کی کہانی بیان کرتے ہوئے بتایاہے کہ اُس کاجواں سال بیٹا فوت ہوگیا۔وہ روزانہ اَپنی بگھی میں بیٹھی سواریوں کو اَپنے بیٹے کی کہانی سُناتا۔اَپنے اَلمیے کو بڑے درد سے بیان کرتااَور سواریوں کاردّعمل دیکھتا۔اس کی گھوڑاگاڑی میں بیٹھنے والے اُس کی کہانی پر کوئی خاص توجہ نہ دیتے تھے۔شام کو جب کوچوان کی اُداسی اَپنے عروج پر ہوتی اَور سواریوں کی عدم دلچسپی کے باعث اُس کاغم دوچند ہوجاتا تو وہ اَپنا دُکھ اپنے گھوڑے کو سُناتا۔
پروفیسر فتح محمد ملک کے خیال میں ہمارے ملک کااَدیب اُسی کوچوان کی طرح ہے۔وہ اَپنا دُکھ قاری کو سُناتاہے۔اَپنی کتھالے کر سب کے سامنے گھومتاہے۔کسی نے قاری کادُکھ سُنانے کی سعی نہیں کی لِہٰذاکوچوان کی سواریوں کی طرح ہمارے معاشرے کاقاری بھی ہمارے اَدیب کی داستان میں دلچسپی نہیں لیتا۔کیوں کہ اس کی اَپنی داستان ہمیشہ ان کہی رہتی ہے۔
جاوید خان پر چھاپ تو سفر نامے کی تھی کہ یکے بعد دیگر ے تین سفرنامے لکھ ڈالے جن سے دو زیور طبع سے آراستہ ہوچکے ہیں۔ایک پر تو موصوف ایک بھاری بھر ایوارڈ بھی وصول کر چکے ہیں۔جو ہمارے لیے عزت کاباعث ہے۔سفرناموں میں اُن کی کتھا کہانی خود اُن کی اَپنی زبانی بیان ہوئی جو بڑی دل چسپی سے ہاتھوں ہاتھ لی گئی۔اَب اُنھیں چیخوف کے کوچوان کی طرح عدم توجہی کاشکوہ نہیں۔اچانک اسی سال کی گرمیوں میں ان کی نئی تصنیف منظرعام پر آئی جس میں انھوں نے کوچوان کی کہانی خود اس کی زبانی کہنے کے بجائے سواریوں کے غم انگیز قِصوں کو چھیڑا ہے۔ہم بات کرنے لگے ہیں۔اُن کی تصنیف ”فقیر نگر کے باسی“کی جو فکشن ہاؤس جیسے ادارے نے 2023؁ء میں چھاپی ہے۔
جاوید نے (جومیرے شاگرد خاص ہیں)مجھے ایک تپتی دوپہر کو جُون کی گرمی میں یہ کتاب عنایت کی تو میں نے اس پر تبصرہ لکھنے کی عرض سے ورق گردانی شروع کی۔دفعتاًمجھے احساس ہواکہ یہ تصنیف ورق گردانی والی نہیں ہے۔اسے فُرصت کے لمحات میں پڑھناپڑے گا۔جب پڑھاتو دل سے نکلی ہوئی اس تحریر نے مجھے تقریباً بے بس کردیا۔کیالکھوں؟کس طرح ہمت کروں۔یہ تونوحے ہیں جو معاشرے کے اُن لوگوں کی یاد میں کہے گئے ہیں۔جو کل ہمارے ساتھ تھے۔ہنستے مُسکراتے چہرے۔زندگی کی رعنائیوں سے بھرپور بُشرے۔ان میں سے کئی کردار تواَیسے ہیں جن سے میرے بھی ذاتی مراسم تھے۔اَور جن سے مراسم نہیں تھے وہ بھی کسی ایک آدھ ملاقات کی یاد میرے قلب پر چھوڑ چکے ہی تھے۔افطارحسرت،جن سے میں کوٹلی شہر میں 1969؁ء میں ملاتھا۔یہ ملاقات اتفاقیہ تھی۔انھوں نے میرا بھی ہاتھ دیکھااَور ایک بڑی پیش گوئی کی تھی جو آج تک پوری نہ ہوسکی۔زرداد حسرت،جو رہاڑہ سکول میں مجھ سے چند کلاسیں آگے تھے۔بلاکے مقرّراَور طبعیت کے انتہائی اچھے طالب علم شمار ہوتے تھے۔پھر ایک بار مَیں اوپن یونی ورسٹی میں جز وقتی اتالیق کے طور پر بی اے (اُردو) کے طلبا و طالبات کی مشقیں بھی میرے پاس پڑتال اَور نمبراندازی کے لیے آئیں۔وہ اپنی مشقیں کچھ اس طرح مرتب کرتے اَور سوالوں کے جوابات اس انداز میں دیتے کہ باقی تمام طالب علموں سے یک سر مختلف ہوتیں۔وہ اُن لوگوں میں سے تھے جو ذہنی طور پر عام سطح سے بہت بلند،سوچ میں اَرفع اَور اپنے پیشے میں یکتاہواکرتے ہیں۔ہمارے معاشرے کے بہت سے ذہین افراد معاشی تنگ دستی کی وجہ سے زندگی میں وہ کردار اداکرنے سے رہ جاتے ہیں،جو وہ بہ خوبی اداکرسکتے ہیں۔زرداد صاحب اُن میں سے ایک تھے،اللہ انھیں اپنی مغفرت و رحمت خاص سے اعلی ٰ درجوں ہرمتمکن فرمائے۔
ایک کردار جو انھوں نے اپنی اس کتاب کی زینت بنایاہے،وہ سائیں شیراکاکردار ہے۔تصوف کی دُنیامیں تنّوع بہت ہے۔سائیں شیرا کو میں نے بہت قریب سے دیکھاتھا۔وہ آٹھوں گانٹھ کمیت تھا۔اپنے فن (اگر اسے فن کیاجائے)میں بڑاپکاتھا۔اس کاگھر  ان مخصوص دنوں میں لوگوں سے بھراہواہوتا۔کسی کوجادُو بتاتا،کسی کو جن کاسایہ کہتا۔اپنی اس مخصوص کیفیت میں توتلابن جاتامگر پھڑ پھڑاتے پپوٹوں اور مُندھی ہوئی آنکھوں سے دمڑیوں (پیسوں اَور رویوں)کاحساب بالکل صیحح کیاکرتاتھا۔مثلاً اگر کسی سے پینتالیس دمڑیاں (روپے)مانگتاتو آنکھیں بند کیے رکھتا۔اگر پچاس کانوٹ دیاجاتاتو پانچ واپس کرتا۔پھر ایک گلاس جس میں پانی ہوتا،پرباربار ہاتھ مارتا۔پھر پیچھے کمر کے ساتھ لگادیتا۔جہاں شاید اس کاکوئی موکل (ممکن ہے گھر والاکوئی فرد)اسے ایک تعویذ تھمادیتا۔چوتھی یاپانچویں بار ہاتھ گلاس پر مار کر کہتاکہ دیکھو کچھ آتاہے۔تعویذ آجاتاتوسائل اپنے تمام کاحل لے کر خوشی خوشی وہاں سے رُخصت ہوتا۔بوڑھیاں اپنی بہوؤں کی شکائتیں لے کر حاضر ہوتیں۔نوجوان لڑکیوں کو ساسوں کی ایف آئی آر کروانی ہوتی۔سائیں شیرااپنے توتلے لہجے میں اَیسے اَیسے ڈائیلانگ بولتاکہ نفسیات کاماہربھی ہپناٹزم کے اس معجزے کو دیکھ کرحیران ہی ہوجائے۔راولاکوٹ کی مابعدُالطبعیاتی تاریخ میں موصوف کاکردار لازوال رہے گا۔جاوید خان نے سائیں کی شخصیت جو تصویر کھینچی ہے وہ اپنے خدوخال کے ساتھ عوام کی سائیکی کو بھی ہمارے سامنے لاکھڑاکرتی ہے۔
حنان اور ایمان ایسے کردار ہیں جو المیہ پر زندگی کااحتشام کرتے ہیں۔ان کے بارے میں پڑھتے ہوئے کوئی بھی قاری بہتے آنسووں اور دُھندلی آنکھوں کے بغیر آگے نہیں جاسکتا۔موٹر بائیک کے حادثے نہ جانے کتنے گھروں میں سے حنّان جیسی ہستیوں کو چھین چکے ہیں۔اَور ایمان جیسی کتنی نازک شہزادیاں ہمارے میڈیکل کے شعبے کی لاپروائی کاشکار ہوچکی ہیں۔
گولو پہائی (گلوپہائی)میڑوپہائی،مصری پہائی،وہ معصوم کردار ہیں جو کسی معاشرے میں تبسم سے لے کر ضحک کاباعث ہوتے ہیں پروفیسر سید حسین خاموش اَور سید فاضل حسین شاہ بخاری کے کردار ان کے خاکوں میں نمایاں ہوکر سامنے آتے ہیں۔
جاوید ایک صاحب طرز اَدیب طرز اَور اَسلوب اَدیب ہے۔جس نے اپناقدکاٹھ اپنی تحریروں کے بل بوتے پر قائم  رکھاہواہے۔اللہ اس کے قلم کے اَثر میں اضافہ فرمائے۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content