بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

تبصرہ : قانتہ ربعہ

ہلکے پھلکے موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے اچانک سنجیدہ قسم کا موضوع چھیڑ دیا جائے تو سارے ماحول کی فضا بدل جاتی ہے ۔قہقہے اور مسکراہٹیں ،فکر و تدبر اور سسکیوں میں منتقل ہو جاتی ہیں اسی طرح روٹین کے مطالعہ سے ہٹ کر ایسی کتاب ہاتھ میں آجائے جس نے زوال۔کی نشاندہی کی ہو،شاندار ماضی کی جھلک دکھا کر پراگندہ حال اور بھیانک مستقبل کا نقشہ کھینچا ہو تو الفاظ ،الفاظ نہیں رہتے خون چوسنے والی بلائیں بن جاتے ہیں  ہاں اگر اس زوال کے اسباب کے ساتھ ساتھ طریقہ علاج سے آگاہ بھی کیا گیا ہو تو  اچھے مستقبل کی امید اور آس پیدا ہوتی ہے۔

اس وقت میرے پاس ایسی ہی کتاب ہے جو  تعلیم اور تحقیق دونوں میدانوں میں شاہکار ہے مک پاکستان میں قیام پاکستان کے وقت شعبہ تعلیم کی کءا صورت تھی شرح خواندگی کتنی تھی سے اب تک کے روح فرسا سفر کی مدلل داستان ہے۔

پروفیسر آفتاب خاں صاحب اک مدت دراز تک جامعہ ذرعیہ فیصل آباد میں شعبہ تعلیم سے وابستہ رہے ہیں تدریس کے ساتھ ساتھ تحقیق ان کا میدان رہا ہے۔ دردمند دل رکھتے ہیں اور حساس ذہن کے مالک ہیں یہ کتاب اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ساری کتاب شعبہ تعلیم اور نظام تعلیم کی خرابیوں کی نشاندہی اور مثبت حل پر مشتمل یے اگر ان کی دی گئی چند تجاویز پر بھی صدق دل سے عمل کر لیا جائے تو سو فیصد درستگی کے امکانات ہیں لیکن اس کے لیے ہمیں اپنے نظام تعلیم میں نصاب تعلیم میں کچھ تبدیلیاں لانی ہوں گی ان کالی بھیڑوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا جو ہمارے اس مقدس شعبہ کی بدنامی اور زوال کا باعث ہیں۔

پوری کتاب مدلل اور مستند حوالہ جات کے ساتھ لکھی گئی یے اس کتاب سے ڈاکٹر صاحب کی اپنے مشن اپنے مک اور اپنے دین سے سچی محبت کا اظہار ہوتا ہے۔

پیش لفظ اپنی جگہ ایک بھر پور مقالہ کا مواد سموئے ہوئے ہے ۔آغاز ہی میں فاضل مصنف نے قیام پاکستان کے وقت گیارہ فیصد شرح خواندگی کا ذکر کیا ہے جو 1951ء کی مردم شُماری میں بڑھ کر 14فیصد ہو چکی تھی اس طرح سالانہ ایک فیصد اضافہ بھی خوش آئند بات تھی ۔اگر یہی شرح خواندگی برقرار رہتی تو اگلے چوہتر سالوں میں یہ 88فیصد ہوجاتی لیکن ہمارے غلط فیصلوں نے اس پر منفی اثرات مرتب کیے اور 1998 ء کی مردم شُماری کے مطابق یہ شرح صرف 43.92فیصد تک پہنچ پائی یعنی اگلے 51سالوں میں صرف 33فیصد اضافہ ہوا ۔ اس جائزے کے بعد کچھ فوری فیصلوں پر عملدرآمد کیا گیا اور 20221ء کی مردم شُماری میں یہ شرح 60 فیصد ہو سکی ہے۔ پاکستان کے حالیہ معاشی جائزہ کے مطابق ملک کے اڑھائی کروڑ بچوں نے سکول کا منہ تک نہیں دیکھا ۔دوسری جانب دوسری جنگ عظیم میں جاپان اور جرمنی بری طرح تباہ و برباد ہوئے لیکن دونوں ممالک نے تیزی سے اپنی بربادی اور تباہی کا مداوا کیا اپنے ممالک کے لیے ترقی کے اسباب پیدا کئے اور بہت جلد اپنی معیشت کو سنبھالا دے کے دنیا کے درجنوں ممالک سے آگے نکل گئے۔

اس کی وجہ  مضبوط اور مربوط نظام تعلیم تھا جس نے با شعور نسل کو پروان چڑھایا۔

ڈاکٹر صاحب نے بہت عرق ریزی سے سارے نظام کا جائزہ لیا اور پرائمری سکول تعلیم ،سیکنڈری ،اور کاج یونیورسٹیوں کے مسائل کا الگ الگ سے مضمون باندھا ہے ۔ان کے تجزیے بہت حد تک درست ہیں اس سے انکار ممکن نہیں لیکن ان تجزیوں سے اگر سبق نہ لیا جائے اصلاح کی کوششیں نہ  کی جائی تو یہ زیادہ پریشانی کی بات ہے ۔

ماضی میں پرائمری سکول کے بچے کی تعلیم کا آغاز پانچ سال کی عمر سے ہوتا تھا۔ بچے کے سکول کے بستے میں ایک  دو قاعدے اور سلیٹ ہوتی تھی ۔بچے کی تعلیم میں دہرائی کے عمل کو خصوصی طور پر اہمیت حاصل تھی اس لیے کسی بھی بچے کو علامہ اقبال کی،،لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری،یاد نہیں کروائی جاتی تھی بلکہ بچے سن سن کر یاد کر لیتے تھے۔ دوسرا یہ عنصر بھی اہم تھا کہ سرکاری ذریعہ تعلیم میں انگریزی کو ایک مضمون کی حیثیت سے پرائمری کے بعد پڑھایا جاتا تھا ۔اب بچے کو نرسری ۔،پلے گروپ ،مونٹیسوری ،پری نرسری کے نام پر دو سال کی عمر میں سکول بھیج دیا جاتا ہے ۔سکول بیگ بھاری بھرکم اور انگریزی اردو کے ساتھ عربی بھی پڑھائی جاتی ہے۔

ڈاکٹر صاحب نے پرائمری کے بعد سیکنڈری سکول تعلیم کے مسائل بیان کئے ہیں جن میں نہبچوں کی اخلاقی تعلیم سے غفلت ،سر فہرست ہے کالج یونیورسٹی اور ہائر ایجوکیشن میں نوجوان طلبہ و طالبات کے مسائل میں عملی تعلیم کارسمی حد تک رہ جانا اساتزہ کرام کا صرف لیکچر ادا کرنا اور رہنمائی کے فرض سے دوری بھی شامل ہے یہی نہیں پروفیشنل اداروں کی بھاری بھرکم فیسیں ( اس ضمن میں اسلامک یونیورسٹی کے مرحوم ڈاکٹر محمود غازی صاحب کا چشم۔کشا تجزیہ بھی دیا گیا ہے) یونیورسٹیوں میں مالی معاملات میں بد دیانتی کے علاؤہ بھی دیگر اذیت ناک امور تحریر کئے گئے ہیں۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن کے قیام ،اغراض و مقاصد اور اس کی پالیسیوں کو زیر بحث لاتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے اس کے اندر چھپ کر  ان لوگوں کو موضوع بنایا ہے جو بڑے بڑے پروجیکٹ حاصل کرنے کے بعد کمیشن کی رسوائی کا باعث بنتے ہیں  ،کمیشن میں کس طرح ریسرچ فنڈ کو مشک ترین بنایا گیا ہے ،سائنسی مضامین اور دیگر علوم کے لئے سکالر شپ کی غیر منصفانہ تقسیم اور ایم فل ،پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے لیۓ طلبہ کو کن  مشکلات اور سنگین مراحل کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔

کتاب میں تمام تعلیمی کانفرنسوں ،یکساں نصاب تعلیم ،نظام تعلیم میں دورنگی  ،پر بھی سیر حاصل تجزیہ اعدادوشمار کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔

کتاب میں متعلقہ موضوعات پر یعنی نصاب تعلیم ،نظام تعلیم وغیرہ پر دیگر محققین کے مضامین بھی شامل ہیں ڈاکٹر سعید احمد ملک ،محمد اظہار الحق ،سلیم منصور خالد ڈاکٹر اسماء آفتاب کے مضامین بطور خاص معلومات سے بھرپور اور دلچسپ ہیں  کتاب بیک وقت ادبی انداز میں بھی تحریر ہے اور مکمل۔تحقیق کے ساتھ بھی مضمون کا رنگ لیے ۔کتاب میں شعبہ تعلیم کا تعارف اور کاکردگی کا احاطہ بھی کیا گیا ہے۔ امید ہے علم اور شعبہ تعلیم سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ بے بہا تحفہ ثابت ہو گی ۔تنظیم اساتذہ پاکستان اور پاکستان ایگری کلچرل سائینٹسٹس فورم کے زیر اہتمام شائع ہونے والی کتاب کا ان مختصر سطور میں احاطہ ممکن ہی نہیں ۔بلا شبہ یہ اپنے عہد کی ایک قیمتی کتاب ہے جسے مصنف نے بہت محنت اور خلوص دل سے اشعار کے ساتھ مزین کر کے ،مختلف مشاہیر کے اقوال کے آئینے میں تحریر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر محمد آفتاب خاں صاحب کو صحت سلامتی کے ساتھ عمر دراز عطا فرمائے ۔ہمارے لیے کتاب اور صاحب کتاب دونوں ہی قیمتی اثاثہ ہیں۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content