تبصرہ نگار۔۔انعام الحسن کاشمیری

محترم حافظ ذیشان یاسین کی تخلیق ”اسیر ماضی“ ایک شاندار کتاب اور پریس فار پیس پبلی کیشنز کی ایک یادگار اشاعت ہے۔ یہ مجموعی طور پر ایک افسانوی مجموعہ ہے اور جس میں علامتی اور تجریدی افسانہ نگاری کے مختلف پہلوؤں کے مطابق افسانے بیان کرنے کی خوبصورت کوشش کی گئی ہے۔ حافظ ذیشان یاسین بنیادی طور پر عالم دین اور جامعہ اشرفیہ لاہور کے فارغ التحصیل ہیں۔ ان کے قلم کی روانی، الفاظ کا چناؤ، جملوں کی ترتیب وسجاوٹ، خیالات کی عمدہ عکاسی، تصورات کا حسین پیراہن، بچپن ولڑکپن کے گم گشتہ ماضی کی کامیاب کھوج اور پھر اس کھوج کو صفحہ قرطاس پر الفاظ کے موتیوں کی صورت بکھیرنے کی ان کی کوشش ”اسیر ماضی“ میں جابجا دکھائی دیتی ہے۔ ان کے قلم کی روانی، خیال کی فراوانی، اور ماضی کی دلکش کہانی یہ سب مل کر ایک ایسا عمدہ، دلربا، دل افروز اور نظروں کو خیرہ کردینے والے مناظر تخلیق کرتے ہیں جنھیں حساس قاری پڑھنے کے ساتھ ساتھ چھوکر بھی دیکھ سکتا ہے۔ وہ لوگ جو ماضی سے اپنا رشتہ نہیں توڑتے، ان کے آج میں ان کا گزرا ہوا کل ہی اپنی مکمل جادوئی کیفیات کے ساتھ بسر ہورہاہوتا ہے۔ ذیشان یاسین چناب کے کنارے جس گاؤں میں پلے بڑھے، اور پھر شہر کی رونقوں میں جس طرح جوانی بسر کی، اس کے باوجوداس ماحول نے ان پر اپنی گرد نہیں جمائی۔ وہ جس ماحول کے پروردہ تھے، اسی خول ہی میں خود کو مقید رکھا جس کی جھلک ”اسیر ماضی“ میں جابجا دکھائی دیتی ہے۔

 فطرت کی رعنائیاں اور قدرت کے حقیقی مظاہر تو شہری زندگی سے کہیں دور پہاڑوں، وادیوں، صحراؤں یا دریاؤں کے وسیب میں ہی دکھائی دیتے ہیں۔ جھرنوں کا مترنم شور، جھیلوں کی قاتل خاموشی، دریاؤں کی مسخرانہ روانی، پھولوں کی لطافت انگیز خوشبو، پرندوں کی مسحور کن چہچہاٹیں، چاندراتوں کا طلسم، پیلی دھوپ کی نکھری رنگت، ساون رتوں میں بیتی یادوں کی کسک، یہ سب وہ عناصر فطرت ہیں جنھیں ہمارے کوہساروں اور ہمارے کھلے میدانوں کے باسی شعور کی آنکھ کھولتے ہی دیکھتے اور پھر ان کی لطافت سے حظ اٹھاتے اٹھاتے جوان ہوتے چلے جاتے ہیں اور یہ سب وہ راز ہیں جن کی تلاش میں شہروں کا مشینی انسان روبوٹ کی طرح دن رات خود کو دوڑا دوڑا کر ہلکان کردیتا ہے لیکن چاندنی راتوں میں پھیلی روشنیوں کی خیرہ کن لہریں اس کے چشم محدود کے حصار میں نہیں آسکتیں۔ ذیشان یاسین نے ایسے طلسمی نظاروں کو لفظوں کا پیراہن دے کر بیان کرتے ہوئے اس نظارے کے کھوجی اور متلاشی کی مایوسی اور محرومی کو اور زیادہ بڑھاوا دے دیا ہے۔

پھر گزرتی ہوئی ہوا سے کچھ حوصلہ ادھار لے کر میں نے لجاجب سے عرض کیا”جدا ہونے کے لیے حاضرہوا ہوں، خزان کی آمد ہے، بچھڑنا چاہتا ہوں۔“ یہ جملے اسیر ماضی ہی کے عنوان سے ایک افسانے کے ہیں اور جن کی بناوٹ سے صاف عیاں ہوتا ہے کہ کتاب جس موضوع کا احاطہ کرتی ہے، الفاظ اور جملے اس کی مکمل ترجمانی کرتے ہیں۔ محبت، الفت، رازو نیاز، دوستی دشمنی، مادیات اور روحانیات کی باتوں کے ذکر کے لیے پھر ایساہی ماحول، الفاظ اور جملوں کی ہیئت ترکیبی چاہیے ہوتی ہے۔ جس طرح ساون رت کی بارش میں قطروں کی جھڑی ایک تسلسل کے ساتھ اپنی روانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے احساس اور کسک کے کئی در دل میں وا کرتی چلی جاتی ہے تو یہ سب دراصل اس ماحول کی مرہون منت ہوتا ہے جو ساون کی یہ جھڑی تخلیق کرتی ہے۔ قطرے دراصل الفاظ ہیں، ان کا تسلسل جملے ہیں اور ان کا احساس افسانے ہیں اور ان کی کسک دراصل وہ باتیں ہیں جو یہ افسانے ایک کے بعد ایک بیان کرتے ہیں۔

”چناب کے دکھ“ میں ذیشان یاسین کا قلم اپنی خوب جولانی دکھارہاہے۔ ”اٹھکیلیاں کرتی نرم ولطیف سب رو ہوا کا انداز خرام جاں افروز تھا۔ چناب کی لہراتی بل کھاتی سب خرام موجوں میں جھملاتا چاند کا عکس اک منظر سحر انگیز تھا۔ دریا اور بیلے پر اتری خزان کی خاموشی، رات کا سناٹا اک عجب حیرت کدہ تھا“ یہ وہ ساحرانہ ادائیں ہیں جو ذیشان یاسین کا قلم دکھاتا ہے۔ پوری کتاب، ہر افسانہ ایسے ہی خوبصورت، دل کو موہ لینے والے، دلفریب نظاروں سے بھری ہوئی ہے جنھیں صرف وہی قاری پڑھنے کا کشٹ اٹھا سکتاہے، جو واقعی مطالعہ کا خوگر ہو اور جو ہاتھ بڑھا کر اپنا ماضی چھونے کی حسرت رکھتا ہو۔ ذیشان یاسین نے اس تمناکی باریابی کے لیے یہ کتاب تخلیق کی ہے۔ ان کی فسوں نگاری دراصل ایک ایسا ماحول بناتی ہے جس کا اولین تقاضا یہی ہے کہ شوروغل سے دور، کسی انجانے گوشے میں بیٹھ کر جہاں ہوا کے دوش پر سفر کرتے پرندوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ بھی سنائی نہ دے، یہ کتاب پڑھی جائے۔

آج کے سوشل میڈیا ئی دور میں ذیشان یاسین کے قلم نے جو موضوع منتخب کیا اور پھر اس کی بندشوں اور بندھنوں کی نقرائی گرہوں کو کھول کھول کر بیان کیا ہے اور جس چناب کے کنارے انھوں نے اپنی زیست تمام کرنے کی ٹھان رکھی ہے، اس کے پانیوں میں ہمیں جھانکنے اور اپنا اپنا عکس دیکھنے کاجو موقع مہیا کیا ہے، یہ بڑاانوکھا، اور درحقیقت دل کو لبھانے کی ایک کامیاب کوشش ہے۔ میں محترم حافظ ذیشان یاسین کو ایسی خوبصورت تخلیق پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ پریس فار پیس پبلی کیشنز کے ذمہ داران جناب ظفراقبال داد وتحسین کے مستحق ہیں کہ وہ ایسی خوبصورت اور معیاری کتابیں چھاپ رہے ہیں۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content