نصرت نسیم
جب آپ کئ ماہ سے صاحب فراش ہوں۔اداسی اوردلی گرفتگی کی دھند چھائی ہو ۔اورایسے میں اچانک پوتا پارسل لے آے۔اورآپ سوچتے رہیں ۔کہ نہ کسی نے بھیجنے کو کہا نہ کتاب منگوائی ۔یااللہ کراچی سے یہ کس مہربان کی عنایت ہے ۔
خیر لفافہ چاک کیا تو محترم حافظ یسین صاحب کی “اسیر ماضی ” دیکھ کر سمجھ گئ کہ یہ برادر محترم ظفر اقبال صاحب کاتحفہ ہے۔پریس فار پیس
سے چھپنے والی کتابیں وہ محبت اور تو اتر سے بھجواتے رہتے ہیں ۔جن پر بوجہ علالت اب تک تبصرہ نہیں کر پائی۔
کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے”والی کیفیت ہے ۔اوران کتابوں میں بہت مہربان ہستیوں کی کتابوں میں پیاری رباب عائشہ اور قانتہ جی کی کتابیں( جن کی محبت کی میں مقروض ہوں)سرفہرست ہیں۔کتاب ہاتھ میں لی ۔تو اداسی ،دل گرفتگی کی دھند روشنی سے چھٹ گئ۔
کتاب کے انتساب اور خوبصورت تراکیب نے متاثر کیا۔
کچھ مزید ورق گردانہ کی تو اقبال کا شعر در دل پر دستک دینے لگا۔
خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو
سکوت لالہ وگل سے کلام پیدا کر
زیشان یسین صاحب فطرت شناس بھی ہیں اور فطرت پسند بھی ۔
خود شناسی اور دنیا شناسی خداشناسی کی منزل تک پہنچنے کا زریعہ ہیں۔
جوش ملیح آبادی کا ایک شعر یاد آیا
۔ہم اہل نظر کو ثبوت حق کے لئے
اگر رسول نہ آتے تو صبح کافی تھی
مظاہر فطرت ہی رب العالمین کے جمال وجلال اورمصوری وخلاقی کے مظہر ہیں مگر اس کاکیاعلاج کہ دور جدید کا ترقی یافتہ انسان فطرت کی تباہی کا سبب بن رہا ہے۔
نوستلجیئای کیفیات سے مزین ان نثر پاروں میں جھلملاتے جگنوؤں کی چمک،
تتلی کے خوش رنگ پروں،تاروں کی چمک،اورسہانے بچپن کی یادیں ہیں تو دوسری طرف سوکھتی جھیلوں ،معصوم چڑیوں ،جگنووں،خوش رنگ طوطوں
اور تتلیوں کی معدومیت کا نوحہ بھی ہے ۔
وسیع ذخیرہ الفاظ ،بہترین تراکیب اور عمدہ اسلوب لیے” اسیر ماضی “واقعی اسیر ماضی ہے ۔کتاب کاعنوان مواد کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔
ابرار گردیزی صاحب کا بنایا ہوا سرورق
اسیر ماضی کی کیفیات کو بیان کرتے ہوئے انگوٹھی میں نگینے کی طرح فٹ ہے۔ لوٹ پیچھے کی طرف گرد ش ایام کی تفسیر کرتی گھڑی نوستلجیا کی کیفیت کوعمدگی سے بیان کر رہی ہے ۔تو دوسری طرف کی تصویر میں نیلے امبر،دلکش بادلوں ،پرواز کرتے پرندے ،بلندکہسار،اونٹ اور ساربان دشت میں محو سفر مصنف کو دیکھ کر ساربانوں کے اداس گیت سنائ دینے لگتے ہیں ۔اداسی اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔
گردیزی صاحب کے بیشتر سرورق شوخ رنگوں سے مزین ہوتے ہیں۔جب کہ ہلکے رنگوں سے بنا یہ سرورق منفرد اوردل کش ہے۔
کتاب کو اتنی محبت اورعمدگی سے شائع کرنے پر پریس فار پیس فاؤنڈیشن کی محنتی ٹیم اور اس کے روح رواں بردار ظفر اقبال صاحب مبارکباد اور ستائش کے مستحق ہیں ۔
مصنف کو اسیر ماضی کا دوسرا ایڈیشن
مبارک ہو۔
اللہ کرے زور رقم اور زیادہ
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.