مصنفہ :تہذین طاہر
تبصرہ نگار: فضل حسین اعوان
یہ ہمہ جہت تحریروں کا گلدستہ ہے۔صرف کہنے کی حد تک نہیں ، حقیقت ہے۔ اس میں کیا ہے، کیا کیا ہے؟، میں نے اس کاایک ایک لفظ پڑھا۔لکھاری کو جانا، جانچا پرکھا۔ میرا سوال یہ ہے کہ اس میں کیا نہیں ہے۔ پیار، محبت، عشق، تصوف، تریعت، طریقت، رسم و رواج، سیرو سیاحت، لگاؤ رکھاؤ، برتاؤ، طریقہ قرینہ سلیقہ، مجلس آداب مجلس۔ ہر فطرت، ہر قسم، ہر عمر کے افراد، عورتوں مردوں، لڑکوں لڑکیوں بچے بچیوں سب کے لیے یکساں دلچسپی کا سامان لئے ہوئے۔
ایک ایسی لڑکی کی داستان جو کبھی جنگل و صحرا میں بال بکھیرے آنسو بہاتے پھر رہی ہے۔کبھی ہجر کی ستائی ہوئی، وصال کی متمنی…. تو کبھی سیر گاہوں میں گنگناتی، چہچہاتی نظر آتی ہے۔ اپنے محبوب کی آغوش میں سر رکھے دنیا و مافہیا سے بلکہ ہر غم سے بے نیاز ۔
کتاب میں عشق و مستی، لجاجت انکساری بے حسی و بے بسی بھی ملے گی۔ عشقِ حقیقی نظر آرہا ہے توعشق مجازی بھی موجود ہے ۔ یہ سب کچھ وہ اپنے اوپر طاری کر کے بتاتی ہے۔ زیادہ آسان الفاظ میںآج کی جدتوں سے آشنا لڑکی اپنا سب کچھ محبوب پہ لٹا کر مطمئن نظر آتی ہے۔ پچھتاوے کا اظہار بھی کرتی ہے۔ اپنے جذبات کی آخری منزل پر دکھتی ہے۔اسی عصر و عمر کی جنس مخالفت کی بات لی جائے تو وہ کہیں وفاؤں میں منزل اولیٰ پر نظر آتا ہے تو کہیں جذبات کے نکتہ کھولاؤ پر آسمانوں پر اڑ رہا ہوتا ہے۔
کتاب میں سیر گاہیں ہیں،کوچہ و بازار ہیں،دکھ ہیں، سکھ ہےں، محبت تو ہے مگر نفرت کے اظہار میں جہاں ضرورت ہے اس سے بھی گریز نہیں ہے۔ ہر عمر کے لوگ اسے پڑھ کر بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔ پڑھتے ہوئے آپ کو آہیں سسکیاں ،رونا دھونا ، آنسو اور ساتھ ہی قہقہے سنائی دیں گے۔ خوشیاں دکھائی دیں گی۔اور وہ سب جذبات ہیں۔ آگاہی و لذت آشنائی ہے۔ رہنمائی و منزل کی نشاندہی ہے۔
بچپن، لڑکپن، جوانی، ادھیڑ عمری، بڑھاپے کی باتیں، خوابوں کا ذکر حقیقتوں کا تذکرہ، تاریکی و روشنائی، شب و روز، نمازیں روزے، صدقہ و صدق، سچ کھوٹ سب پر کہیں نہ کہیں بات کی ہے۔ایسی کتاب سوشل میڈیا کے ذکر اس کی التفات اور خرافات و خرابات کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ وہ بھی اس میں ہے۔ لکھاری کو ایسے ہی کئی حسین خوشگوار اور مایوس کن حالات سے خود گزرنا پڑا۔ محبت میں مایوسی میں گھرے اور کامیابی کے متلاشی لوگوں کو یہ اپنی آپ بیتی لگے گی۔ ایسا ایسا جذباتی ماحول بھی بنا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کو لگتا یہ سب آپ کے اوپر گزر رہا ہے۔
پڑھتے جائیں تو رائٹر آپ کو کسی اور ہی دنیا سے روشناس کرا رہا ہوتا ہے۔ آپ بے خود ہو جاتے ہیں۔ اپنا آپ کھو دیتے ہیں۔ آپ رائٹر کی طرح سوچ رہے ہوتے ہیں۔ جس کیفیت میں اس نے لکھا وہ کیفیت آپ پر طاری ہو جاتی ہے۔
رائٹر کی شخصیت بارے آپ کتاب پڑھنے کے بعد بھی حتمی رائے و اندازہ نہیں کر سکتے ہیں کہ وہ کیا ہیں ۔ میں نے اس سے پوچھاتو جواب تھا مجھے خود پتہ نہیں کیا ہوں۔ بہر حال ان کی خودداری اور خود فراموشی ساتھ ساتھ…. وضعداری ایسی کہ کوئی کہہ دے یہ دے دو وہ دے دو بہت خاص بھی تو انکار کیسے کیا جاتا ہوگا۔
پگلی کی مصنفہ ۔۔۔ جرنلسٹ تہذین طاہر ہیں۔ یہ ان کی فیس بک پر شائع ہونے والی پوسٹیں ہیں۔ جس میں ان کے اپنے جذبات بھی شامل ہیں۔ دوستوں کے خیالات کا حصہ بتایا ہے۔ ٹرین، بائیک، بس، ویگن پر سفر کرتی ہیں۔ ان کے تجربات کو شیئر کیا ہے۔ اپنی محبتوں کے بارے میں بتایا ہے۔ نوجوان نسل جن مسائل سے دوچار ہے ۔ ان کی نشاندہی کرنے کے ساتھ حل بھی بتاتی ہیں۔ پھول میگزین سے دس سال سے منسلک ہیں۔ نوائے وقت میں آرٹیکل بھی شائع ہوتے ہیں۔
پگلی ان کی پہلی کاوش ہے۔ جو ہر نوجوان لڑکی اور لڑکے کے دل کی آواز ہے۔ پگلی کتاب آن لائن آپ کو مل سکتی ہے جس کی قیمت15سو روپے ہے جو رعایتی قیمت تک12سو روپے میں آ پ کو پاکستان میں ہر جگہ دستیاب ہوگی ۔ آپ کی خواہش پر تہذین طاہر کے آٹو گراف کے ساتھ آپ کو کتاب روانہ کی جائے گی۔
واٹس ایپ
0303-7705963