تبصرہ:سجاد گل بسالوی

سجاد گل بسالوی
سجاد گل بسالوی

لکھ پنجابی بول پنجابی
دل دا کنڈا کھول پنجابی

ساگ نوں دھر کے روٹی اتے
لسی دا پی ڈول پنجابی

پنجابی شاعروں کی بات کی جائے تو
گرو نانک پندریں صدی کے معروف پنجابی شاعر گزرے ہیں ۔  بارہویں اور تیرہویں صدی کے بابا فرید الدین گنج شکر کو پنجابی کا پہلا شاعر کہا جاتا ہے۔

 گرو رام داس،شاہ حسین، سلطان باہو  سولہویں صدی کے معروف پنجابی شاعر تھے۔
اسی طرح سترہویں صدی کے نامور پنجابی شاعر بابا بلھے شاہ،گروگوبند سنگھ اور صالح محمد صفوری تھے۔
اٹھارویں صدی کی بات کی جائے تو وارث شاہ اور خواجہ غلام فرید کا نام بولتا ہے۔
انیسویں صدی کے پنجابی شاعروں میں میاں رجب علی اور میاں محمد بخش کا نام آتا ہے۔
جب کہ بیسویں صدی میں میر تنہا یوسفی، انور مسعود،حیدر علی آتش،بھائی ویر سنگھ، فیض احمد فیض،استاد دامن، احمد راہی اور منیر نیازی کے ناموں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
پنجابی شاعری کا یہ سفر جاری و ساری ہے اور میرے ہاتھوں میں موجود ہے۔ اکیسویں  صدی کی پنجابی شاعرہ  رفعت انجم کی کتاب   “عشق دا سوتر”۔
اس کتاب میں موجود ایک شعر نے میری روح کو اپنے حصار میں لے لیا۔
دل نوں کنڈی لا کے رکھ
اپنا آپ بچا کے رکھ

عشق دا سوتر رفعت انجم
عشق دا سوتر رفعت انجم

رفعت انجم صاحبہ کا یہ شعر اپنے اندر پوری ایک کائنات رکھتا ہے۔یہاں دل سے مراد خون کا وہ لوتھڑا نہ لیا جائے جس کا کام خون کی ترسیل کرنا ہے۔
دل سے مراد روح اور نفس ہے۔
دِل  اللہ تعالٰی کی نظر کا مقام ہے ،  دِل کی پاکیزگی کامیابی کا ذریعہ ہے ،  اسی کی بدولت  اللہ پاک کی معرفت نصیب ہوتی ہے۔دیکھا جائے تو تصوف کی پوری عمارت  نفس پر کھڑی ہے۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق نفس تین طرح کا ہوتا ہے۔
1۔ نفس مطمئنہ
2-۔ نفس لوّامہ
3-۔ نفس امّارہ
نفس مطمئنہ
ہر حال میں مطمئن یعنی نیکی پر قائم رہنے والا نفس
جو انسان کو اطاعت الہی اور اللہ کے ذکر و فکر میں مطمئن رکھتا ہے اور خواہشات کی کشمش اور گناہوں کے خطراب سے دوررکھتا ہے۔(سورۃ الفجر:27)
نفس لوّامہ۔
گناہ پر ملامت کرنے والا نفس
نفس لوامہ  جو انسان کو گناہوں پر ملامت کرتا ہے کہ یہ کام بہت برا تھا تم نے کیوں کیا (القیامۃ:2)
نفس امّارہ۔
گناہ پر ابھارنے والا نفس۔ جو انسان کو گناہوں پر آمادہ کرتا ہے
(یوسف:53)
دل نوں کنڈی لا کے رکھ
اپنا آپ بچا کے رکھ
یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا کہ رفعت انجم کے مزکورہ شعر میں  نفس اور روح کے اسی مضمون کو انتہائی سادگی سے پیش کیا ہے۔
شعر کی لفظیات اور بنت ایسی باکمال ہے کہ سامعین کے کانوں میں پڑتے ہی شعر اپنی تاثیر قائم کر لیتا ہے۔
ایسا پختہ و پاکیزہ شعر خالصتاََ حق تعالیٰ کی عطا ہوا کرتا ہےاور باالیقین ایسا الہامی شعر خداوند کسی کسی کو عطا کرتا ہے۔
ایسے الہامی خیالات پاکیزہ و مطہر دلوں پر وقوع پزیر ہوتے ہیں جو بغض و کینہ اور گناہوں کی میل کچیل سے پاک ہوتے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں رفعت انجم صاحبہ کو دنیائے ادب میں زندہ رکھنے کے لیے یہی شعر کافی ہے۔
موصوفہ نے ارضِ مقدس کو کس زاویے سے دیکھا ہے ملاحظہ فرمائیں۔

پنج دریانواں دی دھرتی دا ناں اے پاکستان
تن من میرا روح وی میری ایدے تے قربان

ایدی بَنت نہ ہوندی جے گر کلمہ طیبہ اُتے
کدی نہ ہوندی دنیا اتے ایہدی اچی شان

یہ اشعار وطنِ عزیز کی جدوجہد کی پوری داستان کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔نیز ان اشعار میں حبِ وطنیت،امید کی کرن اور جستجو و روشنی کے سفر کے نشانات موجود ہیں اس کے ساتھ ساتھ یہ شعر اپنے سامعین کو ایک  سَچا اور سُچا جذبہ مہیا کرتے ہیں اور مایوسیوں کی گرد جھاڑ کر آگے بڑھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔
یقیناً ان مصرعوں کو اشعار کی لڑی میں پروتے سمے موصوفہ کے ملحوظ ِ خاطر واصف علی واصف کی وہ پیشین گوئی ضرور ہو گی” پاکستان نور ہے اور نور کو زوال نہیں”
اسی طرح رفعت انجم کے پیش نظر نعمت اللہ شاہ ولی کی پیشین گوئیاں اور نبی آخرزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی  سندھ و ہند والی احادیث بھی رہی ہوں گی۔کیوں کہ یہ اشعار اپنے اندر تاریخِ پاکستان اور مستقبلِ پاکستان کا پورا پورا مکتب رکھتے ہیں۔

ساڈے دیس نوں اگ اچ پا کے ہسدے ہو
کڑیاں منڈیاں نو نچا کے ہسدے ہو

ڈھڈ بھردے ہو اس وطن دی مٹی چوں
فیر ایدی بنیاد ہلا کے ہسدے ہو

پہلاں مسئلے دا تے حل کر
اوس تو بعد ای اگلی گل کر

ماں دھرتی نوں رگڑا لایا ای
ایہدیاں مرضاں بہہ کے ول کر

گویا رفعت انجم صاحبہ نہ صرف محبِ وطن ہیں بلکہ آپ ایک روایتی شخصیت بھی ہیں۔یہ شعر آپ کی شخصیت کی مکمل عکاسی کرتے ہیں۔
شاعری کی بات ہو اور عشق کو فراموش کر دیا جائے یہ نہ صرف شاعر کے ساتھ زیادتی  ہے بلکہ شاعری کے ساتھ بھی بدسلوکی کی روش ہے۔
کیتا عشق نے لیرو لیر سجن
میں پھردی وانگ فقیر سجن
کوئی رہبر سچا لبھ جاوے
جیہڑا بدل دیوے تقدیر سجن
ککھ ہوندا نئیں فرق سین شین اندر
ہووے عشق جے سچا بلال والا
سسی رل جاندی وچ ٹبیاں دے
سچے عشق دی پا کے گل وچ مالا
رفعت انجم صاحبہ عشق اور محبت کو جس نظر اور پہلو سے شاعری میں لے کر آئی ہیں یہ انداز نہ صرف قابلِ تعریف ہے بلکہ قابل رشک بھی ہے۔یہ کس عشق کی بات ہو رہی ہے ؟ یہ اس آفاقی اور لافانی عشق کی بات ہو رہی ہے جسے کبھی زوال نہیں جو ہمیشہ لازوال ہے۔
کچھ چٹخارے دار قسم کے اشعار دیکھیں۔

جو کجھ مونہوں بول دتا ای
شجرہ اپڑاں کھول دتا ای

ہاسے دی پٹاری کھولو
سارے وارو واری کھولو

تیرے دل دے اندر بہہ کے زہر پیالا پیتا وے بد نیتا
لوکاں نوں میں کی دساں جو نال میرے توں کیتا وے بدنیتا

کوئی رشتہ بنانڑ توں پہلاں سوچ لویں
ساڑے نال نبھانڑ توں پہلاں سوچ لیویں

دل دا کنڈا بڑا ای اوکھا کھولیا سی
دل دے وچوں جانڑ توں پہلاں سوچ لویں

جد بندہ نمک حرام ہووے تے کی کرئیے
ہرتھاں برائی عام ہووے تے کی کرئیے

سجڑاں کاہنوں رول دتا ای
ککھاں دے وچ تول دتا ای

تینوں سچا عشق سی کیتا
ہر تھاں کر بے مول دتا ای

غیر نوں مالا مال کیتا ای
ایہہ کی میرا حال کیتا ای

ماسی ماں دے ورگی ہوندی
بوہڑ دی چھاں دے ورگی ہوندی

یہ وہ اشعار ہیں جو سماعتوں سے ہوتے ہوئے سیدھے دل پر وار کرتے ہیں ۔لیکن یہ اشعار کے ظاہری خدوخال ہیں، اگر ان مصرعوں کو کھولا جائے تو ہر ہر مصرعہ اپنے اندر ایک تھیسز رکھتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ پنجابی شاعری میں رفعت انجم صاحبہ کی کتاب “عشق دا سوتر” ایک خوش آئند اضافہ ہے۔
“عشق دا سوتر” میں نہ صرف زندگی کے تجربات اور مشاہدات  کو برتا گیا ہے بلکہ اس کتاب میں بہت سے روحانی اور آفاقی موضوعات کو بھی سلیس اور عام فہم انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ رفعت انجم صاحبہ نے روایتی شاعروں اور شاعرات کی طرح صرف اپنی ذات کے دکھ درد کا رونا نہیں رویا بلکہ  سارے جہاں کے کرب  کو محسوس کرتے ہوئے اپنی غزلوں اور نظموں میں احسن انداز میں بیان کیا ہے۔ موصوفہ نےکائنات کے ان بھیدوں کو بھی صفحہِ قرطاس پر بکھیر دیا جو صرف الہامی کیفیت میں کسی صوفی شاعر پر وارد ہوتے ہیں ۔

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact