کتاب : یہ جو چین کو علم سے نسبت ہے
مصنفہ: تسنیم جعفری
زیر اہتمام : پریس فار پیس پبلی کیشنز
تاثرات : کومل یٰسین
پریس فار پیس پبلی کیشنز کا معیار اور کام بولتا ہے ۔کتاب ہاتھ میں لے کر ہی پریس فار پیس پبلی کیشنز کی پوری ٹیم کی محنت کا اندازہ ہوجاتا ہے ۔ سید ابرار گردیزی کی جانب سے شاندار تزئین و آرائش کا کوئی ثانی نہیں ہے ۔ادارے کی شائع کردہ ہر کتاب معیاری ہوتی ہے جو ادارے کی ٹیم کی محنتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
یہ جو چین کو علم سے نسبت ہے تسنیم جعفری کا سفرنامہ چین ہے۔ کتاب چونکہ ہمارے دوست ملک چین کے سفرنامے پر لکھی گئی ہے تو کتاب کی اشاعت کا شدت سے انتظار تھا ۔ اس اشتیاق کو شدت دینے میں تسنیم جعفری کا بھی ہاتھ ہے کیونکہ جب وہ چین کے دورے پر گئیں تھیں تو ادیب نگر گروپ میں پکچرز کے ذریعے ہمارے دلوں میں بھی چین کی محبت کو تروتازہ کرتیں رہتیں تھیں اس لیے بھی یہ کتاب پڑھنے کا شوق پیدا ہوا ۔
مصنفہ تسنیم جعفری صاحبہ چینیوں سے بچپن سے وابستہ ہیں انھوں نے چینی قوم کے خلوص ، محبت ، تعلیم سے محبت اور چین کے مختلف مقامات کی خوب صورتی کو بہت دلچسپ اور رواں انداز میں اجاگر کیا ہے
مصنفہ کی قابلیت قابل داد ہے جنہوں نے چین کی اہم اور دلچسپ معلمومات کو 268 صفحات پر مشتمل کتاب میں اتنی خوبصورتی سے سمو دیا کہ پڑھنے والے کو محسوس ہوتا ہے جیسے وہ چین کی سیر کے ہر مرحلے پر سفر نامہ نگار کے ساتھ ہم رکاب ہو ۔وہ ایک اڑان بھرے اور ائیر پورٹ سے گھر ٬ گھر سے کسی جھیل، کسی پارک، مسجد ،مساج سینٹر یا سیر وتفریح کے مقامات سے اٹھ کر کسی اپنے پاکستانی شہری جو چین میں آباد ہوں ان کے گھر پہنچ جائے ۔
یہ ایک خوبصورت خواب نما سفر نامہ ہے جس میں ہمیں لگتا ہے ہم محترمہ تسنیم جعفری کے سنگ خواب میں چین کی سیر کو نکلے ہیں اور جب ہمارا خواب اختتام پذیر ہوتا ہے تو ہم جہاز میں پاکستان کی جانب گامزن کے ٹو کی برف پوش پہاڑیوں پر دھوپ ٹکرانے کی روشنی سے آنکھوں کے چندھیا جانے کی وجہ سے ایک حسین خواب سے بیدار ہو رہے ہیں ۔
ایک مصنف/مصنفہ کی یہ بڑی کامیابی ہوتی ہے کہ سفر نامے میں قاری کو یہ احساس دلائے کے وہ بھی ہمسفر ہے ،تسنیم جعفری صاحبہ نے اپنے سفر نامے یہ فرض بہت اچھے طریقےسے ادا کیا ہے ۔
میں تسنیم جعفری جیسے باذوق مصنفین کے لیے دعا گو ہوں کہ وہ دنیا کے ایسے مقامات کا سفر کریں جہاں جانا عام آدمی کی بس بات نہیں تاکہ وہ واپس آکر سفر نامے لکھیں اور عوام جو مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں اور ایسے ملکوں کے صرف نام لے سکتے انہیں اپنے ساتھ کبھی ” انجانی راہوں کا مسافر “بنا دیں تو کبھی چین کا تخلیاتی دورہ کرا کر ہمیں باور کرائیں کہ “یہ جو چین کو علم سے نسبت ہے ” ، یہی اہل چین کی ترقی کا راز ہے۔ یہی ان کی حب الوطنی اور ترقی کی راہ پر گامزن رہنے کے جذبہ کی بنیاد ہے
مصنفہ نے چین سے بھائی کے دعوت نامے سے دعوت کی قبولیت اور ائیر پورٹ سے چین تک کے جہاز کے سفر کو اتنی خوبصورتی سے قلم بند کیا کہ دل میں خواہش اجاگر ہوئی کہ سفر کا آغاز اتنے خوبصورت لفظوں میں کیا گیا ہے تو آگے کیا کیا پڑھنے کو ملے گا ۔
چین میں پہلے دن کی روداد کے بعد دوسرے دن پولیس اسٹیشن پر حاضری کا پڑھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ رہائش کے لیےپولیس سے اجازت لینی پڑتی ہے اور دکھ بھی ہوا کہ ہم ترقی یافتہ ممالک سے اتنے پیچھے ہیں کہ ہمارے ملک میں دوسرے ممالک سے آئے لوگ بغیر دستاویزات کے سالوں رہ کر چلے جاتے ہیں اور کسی بھی ادارے کو علم بھی نہیں ہوتا ۔
جھیل کی سیر اور ہوٹل کی سیر کر کے آگے بڑھے تو مصنفہ کے مہنگے جاگرز کی خریداری اور انکے کم استعمال میں آنے کا دکھ بھی میں نے محسوس کیا ۔
اگلا پڑاؤ دیوار چین تھا جس کے بارے ویسے تو سب جانتے ہیں مگر مصنفہ کی زبانی جاننے کا مزہ ہی اور تھا ۔
میں نے پوری کتاب میں توجہ طلب بات یہ نوٹ کی کہ مصنفہ نے چین کے لوگوں کے سگھڑ پن کا ذکر کئی بار کیا ۔جن ہوٹلوں میں مصنفہ گئیں، وہاں کے کھانے پیش کرنے کے انداز کو بھی متاثر کن انداز میں ہم تک پہنچایا ۔جس سے ہمیں علم ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی چھوٹی سی چھوٹی چیز میں بھی محنت اور تہذیب و تمدن کے رنگ جھلکتے ہیں ۔
مصنفہ نے اس سفر نامے میں چین کے بارے میں ان حقیقتوں سے پردہ اٹھایا جن کو ہم سوشل میڈیا پر دیکھتے تھے مگر یقین نہیں رکھتے تھے جن میں چین میں فضائی آلودگی کا بڑھنا پھر چین کی باشعور قوم کا اس فضائی آلودگی کا خاتمہ کرنا شامل ہے ۔
مصنفہ نے روز مرحلہ زندگی کے معاملات ٬رشتے داروں کے رہن سہن کے ساتھ ساتھ چین میں موجود سیر وتفریح کے مقامات کا جو امتزاج بنایا ہے وہ کافی بھلا محسوس ہوتا ہے ۔اکثر روایتی سفر ناموں میں مختلف مقامات کی جغرافیائی تفصیل بیان ہوتی ہے مگر اس سفر نامے میں مصنفہ نے اپنی ذاتی زندگی کے بھی یادگار لمحات کو قلم بند کیا ہے جو پڑھنے والوں کی دلچسپی میں اضافہ کرتا ہے ۔
تصویروں کے امتزاج کے ساتھ سفر نامے نے اپنے قاری کے لئیے حقیقت کا روپ دھار لیا جس سے قاری کو لگتا ہے کہ مصنفہ انھیں لفظوں سے بتا نہیں رہیں بلکہ قاری بھی مصنفہ کے ساتھ ساتھ گھوم رہا ہے اور مصنفہ اپنے قاری کے ساتھ باتیں کر رہیں ہیں ۔انہیں ہر نئے قدم اور منزل کی معلومات فراہم کر رہیں ہیں ۔
مصنفہ نے کارپینٹر لڑکی کے بارے میں بتایا کہ چین میں ہر انسان خواہ وہ مرد ہو یا عورت خود کو کسی بھی شعبے سے منسلک کرتے ہوئے ہتک محسوس نہیں کرتا۔ اسی طرح چین میں واقع نابینا لوگوں کا مساج سینٹر بھی اسی طرز سوچ کی ایک کڑی تھی ۔ مصنفہ نے ہمیں چین کی سڑکوں سے لے کر چین کے تعمیراتی عجوبوں سے آشنا کرایا ایک ملک کی ترقی میں اس کے ہائی وئے اور تعمیراتی مہارت کا بہت اہم کردار ہوتا ہے ۔
مصنفہ نے چین کی عوام کی حب الوطنی اور ترقی کے جذبے کو ہمارے ذہنوں میں ڈال کر جذبہ حب الوطنی جگانے کی کوشش کی کہ صرف چینی قوم کی پیروی میں ہم بھی اپنے ملک کے لیے نئے راستے بنا سکتے ہیں ۔صنعتی ترقی کے لیے اسٹیل بنانے کے فیصلے کے ذریعے اپنے گھروں سے چمچے چاقو چھریاں لا کر قومی خزانوں میں جمع کر سکتے ہیں تو ہم بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں ۔
چین میں خفے کی مسجد کے متعلق پڑھ کر اور تصویر دیکھ کے خوشی ہوئی کہ چین میں مذہبی آزادی ہے ۔شنگھائی دونگ لی چھنداو کے بارے میں پڑھ کر بھی بہت کچھ جاننے کو ملا۔ مجھے سفر نامے میں شن چیان کی نائلہ کےبارے میں جان کر بہت خوشی ہوئی کہ وہ چین میں رہتے ہوئے آنلائن کپڑوں کا بزنس کر کے لوگوں کے لئیے مشعلِ راہ بنی ہیں کہ انسان میں ہمت و حوصلہ کچھ کر دکھانے کا جذبہ ہو تو کہیں سے بھی کاروبار شروع کر سکتے ہیں ۔
سفر نامے کا اختتام مصنفہ کی ملک واپسی سے ہوتا ہے۔کتاب کے مختلف ابواب اور اختتام کی تصویروں نے سفرنامے کو مزید چار چاند لگا دیے ہیں۔اگرچہ یہ تسنیم جعفری کا پہلا سفر نامہ ہے لیکن کتاب کو کہیں سے بھی کھول کر پڑھیں تو ہمیں عہد حاضر کی ایک ابھرتی ہوئی سپر پاور اور ایک محنتی اور جفا کش قوم کےے بارے معلومات کی روشنی روح میں اترتی محسوس ہوتی ہے۔