کومل شہزادی
اسیرِ ماضی صنف کے اعتبار سے افسانوی مجموعہ ہے جو ٢٠٢٣ ء میں پریس فار پیس یوکے سے شائع ہوا۔ایک سو چوبیس صفحات پر مشتمل یہ افسانوی مجموعہ جس میں ١۵شاندار افسانے شامل ہیں۔شارٹ سٹوری لکھنا بھی ایک فن ہے میراذاتی خیال ہے کہ یہ ناول سے زیادہ فنکار کے لیے مشکل ہوتا ہے کہ وہ اختصار کے ساتھ تمام کہانی کو کامیابی سے تذکرہ کردے۔ناول لکھنے میں جو اتنے صفحات کالے کیے جاتے ہیں وہی کہانی اختصار کے ساتھ بھی لکھی جاسکتی ہے۔شارٹ سٹوری کے حوالے سے والٹر موسلے نے کیا خوب کہا ہے کہ
“A good short story crosses the borders of our nations and our prejudices and our beliefs.”
اول افسانہ ” اسیرِ ماضی “ہے جس میں ماضی کی سرگزشت کے ساتھ اس کی اذیت کا احاطہ بھی کیا گیا ہے۔افسانہ کچھ روحانیت سے لبریز بھی نظر آتا ہے۔مرشدکا کردار مرکزی ہے اور جو مرشد سے مخاطب ہے وہ افسانہ نگار خودکلامی تذکرہ کرتا ہے۔مرشد کے دل میں پرندوں کے لیے حساس کا جذبہ جو اسے غمگین کردیتا ہے۔اس افسانے میں مرشد ساتھ یہ بھی پیغام صادر کرتا ہے کہ
“حال کے امر کو پہچانو،ماضی خواب ہوچکا ،سراب کی جستجو مت کرو۔”
انسان ماضی میں قید رہ کر اپنے حال اور مستقبل کوسنوار نہیں سکتا کیونکہ وہ ایک خودساختہ خول میں قید ہوجاتا ہے اور اسی کے گرد اس کی زیست منڈلاتی رہتی ہے۔
“ساون کی سنسان اوراُداس دوپہر میں مرشد بوڑھے برگد کے نیچے آرام فرما تھے۔۔۔۔۔۔”
افسانہ “سردشام” میں قدامت پسندی کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔قدیم دور میں وہ طرززندگی اور رکھ رکھاؤکہانی کار کے تخیل میں اُمڈ آیا ہے اور وہ اسے نہایت خوبصورتی سے کہانی میں بیان کرتا ہے کہ قاری بھی پڑھ کر اُس دور میں جھانکتا ہے۔
کہانی کار لکھتا ہے ” جب وحشت خوف اور افراتفری نہیں تھی۔لوگ کوہ قاف کی داستان سن کر عشاء کے بعد نیند کی پرسکون وادیوں میں اتر جاتے تھے۔”
کہانی ماضی اور قدیم طرززندگی کے درمیان گردش کرتی نظر آتی ہے۔جدیدیت نے جہاں لوگوں کی طرززندگی تبدیل کی وہیں سادگی اور مخلصی بھی ناپیدا ہوگئی اوراس کی جگہ بناوٹ ،کھوٹ ،منافقت اور خوشامد نے لے لی۔
افسانہ نگار کے ہاں گہری باتیں بھی قاری کو اپنی جانب مائل کرتی ہیں ۔کہانی کار ساتھ فلسفیانہ انداز بھی شاندار رکھتا ہوتو سونے پر سہاگا ہے۔
” جب سرد شام میں تنہائی درددل پردستک دیتی ہے تو دل مغموم ہوجاتا ہے،اداسی روح میں سرایت کرجاتی ہے۔”
” رات کے دکھ میں نیند آنکھوں میں کاٹنے والے لوگ صبح ہوتے ہی جاگتی آنکھوں سے دیکھے ہوئے ادھورے خواب طاقچوں میں احتیاط سے رکھ دیتے ہیں۔”
علاوہ ازیں گرم دوپہر، شب گزیدہ خواہشیں ، چناب کے دُکھ ، ادھوری داستان وغیرہ جیسے عمدہ افسانے بھی شامل ہیں۔تمام افسانوں میں کہانی کار کا انداز وبیان منفرد ہے۔افسانہ نگار کے ہاں یہ فن ہے جو ہمارے منجھے ہوئے افسانہ نگاروں کی بھی تکنیک ہے۔خود کلامی کہانی کہنا بھی ایک فن ہے جو بہت کم افسانہ نگار اس فن میں کامیاب ہوتے ہیں۔افسانے پڑھتے ہوئے منظر نگاری،فلسفیانہ انداز اور شاندار تخیل قاری کو مسحور کردیتاہے اور بلاشبہ افسانہ نگار کو بیان کرنا بھی خوب آتا ہے۔کہانی کارکو منظر نگاری کے بھی فن پر مکمل عبور حاصل ہے۔افسانے پڑھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ الفاظ کو موتیوں میں پرو کر اور تخیل کو انتہائی سنوار کر تذکرہ کیا گیا ہے۔کہانی کار کا بیانیہ انتہائی دلچسپ اور معلوماتی ہے۔ایسی روانی اورفصاحت سے لکھے افسانے کم ہی نظر آتے ہیں۔مصنف کی زبان کی گرفت قابل تعریف ہے۔انہوں نے افسانوں کو جس خوبصورتی اور شاندار طریقے سے بیان کیا ہے یہ ان کا کمال ہے۔
مجھے قوی اُمید ہے کہ کتاب میں جس قدر عمدہ کہانیوں کے ساتھ شاندار فلسفیانہ انداز ہے قارئین کرام اسے دلچسپی کے ساتھ پڑھیں گے۔