Skip to content

کرنل اشفاق حسین کی خود نوشت ” تھینک یو اللہ میاں”۔ تبصرہ قانتہ رابعہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

نام کتاب۔۔تھینک یو اللہ میاں( خود نوشت)

مصنف ۔۔کرنل اشفاق حسین

ناشر ۔۔ادبیات

قیمت 1500

برائے رابطہ۔۔

0423 7232788

0313 7232788

Sulemani@gmail.com

Sulemani.com.pk

تھینک یو اللہ میاں( خود نوشت)
تھینک یو اللہ میاں( خود نوشت)

تبصرہ نگار۔۔قانتہ رابعہ

یادش بخیر۔۔بچپن سے وابستہ انسانوں کی طرح کچھ کتابوں کی بھی بہت خوشگوار یادیں ہوتی ہیں، میرا بچپن اور لڑکپن رضیہ بٹ  اے آر خاتون وغیرہ کے رومانوی ناول پڑھنے کی بجائے کرنل اشفاق کی جنٹلمین سیریز ، صدیق سالک ، کرنل محمد خان، اور شفیق الرحمان کو پڑھتے گزرا ۔۔آج بھی ہمہ یاراں دوزخ ، صولت رضا کی کاکولیات، شفیق الرحمان کی دجلہ  ، سلمی یاسمین نجمی کی بوئے گل اور برف کے قیدی ، جنٹلمین بسم اللہ کے منتخب فقرے اور پڑھنے کے دوران کی کیفیات ذہن میں ہیں۔

چونکہ جنٹلمین سیریز کی تمام کتب میرے مرحوم ادب دوست ماموں عبدالوحید سلیمانی نے شائع کی جب وہ کرنل صاحب سے مسودہ طلب فرماتے مسودہ وصول ہونے اس کی طباعت اشاعت کتابت ہر چیز کے متعلق وہ مجھے ضرور بتاتے۔

 جس طرح مالی پودوں کو پانی دیتا ہے مٹی نرم کرتا ہے ماموں نے میرے اندر ادب سے محبت کا اندازہ لگا کر مجھ پر مالی کی طرح محنت کی۔

اس وقت کے ہر مشہور زمانہ ادیب اور مصنف سے ان کے اچھے تعلقات تھے اس لئے جب کسی کی طرف سے کوئی کتاب ملتی وہ میرے ہاتھوں میں منتقل ہونے میں بس چند دن ہی لیتی شاید ہی کسی ماموں بھانجی کا ایسا سہیلیوں والا تعلق ہو جیسا ہم دونوں کا تھا ۔

کتاب پڑھنا منتخب فقروں کو انڈر لائن کر کے ہم دونوں بہت دیر تک اس پر سیر حاصل گفتگو کرتے ۔

اب سوچتی ہوں کہاں روشنی کا مینار اور کہاں ایک چھوٹا سا جلتا بجھتا مٹی کا دیا،

لیکن یہ ان کی اعلی ظرفی تھی ۔

خیر جنٹلمین سیریز کی جو بھی نئی کتاب آتی مجھے ملتی میں اس پر کالم لکھتی ۔کرنل صاحب کی ہر کتاب بالکل الگ مزاج رکھتی ہے ۔۔کہیں کسی میں مطالعہ کے دوران حلق سے  بے اختیار قہقہے ابلتے ہیں تو کہیں کسی کتاب کے مطالعہ کے دوران آنسوؤں پر قابو پانا مشکل ہوجاتا تھا۔

ان کی نئی کتاب کا شدت سے انتظار تھا۔

عمار عروہ کی مہربانی سے کتاب مل بھی گئی ۔ایک رات کی نیند قربان کر کے پڑھ بھی لی لیکن تین چار ہفتوں کے لئے گھر سے دوری کی وجہ سے تبصرہ موخر ہوتا گیا۔

یہ کتاب “تھینک یواللہ میاں “اصل میں کہنے کو تو خود نوشت ہے لیکن حقیقت میں یہ ان سے وابستہ بہت سے لوگوں کی کہانی ہے۔

کہنے کو یہ ان کی داستان حیات ہے لیکن سادہ سلیس الفاظ میں وہ جو تھے انہوں نے اس قدر عمدگی سے بیان کیا ہے۔

زندگی میں کسی نہ کسی چیز کی محرومی کی وجہ سے احساس کمتری کا شکار رہنے والوں کے لئے یہ صرف کتاب نہیں، پیرومرشد کتاب ہے جو مشکل وقت میں حوصلہ چھوڑ دیتے ہیں ان کے لئے ایک ٹانک ہے۔

اپنی داستان حیات انہوں نے بس گزارے جتنی ہی بتائی ہے جہاں جس چیز کو جتنا ضروری سمجھا ہے اتنا ہی بیان کیا ہے وہ بھی بلیک اینڈ وائٹ ۔۔مطلب بغیر کسی رنگینی کے ۔

میں سوچ رہی تھی ،مصنف نے اپنی شادی کا سرسری سا تزکرہ بس دو چار لفظوں میں تحریر کیا کوئی اور ہوتا تو درجن بھر صفحات بھرے ہوتے بینڈ باجے رسمیں الغرض شادی کے سارے لوازمات بارہ مصالحوں کے ساتھ شامل کئے ہوتے لیکن یہ ایک فوجی کی داستان ہے اور مصنف نے اپنا تزکرہ بھی بس ٹو دی پوائنٹ کیا ہے ،اصل میں دوسروں کی داستان حیات ساتھ لے کر چلیں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔

آغا شورش کاشمیری، اخبار خواتین کی سابقہ مدیرہ شمیم اختر، احسان دانش کی آپ بیتیوں کے خلاصے سے شروع ہونے والی یہ کتاب  کرنل صاحب کو فوج کے اعلی آفیسر  ، ہومیو پیتھی ڈاکٹر، مذہبی سکالر، سمیت درجن سے زائد شعبوں میں ایک ماہر کے طور پر پیش کرتی ہے ۔

کتاب میں مصنف کا انداز ان کی باقی کتب سے بالکل جداگانہ ہے وہ بات سے بات نکالتے ہیں اور سینکڑوں نہیں ہزاروں میل دور نکل جاتے ہیں لیکن کمال مہارت سے قاری کو وہیں واپس لے آتے ہیں جہاں بات چھوڑی تھی لیکن اس عرصے میں یہ ممکن ہی نہیں کہ تاریخ ہو یا ادب ، جغرافیہ ہو یا معلومات عامہ قاری کی معلومات میں کئی گنا اضافہ نہ ہوا ہو ۔

مثال کے طور پر کتاب کا آغاز لاہور کی مال روڈ کے شروع میں نیشنل کالج آف آرٹس سے ہوتا ہے لیکن پہلے یہاں ٹولنٹن  مارکیٹ ہوا کرتی تھی ۔۔  اب مصنف قاری کی انگلی پکڑ کراس کی مکمل تاریخ جغرافیہ بیان کرتا ہے ۔

پھر اس سے ملحقہ نقی روڈ اور بھیم سٹریٹ اور اسحاق ٹیلرز کا ذکر خیر ہے گلی کا نقشہ اور مصنف کی رہائش گاہ کا بیان ہے ۔

لیکن یہ بیان ابھی ادھورا ہے اس کے اڑوس پڑوس کے سارے کردار خواہ فیکہ پہلوان ہو یا فتا تندور والا سب اس کا حصہ ہیں لیکن بہت دلچسپ کردار ہیں اور نفع کی بات یہ کہ ہر کردار ہر واقعہ کا کرنل صاحب نے اپنا بیان قیمت تجزیہ بھی پیش کیا ہے ۔

غریب گھرانے سے تعلق جرم نہیں ۔۔۔اب غربت اور امارت کا فلسفہ بھی ہوگا اور امارت میں سے بھی کچھ نقصان کا علم ہوگا اور یوں غریب ہونے پر بھی اطمینان میسر ہوگا ۔

بھیم سٹریٹ کا تزکرہ ہو اور ہندو دھرم کے ساڑھے پانچ کروڑ خداوں کے بارے میں نہ بتایا جائے یہ کیسے ممکن ہے؟ہندو دھرم کے سارے طبقوں کا دھڑن تختہ نہ کیا جائے ؟بھلا یہ ہوسکتا ہے۔

میں بقائمی ہوش و حواس اقرار کرتی ہوں کہ تاریخ جغرافیہ ہی نہیں مختلف مذاہب کے بارے میں بھی بہت سی نئی معلومات مجھے اس کتاب سے ملیں۔

گردوارہ پنجہ صاحب ہو عیسائیت سکھ مذہب ہو یا یہودیت یہ کتاب آپ کی معلومات میں اضافہ کرتی ہے۔

سومنات کے مندر کی جو  تفسیر کرنل صاحب نے بتائی ہے یوں محسوس ہوتا ہے انہوں نے تقابل ادیان میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے ۔

لاہور پاکستان کا دل اور لاہور کا دل انار کلی 

لیجئیے اب انار کلی پر جو کچھ آپ پڑھیں گے عین ممکن ہے پہلے کبھی نظر سے نہ گزرا ہو۔

انار کلی کا ذکر آئے اورانور مسعود کی ” انار کلی” ( جو ان کے مجموعہ کلام میلہ انکھیاں دا میں شامل ہے) لگے ہاتھوں پیش کی گئی ہے۔

انار کلی بازار کا اتنے دلچسپ انداز میں لکھا ہے کہ گمان ہوتا ہے ہر دکان کے سامنے ہم بھی موجود ہیں۔

22جون 1949ء کو بھیم سٹریٹ کی چار منزلہ عمارت میں آنکھ کھولنے والے بچے جو اپنے والدین اور پانچ بھائیوں کے ساتھ دو کمروں کے مکان میں رہتا تھا نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے غریب گھر اورغربت کے مسائل ایسے لکھے ہیں کہ دل چاہتا ہے یہ کتاب ابتدائی تعلیم میں لازم کردی جائے تاکہ کوئی مائی کا لال اپنے غریب ہونے کی وجہ سے زندگی کے میدان میں سر جھکا کر نہ جئیے ۔

پھر وہی بات اگر بچپن کا ذکر ہے تو نمازوں کا بھی ہے نماز میں کون سی چیزیں غلط انداز سے شامل کردی گئیں سلام پھیرنے سے قبل کس دعا کی کیا اہمیت ہے یہ سب ممکن ہے پچاسی برس کے قاری کو بھی پہلی مرتبہ علم ہو ۔

مجھے ان کے بچپن اور لڑکپن میں تعلیم کے حصول کے لیے کی گئی مشقت سے بہت سے سبق ملے ۔۔قدرت نے کیسے ان کی تقریری اور تحریری صلاحیتوں کو پروان چڑھایا یہ بہت ہی قابل رشک ہے۔

فاضل مصنف کا کمال یہ ہے کہ وہ جس موضوع پر لکھتے ہیں کچا پکا یا ادھورا نہیں لکھتے اور جو لکھتے ہیں خواہ وہ کتنا ہی خشک موضوع ہو اسے اپنے چلبلے انداز سے دلچسپ بناتے ہیں۔

کتاب کے باب

۔۔جمال تقریر میں پڑھایا جانے والا مضمون جغرافیہ پڑھتے ہوئے مجھے پہلی مرتبہ احساس ہوا یہ اتنا بھی خشک اور بور نہیں جتنا میں نے سمجھ رکھا تھا

دوران تعلیم اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستگی اس کی طرف سے یونین کے الیکشن میں نامزدگی، گھر والوں کی طرف سے مصنف کی  شادی کا فیصلہ بہت خاصے کی چیز ہیں۔

یونیورسٹی کے انتخابات والا باب پڑھتے ہوئے تو قاری کے چودہ طبق روشن ہوجاتے ہیں جمعیت کے سارے پینل کا الیکشن جیتنا اما بعد مخالف گروپ کی طرف سے تخریب کاری کا پڑھ کر بہت سی سینہ گزٹ باتوں کی تصدیق ہوئی ۔

جیل یاترا کی کتھا بہت سبق آموز ہے اور پتہ چلتا ہے نظریاتی لوگوں کے خیالات بلند اور ان پر استقامت پہاڑوں سے زیادہ مضبوطی مانگتے ہیں۔

جو لوگ دین کے بارے میں تشکیک کا شکار ہیں انہیں یہ باب خصوصی توجہ سے پڑھنا چاہئیے۔

جیل کے ہر کردار کی الگ کہانی ہے الگ طور طریقے ہیں لیکن قاری ان سے بھی بہت کچھ کشید کرتا ہے۔۔کچھ واقعات سے ایمان تازہ ہوتا ہے اور کچھ سے حیرت بڑھتی ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ جیل کے اندر کی زندگی باہر سے قطعی مختلف ہوتی ہے کرنل صاحب نے اسے بحسن و خوبی یوں لکھا کہ ہر کردار سے ہمدردی ہوجاتی ہے ۔

جیل سے نکلنے کے بعد یونیورسٹی میں شعبہ صحافت میں مصنف کا داخلہ ان کی تحریری صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کا سب سے بہترین ذریعہ بنا۔۔۔اس باب سے پہلے وہ مجھے ماہر جغرافیہ دان، تقابل ادیان کے ماہر لگتے تھے اس میں وہ بطور کامیاب صحافی کے اپنی زندگی کے چند گوشے قارئین کے لئے بے نقاب کرتے ہیں۔

عملی صحافت آسان کام نہیں ۔کرنل صاحب نے بھی اس راستے میں بہت سے کانٹے چنے بہت کچھ دیکھا جو مکالماتی انداز میں پیش کیا گیا ہے ،بالخصوص جب مری روڈ پر واقع سکول میں بدتہذیبی اور بدتمیز بچوں کی انگریزی سدھارنے کے کام کا بیڑہ اٹھاتے ہیں یہ اتنا دلچسپ واقعہ ہے کہ سانس روک کر پڑھنا پڑتا ہےاور یقین ہوجاتا ہے اگر  معلمی کے پیشے سے منسلک ہوتے  توکمال ٹیچر ہوتے۔

مجھے یہاں مری محرومیوں نے پہنچایا

میرے عروج میں میرا کوئی کمال نہیں

اس شعر سے مصنف کی فوجی زندگی کا آغاز ہوتا ہے جس کے ابواب میں

تخلیق جنٹلمین

تھینک یو اللہ میاں

آغاز تحریر

جسے اللہ رکھے

بڑے بیٹے کا انتقال

عربی پڑھتے ہوئے انگریزی میں مہم جوئی

طلبہ سے آنکھ مچولی

عربی کی فصاحت و بلاغت

انگریزی میں تعلیم مزید

تجربات نو بہ نو

تعلیمی میدان مہم جوتیاں

آخری سٹیشن

سے کرشمات ہومیو پیتھی

رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی سے وابستگی

تک کے ابواب ہیں

ہر باب ایک انوکھی داستان لئے ہوئے ہے کہیں ہومیو پیتھی ادویات کے علاج سے شفا یاب ہونے کے  ناقابل یقین قصے ہیں تو کہیں بڑے بیٹے کے انتقال کی دل چیر دینے والی تاثراتی تحریر

یہ سب بہت دلچسپی کے ہمہ جہتی پہلو لئے ہوئے ہے ۔

کرنل صاحب کا شگفتہ انداز بیان اسے اور بھی دلچسپ بناتا ہے۔

اس ساری تحریر کا لب لباب یہ ہے کہ کتاب خرید کر پڑھیں اور مدتوں اس کے سحر میں رہیں۔

ادب اور کتب کا اچھا ذوق رکھنے والوں کے لئے یہ کتاب بیش بہا خزانہ ہے جسے ہر عام و خاص کی لائبریری کی زینت بننا چاہئیے

کہتے ہیں “جنے لہور نئیں ویکھیا او جمیا ای نئیں “

میں کہتی ہوں جس نے یہ کتاب نہیں پڑھی اس نے کچھ اچھا پڑھا ہی نہیں۔

عمدہ طباعت بہترین رنگین تصاویر سے مزین اس کتاب کی اشاعت پر میں ادبیات اور کرنل اشفاق حسین صاحب کو مبارکباد پیش کرتی ہوں۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

Skip to content