Skip to content

: کاغذی سرحدوں کے آرپار / تاثرات کومل یاسین

کتاب : کاغذی سرحدوں کے آرپار
مصنف : مظہر اقبال مظہر
تاثرات :
کومل یاسین

کافی انتظار کے بعد مظہر اقبال مظہر صاحب کا نیا سفر نامہ کاغذی سرحدوں کے آرپار منظر عام پر آ ہی گیا- اس سے پہلے ان کا سفر نامہ “بہاولپور میں اجنبی ” میرے لیے کافی دلچسپی کا باعث تھا میں نے اب تک دو سفر نامے ہی پڑھے ہیں جن میں ایک” انجانی راہوں کا مسافر” اور دوسرا بہاولپور میں اجنبی” تھے یہ دونوں ایسے سفر نامے تھے جن کو پڑھ کر مجھے” لگا کہ  جیسے مصنف کے ساتھ ہم بھی سفر کر رہے ہیں ۔مصنف نے ایسی منظر کشی کی تھی کہ یوں گمان ہوتا تھا  ہر منظر ہماری انکھوں کے سامنے گردش کر رہا تھا ۔ میں نے پہلے دو سفر ناموں کو ذہن کے کینوس پر رنگ بکھرنے دیتے ہوئے تیسرے  سفر نامے یعنی” کاغذی سرحدوں کے آر پار “کو تجسس سے کھولا۔
انتساب ہی اتنا پر خلوص تھا کہ پڑھ کر خوشی ہوئی۔ مظہر اقبال صاحب نے ان لوگوں کو سرا ہا ہوا تھا جو پریس فار پیس پبلیکشنز کے لیے پس پردہ کام کرتے ہیں ۔اللہ پاک ایسے لوگوں کو عزتوں خوشیوں سے نوازے آمین ثم آمین۔
کتاب  کی کوالٹی کی بات نہ کریں تو یہ پریس فار پیس پبلیکشنز کے ساتھ ناانصافی ہوگی ،بہترین کوالٹی کے صفحات اور سر ورق کی تزئین و آرائش بہت خوبصورت کی گئی جو ابرار گردیزی صاحب اور ان کی ٹیم کی محنت کا صلہ ہے۔ اب آتے ہیں مصنف کے لکھے دلچسپ سفر نامے کی جانب ،مصنف کا سب سے اچھا فیصلہ مجھے کار پر سفر کا لگا اس بھاگتی دوڑتی دنیا میں جہاں قدرت کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے وہاں مصنف نے قدرت کو فوقیت دیتے ہوئے صبر و تحمل سے قدرت کی رعنائیوں سے لطف اندوز ہونے کا فیصلہ کیا جو ایک مثبت سوچ کی عکاسی ہے ۔ سچ پوچھیں تو فوکسٹون بارڈر کراسنگ  کا نظم و ضبط پڑھ کر مجھے اپنے پاکستانی نظام سے اختلاف مزید شدت اختیار کر گیا یہاں تو ایک شہر سے دوسرے شہر جانے کے لئیے ٹول پلازہ پر رقم کی ادائیگی کے ساتھ ذلالت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے ۔رقم بھی وہ جو سڑک کی تعمیرات میں استعمال کی جانی ہوتی ہے مگر سڑکوں کا حال برا ہی رہتا ہے ،خیر میں نے سوچوں کے رخ کو دوبارہ  فوکسٹون بارڈر کراسنگ کی جانب موڑا اور پھر سے یورپی ممالک کے منظم نظام کو  دل ہی دل میں سراہنا  شروع کر دیا ۔
سفر نامے کا پہلا پڑاؤ ایفل ٹاور تھا یہ پڑھ کر میری دلچسپی مزید بڑھ گئی۔ مصنف نے نے بہت جامع معلومات فراہم کیں جس میں ایک اور مقام نوٹرڈیم کے بارے میں بھی علم ہوا ۔ نائٹ کروز کے ٹاپک کو پڑھتے ہوئے مجھے مصنف کی حب الوطنی کا اندازہ ہوا کہ محب وطن پاکستانی دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں مگر ہم اپنا وطن نہیں بھولتے۔ پیرس کی خوںصورت رات کو لفظوں میں ڈھالنے سے پہلے مصنف نے کراچی کو فوقیت دیتے ہوئے محب الوطنی کا ثبوت دیا ۔
میرے نزدیک سفر نامے لکھنے والے مصنف میں ایک خوبی لازمی ہونی چاہیے کہ سفر نامہ پڑھتے وقت قاری کبھی اکتاہٹ کا شکار نا ہو اور مظہر اقبال مظہر صاحب کے دونوں سفر نامے پڑھ کر مجھے اس بات کا اندازہ ہوا کہ وہ قاری کو سفر نامے سے اس قدر خوبصورتی سے جوڑے رکھتے ہیں کہ قاری کی توجہ  سفر نامے کے زیر  مطالعہ پڑاؤ اور اگلے آنے والے پڑاؤ پر مرتکز ہو رہتی ہے ۔ مصنف کے ساتھ قاری بھی محو سفر رہتا ہے ۔
سفر نامے کی خوبی یہ تھی کہ یہ جدید ٹیکنالوجی سے قاری کو متعارف کرا رہا تھا اور  خاص طور پر ” ترقی کی راہوں پر گامزن ” ممالک کے باشندوں کو محنت لگن  اور حب الوطنی کے سر شار کر رہا تھا ۔ ہم پاکستانیوں کو اس طرح کے سفر نامے لازمی پڑھنے چاہیے  کیونکہ  ایک تو یہ سفر نامے اس قدر دلچسپ انداز سے بیان کیے جاتے ہیں کہ قاری کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھی مصنف کے ساتھ ساتھ ان جگہوں کا نظارہ کر رہا ہے دوسرا پاکستانی جب ان ترقی یافتہ ممالک کے بارے میں معلومات حاصل کرتے ہیں تو ان کو احساس ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں کس چیز کی کمی ہے؟ کہاں پر ہمارے ملکی نظام میں خرابی یا کوتاہی ہو رہی اور  کیوں ہم دوسرے ممالک اور ان کے باشندوں سے ترقی کی راہوں میں پیچھے رہ گئے ہیں ؟
آخر میں مصنف مظہر اقبال مظہر صاحب سے میرا پر زور شکوہ ہے کہ ” بہاولپور میں اجنبی” کے اختتام پر قارئین کو دو افسانوں کا بونس دیا گیا تھا مگر اس بار مجھے مایوسی ہوئی مصنف کے افسانے بھی کافی جاندار ہوتے ہیں مطالعہ کے بعد قاری کے دل ودماغ پر نقش چھوڑ جاتے ہیں ۔

 


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

Skip to content