Skip to content

ناول نگاری کی کسوٹی پر ایک نیا ناول دھنورا / تبصرہ ڈاکٹر کہکشاں عرفان

ناول نگاری کی کسوٹی پر ایک نیا ناول (دھنورا ڈاکٹر کہکشاں عرفان

)

               اردو ادب کی ہر دل عزیز صنف ناول کی عمر کم و بیش سوا سو سال سے زیادہ ہی ہے۔ ادب اور سماج، سماج اور ناول، ناول اور حیات انسانی ایک دوسرے سے یوں مربوط و مشروط ہیں جیسے آئینہ اور عکس، آگ اور دھواں، پھول اور خوشبو، روح اور تنفس سماج کے بغیر ادب کا تصور نہیں، ادب کے بغیر ناول کی شناخت نہیں، وجود نہیں اور انسان کے بغیر ناول کا وجود نہیں، ناول انسان کی زندگی کا دلچسپ زمانی اظہار ہے اسے انسانی فطرت کے مطابق اظہار کی منزل سے گزرنا ہوتا ہے۔ ادب کی دنیا میں ناول انکشاف ذات، اور اظہار حقیقت کا ایسا نثری بیانیہ ہے جو اپنی وسعتوں میں زندگی کے رنج و غم،مسرت و شادمانی اور کیف وکم کی داستان بن جاتا ہے۔جس میں زندگی اپنے ہر رنگ میں جیتی جاگتی چلتی پھرتی،ہنستی روتی نظر آتی ہے۔ادب زندگی کا عکاس ہوتا ہے اور ناول ادب کی ایک انتہائی زندہ اور متحرک صنف  ہے اس لئے ناول کا فن زندگی کی حرکت و عمل کے تقاضوں کے اعتبار سے تبدیل ہوتا رہتا ہے۔رابرٹ لوئس اسٹیونسن کے مطابق: ” سچا فن کار ہر نئے موضوع کے ساتھ اپنا طریقۂ کار بدلتا رہتا ہے۔”  Novelist on the Novel page 82 اکیسویں صدی کے آغاز یعنی 2001 سے2022 تک کے بائیس برسوں میں سینکڑوں ناول اردو دنیا میں منظر عام پر آئے جن میں قومی اور بین الاقوامی سطح کے سیاسی،سماجی،اصلاحی،احتجاجی،علاقائی، تاریخی، صحافتی، سوانحی،تجرباتی اور ثقافتی ناولوں نے انسانی زندگی کے عروج و زوال،سائنسی تحقیقات و ترقیات،سماجی و سیاسی تغیرات اور عصری مسائل سے متعلق موضوعات کو  اپنے وسیع و عریض دامن  میں سمیٹا  ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں ہی  اردو میں کء قابل ذکر اور اہم ناول منظر عام پر آچکے ہیں۔جن میں مشرف عالم ذوقی کا مرگ امنبوہ،احمد صغیر کا آسمان سے آگے،رینو بہل کا نجات دہندہ،صادقہ نواب سحر کا راج دیو کی آمرائ،آصف زہری کا زباں بریدہ، عمران عاکف کا جے این یو کمرہ نمبر  259، گیٹ نمبر 7، رحمان عباس کے ناول روحزن اور خدا کے ساے میں آنکھ مچولی، زندیق، احمد حسنین کا اندھیروں کے مسافر اور۔منزل منزل، خالد جاوید کا ناول  موت کی کتاب،  ایک خنجر پانی میں، عبد الصمد کا کشکول،سرور غزالی کا شب ہجراں، نسترن فتیحی کا نوحہ گر، حمیرا اشفاق کا۔می سوزم،اختر آزاد کا لاک۔۔۔تھری سکسٹی، عاکف سنبھلی کا موت کے مرحلے، رضوان الحق کا خودکشی نامہ،صفدر زیدی کا بھاگ بھری،قاسم یعقوب کا خلط ملط،ابصار فاطمہ کا افسانے کی حقیقی لڑکی،سیمی کرن کا ایک معدوم کہانی، ممتاز عالم رضوی کے یکے بعد دیگرے دو ناول تعاقب اور خداگنج وغیرہ وغیرہ اور اسلم جمشید پوری کا تازہ اور پہلا ناول دھنورا بھی اکیسویں صدی کے ناولوں میں سر فہرست ہے۔

دھنورا اسلم جمشید پوری کی فکشن نگاری کا نیا تخلیقی کارنامہ ہے اب تک اسلم جمشید پوری نے صرف افسانے اور افسانچے ہی تخلیق کئے تھے مگر اکیسویں صدی میں جہاں ہر خاص و عام، ادیب و ناقد فکشن کی تخلیقی ریس میں شامل ہونا چاہتا ہے وہاں اسلم جمشید پوری جیسا متحرک اور فعال ادیب و ناقد،افسانہ و افسانچہ نگار بھلا کیسے پیچھے رہ سکتا ہے۔ چار افسانوی مجموعات سے وہ اردو اور ہندی ادب میں ایک کہنہ مشق افسانہ نگار کی شناخت تو بنا ہی چکے ہیں مگر ناول نگاری کے میدان خاردار میں یہ اسلم جمشید پوری کا پہلا قدم ہے۔”دھنورا” ناول کا عنوان بھی ہے اور یہی ناول کا مرکزی کردار بھی ہے۔ اس ناول کو علاقاء اور تجرباتی  ناول بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ یہ ناول جس کا نام ”دھنورا” ہے اترپردیش کے بلند شہر کے ایک گاؤں کی کہانی اپنی زبانی ہے۔ یہ کہانی تو دھنورا اور نسل در نسل وہاں پیدا ہونے والے انسانوں اور بہت سے کرداروں کی ہے مگر اس ناول کو پڑھتے ہوے ہر اس قاری کو یہ ناول اپنی زندگی سے قریب محسوس ہوگا۔ جس نے گاؤں کی مٹی میں جنم لیا ہے، گاؤں کی چھاؤں میں پرورش پاء ہے فضل کٹنے کے بعد کھیتوں کی مٹی کو کھود کھود کر پانی کا چھڑکاؤ کر کے مٹی کو نرم ملائم کر کے جسم کو مضبوط کرنے والے کشتی اور کبڈی جیسے کھیل کھیلے ہیں جن کے مضبوط قدموں نے گاؤں کے کچے پکے ٹیڑھے میڑھے طویل راستوں پر پا پیادہ سفر کیا ہو یا سائکل کی سواری کی ہو، گاؤں یا محلے کے ٹیوب ویل میں ڈبکی لگا لگا کر نہایا ہو،  وہ محسوس کرے گا کہ یہ کہانی تو میرے گاؤں کی ہے میرے گاؤں میں رہنے

والے لوگوں کی ہے۔یہ قصہ تو میرے فلاں دادا،چچا، بھاء پڑوسی اور رشتہ دار کا ہے، یہ حرکت و عمل تو میرے گاؤں کے فلاں آدمی کی ہے اس ناول کی فضا دیہی ہونے کے ساتھ بہت مانوس بھی ہے۔ بولیاں مختلف ہوسکتی ہیں مگر جذبات و احساسات کی خو شبو ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔ کسی ناول کی کامیابی کی پہلی شرط یہ ہوتی ہے کہ ناول نگار اپنے اظہار کے لئے کسی ایسے ماحول، پس منظر اور پیش منظر کو دریافت کرنے میں کامیاب ہوجاے جو اس کے تخلیقی اضطراب کے گوں نا گو ں پہلوؤں کو اپنے اندر جذب کرنے کے پورے امکانات رکھتا ہو ناول ایک طویل تخلیقی بہان? نظر ہے جس میں تخیئلاتی  عناصر کی کارفرماء انسانی تجربات،مشاہدات اور حسوسات کے ساتھ ہوتی ہے اور جسے کسی طبقہ کے گزشتہ  واقعات کے ذخیرے کو سجاوٹ کے ساتھ منعکس کیا جا تا ہے۔ ناول دھنورا اس اعتبار سے اپنی  پہلی منزل پر ہی کامیابی کی دہلیز پر آ کر کھڑا ہو جاتا۔ہے   محترم و معمر بزرگ ناقد ڈاکٹر سید علی حیدر صاحب اپنی کتاب ” اردو ناول سمت و رفتار” میں ایک انگریزی اسکالر ایڈن میور کا حوالہ دے کر لکھے ہیں کہ ”ناول اپنی تاریخ ہونے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔ناول نگار اپنے عہد اور زمانے کی بھر پور تصویر کشی کرتا ہے۔”    حوالہ The structure of novel. P.37بحوالہ صفحہ 17 ” اردو ناول سمت و رفتار ”

جبکہ آندرما ریوز  کا کہنا ہے کہ

”ناول میں انسانی زندگی کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ ہم اس سے ایسے واقف ہو جاتے ہیں جیسے ہم خود اپنے آپ کو جانتے ہیں۔” اگر اس تعریف کی کسوٹی پر دھنورا کو پر کھا جاے تو یہ ناول ان اقوال کے مطابق  محسوسات کی ترجمانی کرتا ہے

ناول کا مقصد قصہ اور کہانی بنانا ہوتا ہے۔قصہ ماضی کے جھرونکوں سے جھانکتے ہوئے واقعات،حادثات، مشاہدات و تجربات کی کھٹی، میٹھی،تلخ و شیریں یادوں سے تیار کیا جاتا ہے اور ان واقعات کے تاروں کو تخلیق کار اسے حال کے واقعات و حادثات، تجربات سے بھی منسلک کر کے قصہ میں جان ڈال دیتا ہے اور اسی لئے قصہ یا پلاٹ کی حیثیت ناول میں ریڑھ کی ہڈی کے مانند ہوتی ہے اس لئے پلاٹ کی مظبوطی پر ہی ناول کی کامیابی کا انحصار ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ناول نگار قصہ اور کہانیوں کے واقعات کو پر لطف اور دلچسپ بناکر مگر فطری انداز میں پیش کرتا ہے۔کیونکہ حالات و واقعات کا وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ اور نیچرل یا فطری ہونا ضروری ہو تا ہے تاکہ قاری کو کسی طرح کی نفسیاتی الجھن یا اجنبیت کا احساس نہ ہو اگر  قاری کی توجہ ہٹی تو سمجھ لیجئے ناول کی کامیابی مجروح ہو سکتی ہے کیونکہ قارئین ہی ہیں جو کسی تخلیق کو کامیاب کر تے ہیں اس کو اہم بناتے ہیں۔ڈاکٹر محمد احسن فاروقی کے مطابق ” پلاٹ بنانا ایک قسم کا فن تعمیر ہے۔۔۔خوبی یہ ہے کہ اس میں بناوٹ کا اثر نہ ہو”  حوالہ محمد احسن فاروقی ”ناول کیا ہے” صفحہ 20

تنقید کی اس کسوٹی پر اسلم جمشید پوری کی ناول نگاری اور ناول  دونوں کھرے اترتے ہیں۔انہوں نے نسل در نسل چالیس برس کے تجربات و مشاہدات اور واقعات سے ناول دھنورا کا پلاٹ تیار کیا ہے جو بہت مظبوط،مربوط، فطری اور دیہی تہذیب و ثقافت، رہن سہن،طور طریقے،رسم و رواج اور  بلند شہر کی علاقائی زبان اور لب و لہجہ سے ساتھ دلچسپ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ناول چونکہ انسانی زندگی کی داستان ہے جسے مختلف قصوں اور کرداروں کے ذریعہ پیش کیا جاتا ہے۔ ناول میں کرداروں کے ساتھ انسانی جذبات و احساسات کا بھی اہم رول ہوتا ہے اس لئے ناول نگار کو جذبات نگاری کے فن سے بھی واقف ہونا ضروری ہے۔کیونکہ موقعہ محل کے اعتبار سے جذبات نگاری کا استعمال ناول میں جان ڈال دیتا ہے۔ قصہ کی کامیابی کا راز بہت کچھ کرداروں کی صحیح تخلیق میں پوشیدہ ہوتاہے۔پریم چند کا کہنا ہے ” میں ناول کو انسانی کردار کی مصوری سمجھتا ہوں”  حوالہ مضامین پریم چند صفحہ 209

مگر اسلم جمشید پوری نے اس خیال  سے انحراف کرتے ہوے ایک انفرادی رویہ اپنایا ہے  اسلم جمشید پوری کے ناول دھنورا  میں کسی مخصوص  انسانی کردار کو مرکزیت نہیں حاصل ہے بلکہ مرکزی کردار کی صورت میں مغربی  اتر پردیش کے ضلع  بلند شہر کے  نواح میں بسے ایک گاؤں دھنورا کو وجود عطا کیا ہے  زبان عطا کی ہے جو واحد  حاضر متکلم صیغہ کے ساتھ خود اپنا تعارف کراتا ہے۔ ناول کا پہلا باب  کچھ اس انداز میں شروع ہوتا ہے۔”میں دھنورا بول رہا ہوں ضلع بلند شہر کا ایک گاؤں مجھے آباد ہوے کوء ساڑھے چار سو برسوں کا زمانہ گزرا ہوگا۔ایک روایت کے مطابق کء صدی قبل جہانگیر آباد سے دہلی لوٹتے ہوے عالمگیر اورنگ زیب کا اپنی فوج کے ساتھ یہاں قیام ہوا تھا۔بعد میں کافی لوگ یہاں رک گئے۔انہیں کے دم پر میں آباد ہوا۔میرا پورا نام عالم

گیر پور دھنورا ہے۔پر میں دھنورا کے نام سے ہی جانا جاتا ہوں۔” ناول دھنورا باب -1 صفحہ 12

               ناول نگار نے بڑی مشاقی اور فن کاری کے ساتھ ایک  گاؤں کو ناول کا مرکزی کردار بنایا بلکہ اس بے جان جگہ کو زندگی اور زبان عطا کی تاکہ دھنورا اپنا تعارف خود کرا سکے  اپنی تاریخ، اپنی جسامت اپنے طول و عرض  اور اپنے وجود کے ساتھ ساتھ اپنے اندر بسنے والے انسانوں کے بارے میں بھی بتا سکے۔ حالانکہ یہ بھی سچ ہے کہ یہ کہانی دھنورا میں رہنیوالے ان تمام انسانوں کی ہی ہے جن کے دم سے دھنورا میں زندگی ہے،محبت ہے بھاء چارہ ہے خو شیاں اور غم ہیں۔شادی بیاہ کے رسم و رواج ہیں، روزی روٹی کے مسائل ہیں، مگر کوء خاص کردار مخصوص نہیں۔ دھنورا کی  پہلی نسل میں بابا اشرفی، اسماعیل خاں،انامی بابا،جھوٹا سنگھ،نورنگ سنگھ،نول سنگھ،دوسری نسل میں رگبر سنگھ،مٹرو سنگھ،بشیر خاں،نصیر خاں،سردار جی،ٹیلر ماسٹر رشید،بابوجی رشید،نور محمد،شری گر،وحیدن،روپ وتی،رشیدن اور شبراتن کے بعد تیسری نسل میں شمس الدین،اختر مشتاق،خاتون عرف ختو، انوری،اشفاق،عبد القادر،پھول سنگھ،کے بعد کی نسل میں یامین،احسن،الیاس،پروین،فردوس،شکیل، نواب،اثرن، فیروز، توصیف،راحت جان،اکرم،ببلو  کے بعد ان کے بچے بھی شامل ہوگئے یوں یہ ناول دھنورا کی کء پیڑھیوں کی کہانی ہے جسے اسلم صاحب نے ناول دھنورا کی شکل ں میں تخلیق کیا ہے۔ ان کرداروں میں کچھ کردار بہت اہم ہیں جیسے شمس الدین جنہیں سب بابو جی کہتے ہیں اور ان۔کی شریک حیات جنہیں سب بی بی کہتے تھے ان دونوں کرداروں کے اندر خاندان والوں کا آپس میں جوڑ کر رکھنے اور ایثار کا جو جذ بہ ہے وہ بہت مثالی ہے دونوں نے اپنے بزرگ رشتوں کے لئے عمر بھر قربانیاں دیں اور ہجر کا درد برداشت کرتے رہے فرماںبردار، اطاعت گزار، شوہر پرست  اور خدمت گزار  بی بی نے ازدواجی زندگی  کے پچپن سالہ سفر میں زندگی کی آسایشوں کے رنگ بہت کم دیکھے۔غربت و افلاس میں بھی شکر گزاری غالب رہی قناعت کا دامن نہ چھوٹا۔نء نسل کی بدولت والدین کو ہجر اور ہجرت  کا جو درد ملتا ہے بابو جی اور بی بی بھی اس نا آشنا نہیں رہے، ” ایک وقت ایسا بھی آیا جب بی بی گھر پر اکیلی رہ گئیں۔احسن اور یامین دوسرے شہروں میں اپنے بچوں کے ساتھ مقیم تھے بابو جی اکثر کبھی احسن کبھی یامین کے پاس اور کبھی کام کے سلسلے میں کء کء مہینے باہر رہتے۔لمبے چوڑے مکان میں بی بی اکیلی رہتیں۔وہ کچے مکان کی پختہ دل مکین تھیں ” دھنورا صفحہ 134

               دھنورا کو ناول نگاری کے  فنی  آئینے میں دیکھیں تو  اس کی جسامت اس کا حسن اس کی کہا نیوں اور قصوں میں ہی مضمر ہے ہر باب میں دھنورا کے لوگوں کے قصے،کہانیاں، واقعات، جذبات و احساسات قاری کو محصور  بھی کرتے ہیں اور مسحور بھی،  ناول میں تجسس کا عنصر نہ ہو تو قاری  اوبنے لگتا ہے اور ناول بے توجہی کا شکار ہو جاتا ہے مگر دھنوار کی تخلیقیت میں ناول نگار نے قاری کا باندھے رکھنے کے لئے سب سے بڑا حربہ  خالص دیہی زبان اور دیہی زندگی کے  ریت رواج، رہن سہن، بول چال،شادی بیاہ، رسومات، گیت گانے،ناٹک نوٹنکی اور مزاحیہ پہلوؤں کا فطری پن  استعمال کیا ہے جو قاری کو بہکنے نہیں دیتا ہے۔ آج سے تقریبا چالیس پچاس برس پہلے کی یہ روایات اب زندہ ہیں یا نہیں کیونکہ وقت کی گردش نے بہت کچھ الٹ پلٹ دیا ہے۔نہ وہ پرانی روایتیں باقی ہیں نہ محبتیں زندہ ہیں کیونکہ اب گاؤں کی معطر  فضا میں بھی شہر کی الکوہلک پرفیوم  کی خوشبو آنے لگی ہے۔بھاء چارہ اور ہندوستان کی  گنگا جمنی تہذیب بھی مذہبی منافرت کی نذر ہوتی جارہی ہے۔ آئیے دھنورا  کے آئینے   میں آج سے چالیس پچاس برس پہلے کے  دیہی تہذیب و ثقافت اور رسم و رواج کو دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں۔جو اب یقینا باقی نہیں رہے۔ اب نہ سواروپیے کی کوء قیمت ہے نہ بزرگوں کی کوء وقعت بارات میں نوجوانوں کے ناز و انداز ہوتے ہیں۔ اب نہ پالکی بچی ہے نہ ڈھولکی نہ ٹریکٹر جیسی بدہیئت سواری پر کوء باراتی سوار ہوتا ہے۔گاؤں کی کچی پکی ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈیوں پر بھی کاریں چلنے لگی ہیں۔اور ڈھولک کون بجاے جب ڈی جے گلا پھاڑ  گانے  اور ٹھیکے لگانے کے لئے ایجاد ہوگیا ہے۔ اب نیچے بیٹھ کر کھانا کھلانا بہت معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اسکولوں کی عمارتیں جو کبھی تعلیم کے ساتھ شادی اور بارات کے کام آیا کرتی تھیں اب ان کی جگہ میرے ہال یا شادی گھروں نے لے لی ہے۔

               نصیر خاں کے دوسرے بیٹے اشفاق کی شادی تھی۔۔۔۔۔اور ٹریکٹر بارات لئے چل پڑا۔۔۔۔ گولن  داز فقیر ے نے ایک گولا داغا۔۔۔یہ پہلا

گولا گاؤں والوں کو بارات کی آمد کی اطلاع کے لئے ہوتا تھا۔ بارات کا استقبا ل کرنے کو نصیر خان کے  سمدھی لیاقت علی اور ماسٹر دینا ناتھ،حافظ عثمان جیسے بزرگ آے تھے۔ان کے ساتھ گاؤں کے کء اور معزز ہندو مسلمان شامل تھے۔ماسٹر دینا ناتھ نے شگن کا سوا روپیہ،بارات کے سب سے بزرگ شخص  اسماعیل خاں کے ہاتھ پر رکھا۔ایک دوسرے سے گلے ملے اور بارات گاؤں کی طرف پیدل چل پڑی۔بزرگ ٹریکٹر میں دو لہے کے ساتھ بیٹھے رہے باقی پیدل چل رہے تھے۔گاؤں والوں نے دو ڈھولکیے اور نچکیے بلا رکھے تھے آگے آگے وہ ناچتے جاتے اور پیچھے پیچھے بارات۔لڑکیاں بالیاں ادھر۔ادھر کھڑی بارات دیکھ رہی تھیں۔اسکول کے احاطے میں بارات کے رکنے کا ا نتظام  تھا۔چارپائیاں اور دریاں بچھی تھیں۔کچھ حقے بھی رکھے تھے  بیڑی کے بنڈل اور ماچسیں بھی رکھی تھیں۔کچھ ہی دیر بعد بارات کا استقبال دودھ روح افزا کے شربت سے ہوا۔نکاح کے بعد کھانے کے لئے ایک  بیٹھک میں لے جایا گیا وہاں زمین پر تھان لمبائی میں بچھے تھے۔ باراتی بیٹھ گئے  تو پراتوں اور تھالوں میں چاول، بورا اور بالٹیوں میں دال لئے لوگ حاضر تھے بڑے مزے سے کھانا گیا۔”دھنورا۔صفحہ 31

               ناول نگاری میں مکالموں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔یہ ناول نگار کے دست تخلیق میں اظہار کا بہترین آلہ ہے۔ اس آلے کو بھی اسلم جمشید پوری نے بخوبی استعمال کیا ہے۔ زبان کے ساتھ منظر نگاری بھی خوب کی ہے۔ملاحظہ فرمائیں۔

               ” بلند شہر کالی ندی کی وجہ سے بھی مشہور ہے کالی ندی عام دنوں میں ایک  نالے جیسے ہوتی ہے جبکہ برسات میں یہ اپنی چوڑائی بڑھا لیتی ہے اور اس کے کنارے یوں پھیل جاتے ہیں گویا کسی حسینہ نے انگڑاء لے کر اپنے ہاتھ پھیلا دیئے ہوں۔۔۔۔۔۔۔رات تاریک تھی چاروں طرف ہو کا عالم تھا قافلہ جب دھنورا سے چلا تو موسم اچھا تھا اچانک مغرب کی طرف سے سیاہ بادلوں کا ایک  جھنڈ جھومتا ہوا آیا اور اس نے سب سے پہلے چاند کے  منھ  پر کالک پوتی۔چاند مارے شرم کے ایسا غائب ہوا کہ چاروں طرف اندھیرا چھا گیا۔واپسی پر ہوا نے ہنڈوں کو بھی دم توڑنے پر مجبور کر دیا۔”  صفحہ 13

               بلند شہر علاقے  کے لب ولہجے اور دیہی زبان اور بولیوں کا وافر مقدار میں استعمال ہوا ہے جو دھنورا کی شناخت ہے کیونکہ کسی بھی قوم،نسل یا ملک کی شناخت  میں زبان اور تہذیب و ثقافت وجود بہت اہم  ہوتا ہے۔ملاحظہ فرمائیں

               ”بھئی جرا جلدی جلدی قدم بڑھالیو۔۔۔موسم خراب ہونے والا ہے۔۔۔۔ہاں بھء لپک لیو۔۔۔۔بادلوں کے جھنڈ نے پورے آسمان کو  ڈھک لیا تھا۔اندھیرا اتنا گہرا تھا راستے بھی بمشکل سے پہچان میں آرہے تھے۔ارے ان بالکن کو کہو جرا جمین  پر ہی پاؤں دھریں۔۔۔جرا ہوش میں چلیو۔۔۔۔۔ ”حوالہ  دھنورا صفحہ  33-34

اسلم جمشید پوری کا تخلیق کردہ ناول دھنورا 191 صفحات اور 34 ابواب پر مشتمل ہے اور میٹر لنک پبلیشرز  لکھنؤ سے شائع ہوکر 2022  میں منظر  عام پر آکر اکیسویں صدی کے ناولوں کی فہرست میں اضافہ کر چکا ہے۔ اسلم جمشید پوری تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ تنقیدی بصیرت رکھتے ہیں۔افسانوی ادب اور  فکشن پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ان کی تنقیدی تصنیفات میں ”جدیدیت اور اردو افسانہ”، ”ترقی پسند اردو افسانہ”،”آزادی کے بعد اردو افسانہ”،”اردو افسانہ تعبیر و تنقید”، ”اردو فکشن تنقید و تجزیہ”،” جدید اردو افسانہ بدلتی قدریں”،”اردو فکشن کے پانچ رنگ”، ”دو دہائیوں کا اردو فکشن”،”ترقی پسند اردو افسانہ” اور چند اہم افسانہ نگار” ان کی تنقیدی بصیرت تحقیقی صلاحیت  اور وسیع مطالعہ کا ثبوت ہیں اسلم جمشید پوری کے افسانوں کے مطالعے سے یہ واضح ہوا کہ ان کی تخلیقات کا بنیادی موضوع دیہات اور اس کی تہذیب و ثقافت ہے۔اور ناول دھنورا بھی دیہی تہذیب و ثقافت کا آئینہ  ہے۔ اس ناول کے توسط سے ناول نگار نے بڑے سلیقہ  اور فن کاری کے ساتھ یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ گاؤں کی مسائل سے پر مشکل مگر پر خلوص اور خوشگوار تصنع سے عاری   زندگی،  بے لوث لوگ، دیہی بھاء چارہ، آسائشات،رنگ و روغن سے پاک کچے گھر  اور مرغن لذیذ کھانوں سے خالی دست خوان میں تبدیلی آچکی ہے،جو  لوگ باجرہ اور مکء کی روٹیوں،دال، چٹنی کھا کر بھی آسودہ لوگ رہتے  تھے اب نہیں رہے،   محنت طلب زندگی بھی وقت کے ساتھ اپنی سانسوں کی ڈور توڑ چکی ہے، سائنس اور  ٹیکنالوجی کی دیوی  کی  گاؤں میں بھی پوجا ہونے لگی ہے  شہر سے   دور دیہات کی خالص فضا میں

بھی اب شہری  تہذیب، ذوق و   شوق، آسائشات،  سیاسی اقتدار  د بے پاؤں  داخل ہوچکے ہیں اور گاؤں کی پر خلوص فضا کو آلودہ کر چکے ہیں۔اس ناول کا آغاز  گاؤں دھنورا کے ذریعے  اپنا تعارف کراتے ہوے کیا گیا ہے اور ناول کا  ہر باب اپنے دامن  میں ایک کہانی نہیں قسم قسم کے  قصوں کو سمیٹے ہوے ہے۔مگر آخر میں پھر دھنورا کی پکار سناء دیتی ہے جو اپنی روایتوں، اپنے بھاء چارے،اپنی گنگا جمنی تہذیب کو بچانے میں ناکام ہو گیا ہے۔اس کے بازو کمزور ہوگئے اس کے  محبت کرنے والے بچے بڑے ہوکر بوڑھے ہوے اور دار فانی  سے کوچ کر گئے اور نء نسلیں روزگار کے لئے شہروں میں جابسیں اور اپنے ساتھ رواداری،اخلاق  بھاء چارہ بھی لے گیئں۔ گاؤں کی بھاء چارگی کو دھنورا بہت بے چارگی سے آواز لگاتا ہے سیاست،منافرت  ہندوتو اور زعفرانی جلوس کو روکنے کی ناکام کوشش کرتا ہے مگر افسوس دھنورا کی سرحد میں زعفرانی جلوس داخل ہوگیا۔ناول کے انجام میں  دھنورا کا بوڑھا جسم  جو جمہوریت کا امین  اور  گنگا۔جمنی تہذیب کا گہوارہ تھا اس میں زبردستی زعفرانی طاقتیں داخل ہو جاتی ہیں۔ملاحظہ فرمائیں۔

” میں دھنورا بول رہا ہوں۔دھنورا نے گھبراکر آواز دی۔۔بیر پال کپاسیے۔سردار سنگھ،ہمانشو،منیش سنگھ،الیاس،منیم جی،قمرالدین چلیو،چلیو رے گاؤں کے راستوں پر کھڑے ہوجاؤ۔دیکھو یہ قافلہ گاؤں میں نہ گھسنے پا?۔۔۔۔۔۔۔۔مگر کچھ دیر بعد لوگوں نے دیکھا قافلہ کچھ جد جہد کے بعد گاؤں میں داخل ہو رہا تھا اور نء نسل قافلے کا استقبال کر رہی تھی۔” دھنورا  صفحہ 189

یہ وہ آئینہ ہے جس سے  آج کوء بھی ذی شعور نظریں نہیں چرا سکتا آج کے ہندوستان کی تصویر کچھ ایسی ہی ہے عصری مسائل سے جوجھتا  جمہوری بھارت اب کمزور ہوگیا ہے اب کوء اس کی جمہوریت کی حفاظت کرنے والا نہیں۔ دھنورا تو ایک علامت  ہے سچ یہ کہ یہ کل کے ہندستان اور آج کے بھارت کی سچی تصویر کشی ہے حقیقت کو افسانہ اور سچے واقعات،حادثات اور تجربات کو قصہ بنانا ایک فن ہے آرٹ ہے ناول لکھنا ایک تخلیقی فن ہے۔اور میں سمجھتی ہوں اسلم جمشید پوری اس فن میں کامیابی کا دریا عبور  کر چکے ہیں۔ناول تو صحیح معنوں میں ترجمان العصر ہوتا ہے۔وہ وسیع تر انسانی زندگی کا بھر پور اور مکمل ریکارڈ پیش کرتا ہے ناول کو تعریف کے حدود میں جکڑنا یا قید کرنا بہت مشکل امر ہے ہر اچھے ناول کی پہچان اس کی حقیقت نگاری ہوتی ہے۔اس سے وہ اپنی ذات کا انکشاف کرتا ہے۔ نہ دھنورا خیالی ہے نہ دھنورا کے کردار، تصورات اور تخیلات کو اس ناول میں بہت کم  جگہ  ملی ہے یہ مجسم و مکمل حقیقت نگاری کی بنیاد  پر تخلیق کردہ ناول ہے۔اگر دھنورا کی تکنیک کی بات کی جاے تو تکنیک کے بارے میں ناول نگار نے دھنورا کے پیش لفظ میں خود یہ اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے دھنورا کی تخلیق میں کولاژ تکنیک کا استعمال کیا ہے۔ اسلم جمشید پوری خود  لکھتے ہیں ” یہ ناول کولاژ تکنیک پر لکھا گیا ناول ہے جو مغرب میں زیادہ رائج ہے اردو میں بہت کم استعمال ہوء ہے۔” حوالہ   دھنورا صفحہ 8

اسلم جمشید پوری نے اپنے حالیہ افسانوی مجموعہ کے پیش لفظ میں بھی اپنے افسانوں کے حوالے سے کولاژ تکنیک کا ذکر کیا ہے۔اور اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے کہ نور الحسنین کا ناول ” چاند ہم سے باتیں کرتا ہے جو 2020 میں غالبا شائع ہو کر منظر عام پر آچکا ہے۔” یہ اردو کا پہلا ایسا ناول ہے جو کو لاژ تکنیک پر لکھا گیا ہے ”  گؤ دان سے پہلے” صفحہ10

  ہاں قاری کے دل میں یہ سوال ضرور آسکتا ہے  کہ کولاژ ٹیکنیک  کیا ہے؟ کیسی ہے؟ اور اردو ادب میں اس کا استعمال کن کن اصناف میں ہوتا ہے؟  اس پر گفتگو ہونی چاہئے  حالانکہ آج کا قاری بہت باخبر اور با علم ہے۔کولاژ تکنیک پر الگ سے گفتگو ہو سکتی ہے۔  اسلم جمشید پوری کے افسانوں کا مجموعہ بھی کو لاژ کے عنوان سے 2014 میں منظر عام پر آ چکا ہے۔ اسلم جمشید پوری ایک مشاق اور تجربہ کار  افسانہ نگار ہیں اور وہ ایسے تجربات اپنے افسانوں میں بھی  کرتے ہیں کولاژ لفظ اور تکنیک کو وہ عام کرنا چاہتے ہیں شاید اسی لئے بار بار اس لفظ اور تکنیک کا استعمال کرکے اس تکنیک سے ہر خاص و عام کو متعارف کرانا چاہتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ افسانہ نگاری نے اپنی بانہیں پھیلائیں اور  اپنا دامن وسیع کردیا تو ناول وجود  میں آگیا۔ ان کی اس کامیاب کوشش کے لئے مبارک پیش ہے۔

ڈاکٹر کہکشاں عرفان


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

Skip to content